Search
Close this search box.

فہرست موضوعات

عرضِ ناشر
مقدمہ
مسئلہ جبر و قدر کی حقیقت
اختیار و اضطرار کا ابتدائی اثر
مسئلہ جبر و قدر کا نقطۂ آغاز
مابعد الطبیعی نقطۂ نظر
فلسفے کی ناکامی
طبیعی نقطۂ نظر
سائنس کی ناکامی
اخلاقی نقطۂ نظر
اخلاقیات کی ناکامی
دینیاتی نقطۂ نظر
صحیح اسلامی مسلک
متکلمین اسلام کے مذاہب
مذہب قدر
قرآن مجید سے قدریہ کا استدلال
مذہب جبر
قرآنِ مجید سے جبریہ کا استدلال
متکلمین کی ناکامی
تحقیق مسئلہ
امور ماورائے طبیعت کے بیان سے قرآن کا اصل مقصد
مسئلہ قضا و قدر کے بیان کا منشا
عقیدۂ تقدیر کا فائدہ عملی زندگی میں!
تناقض کی تحقیق
حقیقت کی پردہ کشائی
مخلوقات میں انسان کی امتیازی حیثیت
ہدایت و ضلالت
عدل اور جزا و سزا
جبرو قدر

مسئلہ جبرو قدر

اس ویب سائٹ پر آپ کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ اب آپ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی رحمتہ اللہ علیہ کی کتابوں کو ’’پی ڈی ایف ‘‘ کے ساتھ ساتھ ’’یونی کوڈ ورژن‘‘ میں بھی پڑھ سکتے ہیں۔کتابوں کی دستیابی کے حوالے سے ہم ’’اسلامک پبلی کیشنز(پرائیوٹ) لمیٹڈ، لاہور‘‘، کے شکر گزار ہیں کہ اُنھوں نے اس کارِ خیر تک رسائی دی۔ اس صفحے پر آپ متعلقہ کتاب PDF اور Unicode میں ملاحظہ کیجیے۔

قرآن مجید سے قدریہ کا استدلال

اس مذہب کی تائید میں معتزلہ نے قرآنِ مجید کی بہت سی آیات سے استدلال کیا ہے، مثلاً:
۱) وہ آیات جن میں بندوں کے افعال خود بندوں ہی کی طرف منسوب کیے گئے ہیں جیسے:
كَيْفَ تَكْفُرُوْنَ بِاللہِ وَكُنْتُمْ اَمْوَاتًا فَاَحْيَاكُمْ۝۰ۚ البقرہ2:28
تم کیسے خدا کے ساتھ کفر کرتے ہو حالانکہ تم بے جان تھے خدا نے تم کو زندہ کیا۔
فَوَيْلٌ لِّلَّذِيْنَ يَكْتُبُوْنَ الْكِتٰبَ بِاَيْدِيْہِمْ۝۰ۤ ثُمَّ يَقُوْلُوْنَ ھٰذَا مِنْ عِنْدِ اللہِ البقرہ2:79
پس تباہی ہے ان لوگوں کے لیے جو اپنے ہاتھوں سے کتاب لکھتے ہیں پھر کہتے ہیں یہ خدا کی طرف سے ہے۔
ذٰلِكَ بِاَنَّ اللہَ لَمْ يَكُ مُغَيِّرًا نِّعْمَۃً اَنْعَمَہَا عَلٰي قَوْمٍ حَتّٰي يُغَيِّرُوْا مَا بِاَنْفُسِہِمْ۝۰ۙ
الانفال8: 53
یہ اسی وجہ سے ہے کہ خدا کسی نعمت کو جو اس نے کسی قوم کو دی ہو، بدلتا نہیں ہے جب تک کہ خود اپنی حالت کو نہیں بدل دیتی۔
مَنْ يَّعْمَلْ سُوْۗءًا يُّجْزَ بِہٖ۝۰ۙ النساء4:123
جو برا عمل کرے گا اسی کے مطابق بدلہ پائے گا۔
كُلُّ امْرِءٍ ؚ بِمَا كَسَبَ رَہِيْنٌo الطور52:21
ہر شخص اپنی کمائی کے بدلے رہن ہے۔
۲) وہ آیات جن میں کہا گیا ہے کہ انسان کے اپنے اعمال پر جزا اور سزا مترتب ہو گی جیسے:
اَلْيَوْمَ تُجْزٰى كُلُّ نَفْسٍؚبِمَا كَسَبَتْ۝۰ۭ المؤمن40:17
آج ہر متنفس کو اس کی کمائی کے مطابق بدلہ دیا جائے گا۔
اَلْيَوْمَ تُجْزَوْنَ مَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَo الجاثیہ45:28
آج تم کو ان اعمال کا بدلہ دیا جائے گا جو تم کرتے تھے۔
ہَلْ تُجْزَوْنَ اِلَّا مَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَo النمل27:90
کیا تمھیں اس کے سوا کوئی اور بدلہ دیا جائے گا جو تم عمل کرتے رہے ہو؟
۳) وہ آیات جن میں شر اور ظلم اور مذمومات سے باری تعالیٰ کے فعل کو منزہ قرار دیا گیا ہے جیسے:
الَّذِيْٓ اَحْسَنَ كُلَّ شَيْءٍ خَلَقَہٗ السجدہ32:7
جس نے ہر چیز جو پیدا کی خوب ہی پیدا کی۔
اور ظاہر ہے کہ کفر اچھی چیز نہیں ہے:
وَمَا خَلَقْنَا السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ وَمَا بَيْنَہُمَآ اِلَّا بِالْحَقِّ۝۰ۭ الحجر15:85
اور ہم نے آسمانوں اور زمین کو اور ان دونوں کے درمیان جو کچھ ہے اس کو پیدا نہیں کیا مگر حق کے ساتھ۔
۴) اور مسلم ہے کہ کفر حق نہیں ہے!
وَمَا رَبُّكَ بِظَلَّامٍ لِّـلْعَبِيْدِo حٰم السجدہ41:46
اور تیرا رب بندوں کے لیے ہرگز ظالم نہیں ہے۔
وَمَا اللہُ يُرِيْدُ ظُلْمًا لِّلْعٰلَمِيْنَo اٰلِ عمران3:108
اور اللہ جہان والوں کے لیے ہرگز ظلم کا ارادہ نہیں رکھتا۔
۵) وہ آیات جن میں کافروں اور گناہ گاروں کو اُن کے برے افعال پر ملامت کی گئی ہے اور کہا گیا ہے کہ ان کو ایمان و طاعت سے روکنے والی کوئی چیز خدا کی طرف سے نہیں ہے۔
وَمَا مَنَعَ النَّاسَ اَنْ يُّؤْمِنُوْٓا اِذْ جَاۗءَہُمُ الْہُدٰٓى اِلَّآ اَنْ قَالُوْٓا اَبَعَثَ اللہُ بَشَرًا رَّسُوْلًاo
بنی اسرائیل17: 94
لوگوں کے پاس جب ہدایت آئی تو انھیں ایمان لانے سے روکنے والی کوئی چیز اس کے سوا نہ تھی کہ انھوں نے کہا کیا اللہ نے بشر کو رسول بنا کر بھیجا ہے؟
مَا مَنَعَكَ اَنْ تَسْجُدَ ص38:75
تجھے کس چیز نے اس سے روکا کہ تو سجدہ کرے؟
فَمَا لَہُمْ لَا يُؤْمِنُوْنَo انشقاق84:20
انھیں کیا ہو گیا ہے کہ ایمان نہیں لاتے۔
لِمَ تَصُدُّوْنَ عَنْ سَبِيْلِ اللہِ اٰل عمران3:10
تم کیوں خدا کی راہ سے روکتے ہو۔
اگر فی الواقع خدا نے ہی لوگوں کو ایمان لانے سے روکا ہوتا اور انھیں کفر و معصیت پر مجبور کیا ہوتا تو ان سے اس قسم کے سوالات کرنے جائز نہ ہوتے اگر کوئی شخص کسی کو حجرے میں بند کر دے اور کہے کہ تو کیوں نہیں نکلتا تو یہ ایک غیر معقول سوال ہو گا۔ پھر خدا کی طرف یہ بات کیسے منسوب کی جا سکتی ہے کہ ایک طرف تو ان کو حق سے پھیر دے اور پھر کہے کہ تم کہاں پھرے چلے جا رہے ہو۔ (اِنّٰی یُؤْفَکُوْن) ان میں کفر خلق کرے اور پھر پوچھے کہ تم کیوں کفر کرتے ہو؟ (لِمَ تَکْفُرُوْنَ) انھیں حق پر باطل کے پردے ڈالنے پر مجبور کرے اور پھر کہے کہ تم ایسا کیوں کرتے ہو؟ (لِمَ تَلْبِسُوْنَ الْحَقَّ بِالْبَاطِلِ)
۶) وہ آیات جن میں ایمان اور کفر کو بندوں کی مشیت سے متعلق کہا گیا ہے جیسے:
فَمَنْ شَاۗءَ فَلْيُؤْمِنْ وَّمَنْ شَاۗءَ فَلْيَكْفُرْ۝۰ۙ الکہف18:29
پس جس کا جی چاہے ایمان لائے اور جس کا جی چاہے انکار کرے۔
فَمَنْ شَاۗءَ اتَّخَذَ اِلٰى رَبِّہٖ سَبِيْلًا۝۱۹ۧ المزمل73:19
پس جس کا چاہے اپنے رب کا راستہ اختیار کرے۔
یہی نہیں بلکہ ان لوگوں کی مذمت کی گئی ہے جو اپنے کفر و معصیت کو مشیت الٰہی سے منسوب کرتے ہیں، جیسے:
سَيَقُوْلُ الَّذِيْنَ اَشْرَكُوْا لَوْ شَاۗءَ اللہُ مَآ اَشْرَكْنَا الانعام6:148
مشرکین ضرور کہیں گے کہ اگر اللہ چاہتا تو ہم ہرگز شرک نہ کرتے۔
وَقَالَ الَّذِيْنَ اَشْرَكُوْا لَوْ شَاۗءَ اللہُ مَا عَبَدْنَا مِنْ دُوْنِہٖ مِنْ شَيْءٍ النحل16:35
اور مشرکین نے کہا کہ اگر اللہ چاہتا تو اس کے سوا ہم کسی کی عبادت نہ کرتے۔
۷) وہ آیات جن میں بندوں کو حسن عمل کی طرف دعوت دی گئی ہے۔ مثلاً:
وَسَارِعُوْٓا اِلٰى مَغْفِرَۃٍ مِّنْ رَّبِّكُمْ اٰلِ عمران3:133
اور دوڑو اپنے رب کی مغفرت کی طرف۔
اَجِيْبُوْا دَاعِيَ اللہِ الاحقاف46:31
اللہ کے منادی کی پکار پر لبیک کہو۔
وَاَنِيْبُوْٓا اِلٰى رَبِّكُمْ الزمر39:54
اپنے رب کی طرف رجوع کرو۔
ظاہر ہے کہ طاعت کا حکم دینا اور اس طرف دوڑنے اور لپکنے کی تاکید کرنا کیسے صحیح ہو سکتا ہے، جب تک کہ مامور میں اس کی قدرت نہ ہو۔ یہ تو ایسا ہی ہے جیسے کسی اپاہج سے کہا جائے کہ اُٹھ اور دوڑ۔
۸) وہ آیات جن میں بیان کیا گیا ہے کہ بندے ایسے افعال کرتے ہیں جن کا خدا نے ان کو حکم نہیں دیا جیسے:
يُرِيْدُوْنَ اَنْ يَّتَحَاكَمُوْٓا اِلَى الطَّاغُوْتِ وَقَدْ اُمِرُوْٓا اَنْ يَّكْفُرُوْا بِہٖ النساء4:60
وہ ارادہ رکھتے ہیں کہ اپنامقدمہ طاغوت کے پاس لے جائیں حالانکہ انھیں حکم دیا گیا تھا کہ اس کا انکار کریں۔
اِنَّ اللہَ لَا يَاْمُرُ بِالْفَحْشَاۗءِ۝۰ۭ الاعراف7:28
اور اللہ بے شرمی کے کاموں کا ہرگز حکم نہیں دیتا۔
وَلَا يَرْضٰى لِعِبَادِہِ الْكُفْرَ۝۰ۚ الزمر39:7
اور وہ اپنے بندوں کے لیے کفر کو پسند نہیں کرتا۔
وَمَآ اُمِرُوْٓا اِلَّا لِــيَعْبُدُوا اللہَ البینہ98:5
اور انھیں حکم نہیں دیا گیا تھا مگر یہ کہ اللہ کی عبادت کریں۔
۹) وہ آیات جن میں کہا گیا ہے کہ لوگ اپنے کیے کی سزا بھگتتے ہیں، جیسے:
ظَہَرَ الْفَسَادُ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ بِمَا كَسَبَتْ اَيْدِي النَّاسِ الروم30:41
خشکی اور تری میں فساد پھوٹ پڑا لوگوں کے اپنے ہاتھوں کی کمائی کے سبب سے۔
وَمَآ اَصَابَكُمْ مِّنْ مُّصِيْبَۃٍ فَبِمَا كَسَبَتْ اَيْدِيْكُمْ الشوریٰ42:30
تم پر جو مصیبت آئی ہے تمھارے اپنے ہاتھوں کی کمائی ہے۔
اِنَّ اللہَ لَا يَظْلِمُ النَّاسَ شَيْـــًٔـا وَّلٰكِنَّ النَّاسَ اَنْفُسَھُمْ يَظْلِمُوْنَo یونس10:44
یقیناً اللہ لوگوں پر کوئی ظلم نہیں کرتا بلکہ لوگ خود اپنے اوپر ظلم کرتے ہیں۔
وَمَا كُنَّا مُہْلِــكِي الْقُرٰٓى اِلَّا وَاَہْلُہَا ظٰلِمُوْنَo القصص28:59
اور ہم ہرگز بستیوں کو ہلاک کرنے والے نہیں ہیں اِلَّا یہ کہ ان کے باشندے ظالم ہوں۔
۱۰) وہ آیات جن سے معلوم ہوتا ہے کہ خدا ہدایت اور گمراہی پر مجبور نہیں کرتا بلکہ انسان خود اپنے اختیار سے کوئی ایک راستہ منتخب کرتا ہے، مثلاً:
وَاَمَّا ثَمُوْدُ فَہَدَيْنٰہُمْ فَاسْتَــحَبُّوا الْعَمٰى عَلَي الْہُدٰى حٰم السجدہ41:30
رہے ثمود تو ان کو ہم نے راستہ دکھایا، مگر انھوں نے اندھے بن کر چلنے کو راستہ دیکھ کر چلنے پر ترجیح دی۔
رَّبِّكُمْ۝۰ۚ فَمَنِ اہْتَدٰى فَاِنَّمَا يَہْتَدِيْ لِنَفْسِہٖ۝۰ۚ یونس10:108
جو ہدایت قبول کرتا ہے اس کا ہدایت قبول کرنا اس کے اپنے ہی لیے مفید ہے۔
لَآ اِكْرَاہَ فِي الدِّيْنِ۝۰ۣۙ قَدْ تَّبَيَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَيِّ۝۰ۚ فَمَنْ يَّكْفُرْ بِالطَّاغُوْتِ وَيُؤْمِنْۢ بِاللہِ فَقَدِ اسْتَمْسَكَ بِالْعُرْوَۃِ الْوُثْقٰى۝۰ۤ البقرہ2:256
دین میں کوئی زبردستی نہیں، راست روی، کج روی سے ممیز کر کے پیش کر دی گئی ہے اب جو طاغوت سے کفر کرے اور اللہ پر ایمان لے آئے اس نے ایک مضبوط سہارا تھام لیا۔
۱۱) وہ آیات جن میں انبیاء oنے اپنے قصوروں کا اعتراف کیا ہے اور ان کو خود اپنی طرف منسوب کیا ہے، مثلاً:
رَبَّنَا ظَلَمْنَآ اَنْفُسَـنَا الاعراف7:23
اے ہمارے رب ہم نے اپنے اوپر آپ ظلم کیا۔
حضرت یونس علیہ السلام کہتے ہیں:
سُبْحٰــنَكَ۝۰ۤۖ اِنِّىْ كُنْتُ مِنَ الظّٰلِــمِيْنَo الانبیاء21:87
پاک ہے تیری ذات، قصوروار تو میں خود ہی تھا۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام کہتے ہیں:
رَبِّ اِنِّىْ ظَلَمْتُ نَفْسِيْ القصص28:16
پروردگار! میں نے اپنے اوپر ظلم کیا۔
حضرت نوح علیہ السلام کہتے ہیں:
رَبِّ اِنِّىْٓ اَعُوْذُ بِكَ اَنْ اَسْـــَٔـلَكَ مَا لَيْسَ لِيْ بِہٖ عِلْمٌ۝۰ۭ ہود11:47
پروردگار! میں تیری پناہ مانگتا ہوں اس سے کہ میں تجھ سے ایسی درخواست کروں جس کے نامناسب ہونے کا مجھے علم نہ ہو۔

شیئر کریں