گذشتہ ماہ مئی ۱۹۷۴ء کے حادثہ ربوہ(اب چناب نگر) پرمسلمانوںمیںجوردعمل واقع ہوااورغلام احمدی امت کوامت محمدیہ علیٰ صاحب ہاالصلوۃ والسلام سے الگ کرنے کے لیے پاکستان کے تمام مسلمانوںنے کامل اتحادواتفاق کے ساتھ جوجدوجہدشروع کی وہ اگرچہ بالکل ایک فطری امرہے مگرمیںاس کوبروقت نہیںبلکہ بہت بعدازوقت سمجھتاہوں۔کیونکہ یہ ردعمل اس وقت رونماہواہے جب مسلم معاشرے کے اندراس فتنے کوپرورش پاتے اورپروان چڑھتے ۸۰۔۹۰سال بیت چکے ہیںاوراب اس کے استیصال کے لیے یہ آخری موقع ہمیں ملاہے جس کواگرہم نے کھودیاتوکچھ بعیدنہیںکہ یہ فتنہ ہمیںلے ڈوبے گا۔
لاقدراللّٰہ:
حقیقت اسلامی نقطہ نظرسے یہ کوئی معمولی بات نہیںبلکہ بہت بڑی بات ہے کہ مسلمانوںکے درمیان کوئی شخص حضورخاتم النبیین حضرت محمدﷺکے بعدکھلم کھلانبوت کادعویٰ لے کراٹھے اوراس کی دعوت باطل کواسی مسلم معاشرے میںپھیلنے کاموقع حاصل ہوتاچلا جائے۔ یہ اتنابڑاگناہ عظیم ہے کہ اسے ایک لمحہ کے لیے بھی برداشت نہ کیاجاناچاہیے تھا‘ کجا کہ اس کے معاملے میںاس قدرتساہل برتاجاتاکہ وہ صدی کی آٹھ نودہائیوںتک نہ صرف ہمارے ملک میں‘بلکہ دوسرے مسلم اورغیرمسلم ملکوںمیںبھی پھیلتا چلاجاتا۔اس معاملہ میں ہم اس دورکے لیے تواللہ تعالیٰ جل شانہ کے سامنے کچھ عذرپیش بھی کرسکتے ہیںجب کہ ہم پرانگریزی حکومت مسلط تھی اورہم اس کے آگے بے بس تھے اوروہ اس فتنے کی آبیاری کر رہی تھی۔
لیکن انگریزوںسے آزادہونے کے بعدجب پاکستان کااقتدارخودمسلمانوںکے ہاتھ میںآگیا۔اس وقت۲۷سال تک اس فتنے کی آبیاری خودانگریزوںسے بھی بڑھ کر ہمارے مسلمان حکمرانوںکے ہاتھوںہونا اوراس کواتنی طاقت پکڑجانے کاموقع دینا کہ وہ پاکستان کی حکومت پرقابض ہوجانے کاحوصلہ کرنے لگے‘ایسااکبرالکبائر ہے جس پر کوئی عذرہم اپنے رب کے حضورپیش نہیںکرسکتے ۔اب اگرہم اسی پچھلے طرزعمل کو جاری رکھتے ہیںتوخداکے عذاب سے ہمیںکوئی طاقت نہیںبچاسکتی۔اس لیے میںعام مسلمانوں سے بھی کہتاہوںکہ جوتحریک انھوںنے اس فتنہ غلام احمدیت سے نجات حاصل کرنے کے لیے شروع کی ہے، اسے ایک قطعی فیصلے تک پہنچائے بغیرہرگزنہ چھوڑیںاورملک کی حکومت اورقومی اسمبلی سے بھی کہتاہوںکہ وہ خداکے حضوراپنی جواب دہی کویادکریں‘ سیاسی اغراض و مصالح کوبھول جائیںاورپوری ایمانداری کے ساتھ وہ فیصلہ کریںجوعین ان کے دین و ایمان کے مطابق ہے۔
یہ معاملہ جواس وقت اسمبلی میںزیربحث ہے‘اپنے اندرکوئی پیچیدگی نہیں رکھتا۔ بلکہ کھلے آسمان کی طرح صاف اورعیاںہے۔جس شخص کودین کی معمولی واقفیت بھی حاصل ہو وہ جانتاہے کہ اسلام میںنبوت ایک فیصلہ کن چیزہے۔اگرنبی سچاہواورکوئی اس کونہ مانے تو کافراوراگروہ جھوٹاہواورکوئی اسے مان لے توکافر۔بہرحال ایک دعوائے نبوت کے بعد یہ کسی طرح ممکن ہی نہیںہے کہ اس کے ماننے والے اوراس کاانکارکرنے والے ایک امت میںجمع ہوسکیں۔نبوت ایک سنگین دیوارہے جودونوںگروہوںکے درمیان ہمیشہ کے لیے حائل ہوجاتی ہے اورانھیں نہیںملنے دیتی جب تک کہ وہ منہدم نہ ہوجائے۔ہرنبوت اپنے ماننے والوںکی ایک الگ امت بناتی ہے اورنہ ماننے والوں کو قطعی طورپران سے جدا کر دیتی ہے۔
یہ توہے بجائے خودنبوت کی اصولی حیثیت۔لیکن اسلام میںاس امرکاقطعاًکوئی امکان نہیںہے کہ سیدناحضرت محمدﷺکے بعدنبوت کادعویٰ لے کراٹھنے والا کوئی شخص سچانبی ہو سکے۔اس لیے کہ قرآن حکیم‘احادیث صحیحہ اوراجماع امت کی روسے حضوراکرمﷺ اللہ کے آخری نبی ہیں۔صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین نے حضوراکرمﷺ کے بعدنبوت کادعویٰ کرنے والے کسی شخص سے بھی یہ نہیںپوچھاکہ اس کے نبی ہونے کی دلیل کیاہے بلکہ بالاتفاق اس کو جھوٹامدعی قراردے کراس سے اوراس کے ماننے والوںسے جنگ کی اوران کووہ حقوق بھی نہیںدیے جواسلامی قانون میںمسلح بغاوت کرنے والے مسلمانوں یاذمیوں کو دیے جاتے ہیں۔ پھرصحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین کے دورسے آج تک چودہ سوبرس کی مدت میں ہر زمانے کے مسلمان اس بات پرمتفق رہے ہیں اور اس میںکبھی کوئی اختلاف نہیںہواہے کہ بعثت محمدیہ علی صاحبہاالسلام کے بعدنبوت کادعویٰ کرنے والاہرشخص جھوٹا ہے‘ کافرہے اور اس پرایمان لانے والابھی کافرہے‘حتیٰ کہ ایسے مدعی سے اس کی نبوت کی دلیل پوچھنابھی کفرہے‘کیونکہ دلیل پوچھنے کے معنی یہ ہیںکہ آدمی حضوراکرمﷺ کے بعدنبوت کا دروازہ کھلا سمجھ رہاہے اوراسے کھلاسمجھنابجائے خودقرآن وحدیث اوراجماع کی روسے کفرہے۔
اب دیکھیے ایک طرف تودعوائے نبوت بعدازخاتم النبیینﷺ کے متعلق اسلام کایہ صریح اورمتفق علیہ حکم ہے اوردوسری طرف یہ ناقابل انکارواقعہ ہے کہ مرزاغلام احمدنے نبوت کا دعویٰ کیا،اپنی نبوت تسلیم کرنے کی لوگوںکودعوت دی‘نہ ماننے والوںکا کافر قرار دیا اور ماننے والوںکی ایک الگ امت بنائی جس کاکوئی فرداپنے باپ کاجنازہ بھی نہیںپڑھ سکتا اگر وہ اس نئی نبوت پرایمان نہ لایاہو۔سوال یہ ہے کہ یہ مدعی آخرسچاکیسے ہو سکتاہے؟ اور جب یہ سچانہیںہے تواس کے کافرہونے اوراس کی تصدیق کرنے والے سب لوگوںکے کافر ہونے میںشک کی کیاگنجائش ہوسکتی ہے؟اوراس نئے نبی کی یہ امت مسلمانوںہی کے اندر کاایک فرقہ کیسے قرارپاسکتی ہے جبکہ وہ اسلام کی سرحد توڑ کر خوداس سے باہرنکل چکی ہے؟
لیکن یہ اس نئی امت اوراس کے بانی مدعی نبوت کی انتہائی چالاکی ہے کہ اس نے اسلام کی سرحدسے نکل کربھی اپنے دین کواصل اسلام قراردیا،اسلام ہی کے نام سے اس کی تبلیغ کی اورلاکھوںمسلمانوںکواس گمراہی میںمبتلاکیاکہ کلمہ لاالہ الااللہ محمد رسول اللہ کے قائل ہوتے ہوئے بھی وہ کافررہتے ہیںجب تک کہ مرزاغلام احمدکی نبوت کاکلمہ اس کے ساتھ نہ ملائیں۔اگریہ لوگ سیدھی طرح اسلام سے نکل کرکسی دوسرے نام سے اپنی الگ امت بنالیتے اوراپنے آپ کومسلمان نہ کہتے تواتنابڑافتنہ نہ بنتے جتنابڑافتنہ وہ امت در امت کی صورت اختیارکرکے بن گئے ہیں۔وہ اپنے مذہب کاکوئی دوسرانام رکھ کراس کی تبلیغ کرتے توکسی ایک مسلمان کوبھی اس بات پرآمادہ نہ کرسکتے تھے کہ محمدﷺکی پیروی چھوڑ کر مرزاغلام احمدکی پیروی قبول کرلے۔وہ نہ انگریزی حکومت کے دور میں مسلمانوں کے حقوق کابڑاحصہ ہتھیاسکتے تھے اورنہ پاکستان قائم ہونے کے بعدانہیںیہ موقع مل سکتا تھا کہ حکومت کے نظم ونسق اوراس کی مسلح افواج اوراس کے زیراثرمعاشی زندگی کے ہر شعبے میں پھیلتے اوربڑھتے چلے جاتے۔مگریہ ان کی انتہائی عیاری تھی کہ انھوںنے مسلمانوں کو کافر قرار دے کران سے الگ اپنی امت بھی منظم کی اورپھرمسلمانوںکی امت میںشامل رہ کروہ سرطان کے پھوڑے کی طرح جسدملت میںاپنی جڑیںبھی پھیلاتے رہے۔یہ اُن کی اسی عیاری کانتیجہ ہے کہ انہیںمسلمانوںکاایک فرقہ سمجھا جاتا رہا۔ مسلمانوں کو توڑتوڑکروہ اپنی امت میںملاتے اوراپنی تعدادبڑھاتے رہے اورایک منظم طریقے سے پیہم کوشش کرکے وہ مسلم معاشرے اورحکومت پراس طرح چھاتے چلے گئے کہ اب وہ پاکستان کے حکمران بن جانے کے خواب دیکھ رہے ہیں۔
ربوہ(چناب نگر) کاحادثہ اسی پس منظرمیںپیش آیاہے اوریہ گویامسلمانوںکے لیے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک آخری تنبیہ ہے کہ اگران میںکچھ بھی دینی حس باقی ہے توامت محمدیہ کے اندرامت غلام احمدیہ کے پھلنے پھولنے کاہرراستہ بندکردیں۔ہزارہزارشکرہے اس خدا وند عظیم کاکہ اس تنبیہ پرپاکستان کے علما ومشائخ،سیاسی لیڈراورعام مسلمان بھی پوری طرح بیدارہوگئے،اورحکومت بھی بروقت اس کی طرف متوجہ ہوگئی جیساکہ صمدانی ٹریبونل کے قیام، مسٹربھٹوکی۱۳جون والی تقریراورپوری قومی اسمبلی کے ایک کمیٹی کی صورت میںاس مسئلے کے حل کی کوشش میںلگ جانے سے ظاہرہوتاہے۔
اس موقع پرمیںچندضروری تجاویزپیش کرتاہوںجن سے میرے نزدیک یہ مسئلہ بخوبی حل کیاجاسکتاہے۔
۱۔میری پہلی تجویزیہ ہے کہ پاکستان کے دستورکی دفعہ ۲میں،جوریاست کا مذہب اسلام قراردیتی ہے،حسب ذیل دوشقوںکااضافہ کیاجائے:
i۔اللہ کی توحید‘تمام انبیا کے بعدمحمدﷺ کواللہ کاآخری نبی ماننا‘تمام کتب الٰہیہ کے بعدقرآن مجیدکواللہ کی آخری کتاب تسلیم کرنااورآخرت پرایمان رکھنااسلام کے لازمی بنیادی عقائدہیںجن میںسے کسی ایک کاانکاربھی کفرہے۔
ii۔محمدرسول اللہﷺ کے بعدجوشخص نبی ہونے کادعویٰ کرےاورایسے مدعی کوجوشخص اپنامذہبی پیشوامانے وہ کافراورخارج ازاسلام ہے‘قطع نظراس کے کہ وہ مدعی خوداپنے آپ کویااس کے پیروگروہ اس کوظلی یابروزی یاامتی یاغیرتشریعی نبی کہیے یامسیح موعود‘ مجدد‘ محدث وغیرہ ناموںسے یادکرے۔
۲۔میری دوسری تجویزیہ ہے کہ دستورکی دفعہ ۱۰۶کی شق (۳) میں جہاں اقلیتوں کا ذکرہے،وہاںبدھ مت والوںکے بعد’’مرزاغلام احمدقادیانی کے پیرئووں‘‘کااضافہ کردیا جائے۔
۳۔میری تیسری تجویزیہ ہے کہ دفعہ۲شق(۱)کے بعدحسب ذیل شق (۲) کا اضافہ کرکے بقیہ شقوںکوان دونوںشقوںکے مطابق کردیاجائے۔
’’کوئی شخص جواپنے آپ کومسلمان کہتاہواوراس کے باوجودمحمدﷺکے بعدنبوت کادعویٰ کرے یاایسادعویٰ کرنے والے کواپنامذہبی پیشوامانے یالوگوںکواسے مذہبی پیشواماننے کی دعوت دے یااسے نہ ماننے والوںکوکافرقراردے،وہ بھی خیانت عظمیٰ(high treason) کامرتکب سمجھاجائے گا۔‘‘
ان ترمیمات سے دستورکی حدتک نئی نبوت کے فتنے کاکماحقہ سدباب ہوجاتا ہے۔ میری تجویزکردہ ان دستوری ترمیمات پریہ اعتراض نہیںکیاجاسکتاکہ دستورجیسی دستاویز میںکسی شخص خاص کانام لینامناسب نہیںہے۔ہمارادستورقرآن سے زیادہ مقدس تو نہیں ہوسکتا۔اس میںجب ابولہب کانام لیاگیاہے توہمارے دستور میں مرزاغلام احمدکا نام کوئی عیب کی بات نہیںہے۔خصوصاًجب کہ قادیانی مسئلے کوحل کرنے کے لیے اس گروہ کے بانی کانام لینے کے سواکوئی چارہ نہیںہے۔
اس کے بعدیہ ضروری ہے کہ قومی اسمبلی ایک قرارداد کے ذریعہ سے حکومت کوحسب ذیل تدابیرجلدی سے جلدی اختیارکرنے کامشورہ دے۔
۱۔ تمام ملازمین حکومت سے ایک ڈیکلریشن فارم پرکرایاجائے جس میںہرملازم یہ واضح کرے کہ وہ مرزاغلام احمدکواپنامذہبی پیشوامانتاہے یانہیں۔
۲۔ جوشخص غلط ڈیکلریشن دے اس کی غلط بیانی جس وقت بھی ظاہرہواسی وقت اس کوملازمت سے الگ کردیاجائے اوراس کے تمام حقوق جوسرکاری ملازمت کی بنا پراسے حاصل ہوں،ساقط کردئیے جائیں،اوراس کوآئندہ ہرملازمت کے لیے نااہل قراردے دیاجائے۔
۳۔ رائے دہندوںکی فہرست اورمردم شماری میںپیروان مرزاغلام احمدکاخانہ علیحدہ رکھاجائے۔
۴۔ شناختی کارڈوںاورپاسپورٹوںمیںبھی مرزاغلام احمدکے پیروئوںکے لیے ان کے نام کے ساتھ ان کے مذہب کی تصریح کی جائے۔
۵۔ تمام کلیدی اسامیوںسے اس گروہ کے افرادکوہٹادیاجائے۔
۶۔ سرکاری ملازمتوںمیںاس گروہ کے لوگوںکاتناسب ان کی آبادی کے مطابق کر دیا جائے اورتناسب سے بہت زیادہ مناصب ان کودے کرمسلمانوںکے ساتھ جو بے انصافی کی جاتی رہی ہے، اس کاتدارک کیاجائے۔
۷۔ربوہ(چناب نگر) کی زمین جن شرائط پرانہیںدی گئی ہے ان پرنظرثانی کی جائے اورمفادعامہ کوملحوظ رکھ کرازسرنوشرائط مقررکی جائیں۔نیزاگریہ ثابت ہوکہ انھوںنے گرانٹ کی شرائط کی خلاف ورزی کی ہے تواس گرانٹ کومسنوخ کردیاجائے۔
۸۔ ربوہ(چناب نگر) کوجسے انھوںنے ریاست درریاست بنارکھاہے، کھلا شہر قرار دیا جائے اور وہاںمسلمانوںکوجائیداد حاصل کرنے،سکونت اختیارکرنے یاکاروبارکرنے کے پورے مواقع دئیے جائیں۔
ایسی قرار دادیں پاس ہونے کے بعد اگر حکومت اس پر مستعدی کے ساتھ انتظامی کارروائی کرے تو ملک بہت جلدان خطرات سے محفوظ ہوسکتاہے جواس فتنے کے ۸۰۔۹۰ سال تک پروان چڑھتے رہنے سے اب اعلانیہ رونماہورہے ہیں۔
اس کے علاوہ میںوزیراعظم صاحب سے دوگزارشیں اورکروںگا۔ایک یہ کہ صمدانی ٹریبونل کی رپورٹ کوبلاکم وکاست شائع کریں۔دوسرے یہ کہ ختم نبوت کی تحریک پر جو بے جا پابندیاںملک میںلگائی گئی ہیں‘جوگرفتاریاںاس تحریک کوروکنے کے لیے عمل میں لائی گئی ہیں اورپریس کاگلاگھونٹنے کے لیے جوکچھ کیاگیاہے۔اس پورے سلسلے کو انہیں فوراً ختم کردیناچاہیےکیونکہ یہ سب کچھ ان کی ۱۳جون ۱۹۷۴ء والی تقریرکی روح اورمعنی کے بالکل خلاف ہے۔
واخردعوانا ان الحمدللّٰہ رب العالمین
(ترجمان القرآن ستمبر۱۹۷۴ئ)
٭…٭…٭…٭…٭