ان تفصیلات سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ لفظِ دین کی بنیاد میں چار تصورات ہیں، یا بالفاظِ دیگر یہ لفظ عربی ذہن میں چار بنیادی تصورات کی ترجمانی کرتا ہے۔
۱۔ غلبہ وتسلط، کسی ذی اقتدار کی طرف سے۔
۲۔ اِطاعت، تعبد اور بندگی صاحبِ اقتدار کے آگے جھک جانے والے کی طرف سے۔
۳۔ قاعدہ وضابطہ اور طریقہ جس کی پابندی کی جائے۔
۴۔ محاسبہ اور فیصلہ اور جزا وسزا۔
انھی تصورات میں سے کبھی ایک کے لیے اور کبھی دوسرے کے لیے اہلِ عرب مختلف طور پر اس لفظ کو استعمال کرتے تھے، مگر چوں کہ ان چاروں اُمور کے متعلق عرب کے تصورات پوری طرح صاف نہ تھے اور کچھ بہت زیادہ بلند بھی نہ تھے اس لیے اس لفظ کے استعمال میں ابہام پایا جاتا تھا۔ اور یہ کسی باقاعدہ نظامِ فکر کا اصطلاحی لفظ نہ بن سکا۔ قرآن آیا تو اس نے اس لفظ کو اپنے منشا کے لیے مناسب پاکر بالکل واضح ومتعین مفہومات کے لیے استعمال کیا اور اسے اپنی مخصوص اصطلاح بنا لیا۔ قرآنی زبان میں لفظ دین ایک پورے نظام کی نمایندگی کرتا ہے جس کی ترکیب چار اجزا سے ہوتی ہے۔
۱۔ حاکمیت واقتدارِ اعلیٰ
۲۔ حاکمیت کے مقابلہ میں تسلیم واطاعت۔
۳۔ وہ نظامِ فکرو عمل جو اس حاکمیت کے زیر اثر بنے۔
۴۔ مکافات جو اقتدارِ اعلیٰ کی طرف سے اس نظام کی وفاداری واطاعت کے صلے میں یا سرکشی وبغاوت کی پاداش میں دی جائے۔
قرآن کبھی لفظِ دین کا اطلاق معنیٔ اوّل ودوم پر کرتا ہے، کبھی معنیٔ سوم پر، کبھی معنیٔ چہارم پر اور کہیں الدین بول کر یہ پورا نظام اپنے چاروں اجزا سمیت مراد لیتا ہے۔ اس کی وضاحت کے لیے حسبِ ذیل آیاتِ قرآنی ملاحظہ ہوں۔