انھوں نے اپنے قوانین ہم پر مسلّط کیے اور ان سے صرف عملاً ہی ہمارے نظام تمدن و معاشرت کی شکل وصورت کو تبدیل نہ کیا بلکہ ہمارے اجتماعی تصورات اور ہمارے قانونی نظریات کو بھی بہت کچھ بدل ڈالا۔ جو شخص قانون کے متعلق کچھ بھی واقفیت رکھتا ہے وہ اس بات کو جانتا ہے کہ اخلاق اور معاشرے سے اس کا نہایت گہرا تعلق ہے۔ انسان جب کبھی کوئی قانون بناتا ہے اس کے پیچھے لازماً اخلاق اور معاشرت اور تمدن کا کوئی خاص نقشہ ہوتا ہے جس پر وہ انسانی زندگی کو ڈھالنا چاہتا ہے۔ اسی طرح جب وہ کسی قانون کو منسوخ کرتا ہے تو گویا اس اخلاقی نظرئیے اور اس تمدنی فلسفے کو منسوخ کرتا ہے، جس پر پچھلا قانون مبنی تھا اور زندگی کے اس نقشے کو بدلتا ہے جو اس قانون سے بنا تھا۔ پس جب ہمارے انگریز حکم رانوں نے یہاں آ کر ان تمام شرعی قوانین کو منسوخ کیا جو اس ملک میں رائج تھے اور ان کی جگہ اپنے قوانین نافذ کیے، تو اس کے معنی صرف اسی قدر نہ تھے کہ ایک قانون کی جگہ دوسرا قانون جاری ہوا بلکہ اس کے معنی یہ تھے کہ نظامِ اخلاق اور نظامِ تمدن پر خط نسخ پھیرا گیا اور اس کی جگہ دوسرے نظامِ اخلاق وتمدن کی داغ بیل ڈالی گئی۔ اس تغیّر وتبدّ ل کو مستحکم کرنے کے لیے انھوں نے یہاں کے لا کالجوں میں اپنی قانونی تعلیم رائج کی جس نے دماغوں میں یہ خیال بٹھا دیا کہ پچھلا قانون ایک دقیانوسی قانون تھا، جو زمانۂ جدید کی ایک سوسائٹی کے لیے کسی طرح موزوں نہیں، اور یہ نیا طرزِ قانون سازی اپنے اصول ونظریات سمیت، زیادہ صحیح اور زیادہ ترقی یافتہ ہے۔ اتنا ہی نہیں بلکہ انھوں نے ہمارے اس بنیادی عقیدے تک کو متزلزل کر دیا کہ قانون سازی کے اختیارات اللّٰہ تعالیٰ کے لیے خاص ہیں۔ اس کے بجائے انھوں نے یہ بات لوگوں کے ذہن نشین کی کہ اللّٰہ کو اس معاملے سے کچھ سروکار نہیں، یہ لیجسلیچر (پارلیمنٹ) کا کام ہے کہ جو کچھ چاہے، فرض، واجب یا حلال ٹھیرائے، اور جو کچھ چاہے، جرم یا حرام کر دے۔ پھر ان نئے قوانین نے جس طرح ہمارے اخلاق وتمدن پر اثر ڈالا، اس کا اندازہ کرنے کے لیے صرف اتنی بات کافی ہے کہ یہی قوانین تھے جنھوں نے زنا اور قمار اور شراب اور بہت سے بیوعِ فاسدہ کو حلال کیا، جن کی حمایت وحفاظت میں طرح طرح کے فواحش اور معاصی نے یہاں رواج پایا اور جن کی حمایت سے محروم ہو کر بہت سی وہ بھلائیاں بھی مٹتی چلی گئیں جو دورِ انحطاط تک میں ہمارے اندر بچی رہ گئی تھیں۔ مگر حالات نے ہماری دینی حس کو ایسا کُند کرکے رکھ دیا کہ ہمارے بڑے بڑے صلحا واتقیا تک کو اس قانونی نظام کے تحت کسی مسلمان کے وکیل اور جج بننے میں مضائقہ نظر نہ آیا بلکہ نوبت یہاں تک پہنچی کہ جنھوں نے اس کے مقابلے میں الحکم للہ کے اصول کوتازہ کرنا چاہا وہ ہمارے ہاں خارجی قرار پائے۔