قانون کے لفظ سے ہم جس چیز کو تعبیر کرتے ہیں وہ دراصل اس سوال کا جواب ہے کہ انسانی طرزِ عمل، انفرادی اور اجتماعی طور پر کیا ہونا چاہیے۔ اس سوال کا دائرہ اس دائرہ سے بہت زیادہ وسیع ہے جس میں قانون اس کا جواب دیتا ہے۔ ہم کو بہت وسیع پیمانے پر اس ’’ہونا چاہئے‘‘ کے سوال سے سابقہ پیش آتا ہے اور اس کے بے شمار جوابات ہیں جو مختلف عنوانات کے تحت مرتب ہوتے ہیں۔ ان کا ایک مجموعہ ہماری اخلاقی تعلیم و تربیت میں شامل ہوتا ہے اور اسی کے مطابق ہم اپنے افراد کی سیرت و کردار کو ڈھالنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان کا ایک دوسرا مجموعہ ہمارے معاشرتی نظام میں داخل ہوتا ہے اور اسی کے لحاظ سے ہم اپنی معاشرت میں مختلف قسم کے انسانی تعلقات کو منضبط کرتے ہیں۔ ان کا ایک تیسرا مجموعہ ہمارے معاشی نظام میں جگہ پاتا ہے اور اسی کی روشنی میں ہم دولت اور اس کی پیدائش اور اس کی تقسیم اور اس کے تبادلہ اور اس پر لوگوں کے حقوق کا ضابطہ بناتے ہیں۔ غرض اسی طریقہ پر ان جوابات کے بہت سے مجموعے بن جاتے ہیں جو ہماری زندگی کے مختلف شعبوں کی شکل اور ان کے ضوابطِ عمل معین کرتے ہیں اور قانون ان بہت سے مجموعوں میں سے صرف ان جوابات پر مشتمل ہوتا ہے جن کو نافذ کرنے کے لیے سیاسی اقتدار استعمال کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اب اگر کوئی شخص کسی قانون کو سمجھنا چاہے تو یہ کافی نہیں ہے کہ وہ اپنی تحقیقات کو صرف اُسی دائرے تک محدود رکھے جس میں قانون نے اس ’’ہونا چاہیے‘‘ کے سوال کا جواب دیا ہے، بلکہ اسے سوسائٹی کی اس پوری اسکیم کو سمجھنے کی کوشش کرنی ہوگی جس میں زندگی کے ہر شعبے کے متعلق اس سوال کا جواب دیا گیا ہے۔ اس لیے کہ قانون اسی اسکیم کا ایک جزو ہے اور اس جز کے مزاج کو سمجھنا، یا اس کے متعلق کوئی رائے قائم کرنا بغیر اس کے ممکن نہیں ہے کہ کل کو سمجھا جائے۔