سب سے بڑی مصیبت جو ملوکیت کےدور میں مسلمانوں پر آئی وہ یہ تھی کہ اس دور میں قانون کی بالاتری کا اصول توڑ دیا گیا ، حالانکہ وہ اسلامی ریاست کے اہم ترین بنیادی اصولوں میں سے تھا ۔ اسلام جس بنیاد پر دنیا میں اپنی ریاست قائم کرتا ہے وہ یہ ہے کہ شریعت سب سے پر بالا ہے ۔حکومت اور حکمران ، راعی اور رعیت ،بڑے اور چھوٹے ، عوام اور خواص ، سب اس کے تابع ہیں ۔ کوئی اس سے آزاد یا مستثنی ٰ نہیں اور کسی کو اس سے ہٹ کر کام کرنے کا حق نہیں ۔دوست ہو یا دشمن ، حربی کافر ہو یا معاہد ، مسلم رعیت ہو یا ذمی ، مسلمان وفادار ہو یا باغی یا برسر جنگ ، غرض جو بھی ہو، شریعت میں ا س سے برتاؤ کرنے کا ایک طریقہ مقرر ہے جس سے کسی حال میں تجاوز نہیں کیا جاسکتا۔ خلافت راشدہ اپنے پورے دور میں اس قاعدے کی سختی کے ساتھ پابند رہی ، حتی کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ نے انتہائی نازک اور سخت اشتغال انگیز حالات میں بھی حدود شرع سے باہر قدم نہ رکھا۔ اس راست روخلفاء کی حکومت کا امتیازی وصف یہ تھا کہ وہ ایک حدود آشنا حکومت تھی نہ کہ مطلق العنان حکومت ۔ مگر جب ملوکیت کا دور آیا تو بادشاہوں نے اپنے مفاد ، اپنی سیاسی اغراض اور خصوصا اپنی حکومت کے قیام وبقا کے معاملے میں شریعت کی عائد کی ہوئی کسی پابندی کو توڑ ڈالنے اور اس کی باندھی ہوئی کسی حد کو پھاند جانے میں تامل نہ کیا ۔ اگرچہ ان کے عہد میں بھی مملکت کا قانون اسلامی ہی رہا ۔ کتاب اللہ وسنت رسول اللہ ﷺ کی آئینی حیثیت کا ان میں سے کسی نے کبھی انکار نہیں کیا ۔ عدالتیں اسی قانون پر فیصلے کرتی تھیں اور عام حالات میں سارے معاملات شرعی احکام ہی کے مطابق انجام دیے جاتے تھے ۔ لیکن ان بادشاہوں کی سیاست دین کے تابع نہ تھی ۔ اس کے تقاضے وہ ہر جائز نہ ناجائز طریقے سے پورے کرتے تھے ، اور اس معاملے میں حلال وحرام کی تمیز روانہ رکھتے تھے ۔مختلف بنی امیہ کے عہد میں قانون کی پابندی کا کیا حال رہا، اسے ہم آگے کی سطور میں بیان کرتے ہیں ۔