Search
Close this search box.

رسائل و مسائل

قرآن وسنت سے ما ٔخوذ قوانین کی حیثیت

سوال

آپ نے فرمایا ہے کہ جن معاملات میں خدا کے قانون میں ہدایت موجود نہیں ہے، ان میں قانون سازی کے اختیارات عام مسلمانوں کو حاصل ہیں ۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا لوگوں کے دلوں میں ایسے قوانین کے لیے بھی دوسرے الٰہی قوانین کی طرح احترام پیدا ہونا ممکن ہے؟

جواب

یہ بات اچھی طرح سمجھ لیجیے کہ جن امور میں ہمیں آزاد چھوڑا گیا ہے، ان میں آزاد ہونے کے معنی یہ نہیں ہیں کہ ان امور میں قانون سازی کرتے وقت اسلام کے اصول عامہ سے انحراف کیا جائے اور اس کے تصور انصاف کو بالاے طاق رکھ دیا جائے۔ ظاہر بات ہے کہ ایسے امور میں قانون سازی کرنے کے مجاز اور اہل وہی لوگ ہوسکتے ہیں جن کا ذہنی، اعتقادی اور فکری پس منظر پوری طرح اسلامی ہو۔ کوئی شخص جو مروجہ قانون کی بڑی سے بڑی سند بھی رکھتا ہو، لیکن جب تک وہ کتاب و سنت سے واقف نہیں ہے اور اسلام کے اصول عامہ اور تصور عدالت و انصاف سے آگاہ نہیں ہے، وہ اسلامی قانون سازی کا اہل نہیں ہے۔ لیکن اگر ایک شخص موجودہ دور کے قوانین سازی کرتے وقت نہ تو اسلام کے اصول عامہ سے انحراف کرے گا اور نہ اسلام کی حقیقی روح کو نظر انداز کرےگا۔
فقہاے امت نے جو قانون سازی کی ہے وہ یہی شان رکھتی ہے اور یہ قانون سازی ایک بڑی ناگزیر ضرورت ہے۔ کیونکہ قرآن مجید میں احکام کی تفصیلات نہیں ہیں ۔ بلکہ اصولی اور اجمالی ہدایات دی گئی ہیں ۔ مثلاً قرآن مجید میں چور کے ہاتھ کاٹنے کا حکم دیا گیا ہے لیکن اس کی تفصیلات نہیں ہیں ۔ یعنی یہ نہیں بتایا گیا کہ کس چوری پر ہاتھ کاٹا جائے؟ کون سا ہاتھ اور کہاں سے کاٹا جائے؟ اس نص قرآنی کی کچھ تشریح احادیث میں بیان ہوئی ہے اور اس کے بعد ساری تفصیلات فقہا نے متعین کی ہیں ۔ اگر ایک حکم قرآن مجید میں صرف ایک سطر میں بیان ہوا ہے اور پھر احادیث میں اس کی تشریحات ایک صفحے میں آتی ہیں تو ان کی روشنی میں فقہا میں جزئیات اور تفصیلات کم از کم پچیس تیس صفحات میں پھیلی ہوتی ہیں ۔ ان فقہا میں جزئیات اور تفصیلات کے درمیان اختلاف بھی پیدا ہوئے ہیں لیکن اپنی ساری اختلافی بحثوں کے باوجود انھوں نے اسلام کے اصول عامہ سے کہیں کوئی سرِ مُو تغیر نہیں کیا اور نہ اسلام کے بنیادی مسلمات سے باہر جاکر کوئی تشریح کی ہے۔ ان کے درمیان جو اختلافات پائے جاتے ہیں ، ان کی حیثیت ویسے ہی معقول اختلافات کی ہے جو مختلف اہل فکر کے درمیان فطری طور پر پیدا ہوتے ہیں لیکن اس سے کسی پر بدنیتی اور عدم اخلاص کا شبہہ نہیں کیا جاسکتا۔
اب رہا ایسے قوانین کے احترام کا معاملہ! اگر قانون کی تشریح کرنے والے ایسے لوگ ہوں جن کے ایمان اور اخلاص اور کردار پر لوگوں کو یقین نہ ہو تو قانون کا احترام کبھی پیدا نہیں ہوگا۔ لیکن اگر اس کے برعکس قانون بنانے والوں یا شارحین قانون پر لوگوں کو کامل اعتماد ہو تو ان کے وضع کردہ قوانین کو بھی وہی احترام و اعتماد حاصل ہوگا۔ مثلاً فقہاے اسلام سب کے سب ایک مثالی سیرت و کردار کے مالک لوگ تھے، ان میں سے کسی ایک پر بھی کسی بددیانتی، خود غرضی یا نفس پرستی کا الزام نہیں لگایا جاسکتا، بلکہ اس کا شبہہ بھی نہیں ہوسکتا۔ یہ لوگ جس درجے کے بے غرض، مخلص اور بے لوث تھے اور بے داغ سیرت و کردار کے مالک تھے، یہ اسی کا نتیجہ ہے کہ ان کے تجویز کردہ قوانین کو لوگ صدیوں سے مانتے چلے آرہے ہیں اور آج بھی کروڑوں لوگ مانتے ہیں ۔ یہ غیر معمولی اعزاز، جو ان کو حاصل ہوا اور آج بھی حاصل ہے تو یہ صرف اس لیے ہوا ہے کہ ان کی زندگیاں نہایت پاکیزہ اور قابل اعتماد تھیں ۔
پھر ایک بات یہ بھی یاد رکھنی چاہیے کہ احترام قانون کے لیے خود معاشرے کے لوگوں کا ایمان دار اور قانون کے بارے میں مخلص ہونا بھی ضروری ہے۔ کیوں کہ اس کے بغیر احترام قانون کے تقاضوں کا پورا ہونا محض ایک خام خیالی ہے۔
(ہفت روزہ ’’آئین‘‘ لاہور، ۲۲ نومبر ۱۹۶۷ئ)