آخری جواب طلب بات یہ رہ جاتی ہے کہ قادیانی حضرات اسلام کی مدافعت اور تبلیغ کرتے رہے ہیں، اس لیے ان سے ایسا سلوک نہیں کرنا چاہیے۔
یہ درحقیقت ایک بہت بڑی غلط فہمی ہے جس میں بالعموم ہمارے نئے تعلیم یافتہ لوگ بُری طرح مبتلا ہیں۔ اس لیے ہم ان سے گزارش کرتے ہیں کہ ذرا آنکھیں کھول کر مرزا صاحب قادیانی کی حسب ذیل عبارتوں کو ملاحظہ فرمائیں ۔ یہ عبارتیںاس مذہب کے بانی کی نیت اور مقاصد کو خود ہی بڑی خوبی کے ساتھ بیان کررہی ہیں:
’’تریاق القلوب ‘‘ مطبوعہ مطبع ضیاء الاسلام قادیان ۲۸/اکتوبر ۱۹۰۲ ۶ضمیمہ نمبر۳ بعنوان ’’حضور گورنمنٹ عالیہ میں ایک عاجزانہ درخواست ‘‘ میں مرزا غلام احمد صاحب لکھتے ہیں :
’’بیس برس کی مدت سے میں اپنے دلی جوش سے ایسی کتابیں زبان فارسی اور عربی اور اُردو اور انگریزی میں شائع کررہاہوں جن میں بار بار یہ لکھا گیا ہے کہ مسلمانوں کا فرض ہے ، جس کے ترک سے وہ خدا تعالیٰ کے گناہ گار ہوں گے کہ اس گورنمنٹ کے سچے خیر خواہ اور دلی جاں نثار ہو جائیں اور جہاد اور خونی مہدی کے انتظار وغیرہ بے ہودہ خیالات سے جو قرآن شریف سے ہرگز ثابت نہیں ہوسکتے، دست بردار ہوجائیں اور اگر وہ اس غلطی کو چھوڑنانہیں چاہتے تو کم سے کم یہ ان کا فرض ہے کہ اس گورنمنٹ محسنہ کے نا شکر گزار نہ بنیں اور نمک حرامی سے خدا کے گناہ گار نہ ٹھہریں ۔ ‘‘ (ص: ۳۰۷)
’’اب میں اپنی گورنمنٹ محسنہ کی خدمت میں جرأت سے کہہ سکتاہوں کہ وہ بست سالہ میری خدمت ہے جس کی نظیر برٹش انڈیا میں ایک بھی اسلامی خاندان پیش نہیں کرسکتا۔ یہ بھی ظاہر ہے کہ اس قدر لمبے زمانہ تک جو بیس برس کازمانہ ہے ایک مسلسل طور پر تعلیم مذکورہ بالا پر زور دیتے جانا کسی منافق اور خود غرض کاکام نہیں ہے بلکہ ایسے شخص کا کام ہے جس کے دل میں اس گورنمنٹ کی سچی خیرخواہی ہے۔ ہاں میں اس بات کا اقرار کرتاہوں کہ میں نیک نیتی سے دوسرے مذاہب کے لوگوں سے مباحثات بھی کیاکرتاہوں اور ایسا ہی پادریوں کے مقابل پر بھی مباحثات کی کتابیں شائع کرتارہاہوں اور میں اس بات کا بھی اقرار ی ہوں جب کہ بعض پادریوں اور عیسائی مشنریوں کی تحریر نہایت سخت ہوگئی اور حد اعتدال سے بڑھ گئی اور بالخصوص پرچہ نور افشاں میں جو کہ ایک عیسائی اخبار لدھیانہ سے نکلتاہے، نہایت گندی تحریریں شائع ہوئیں اور مولفین نے ہمارے نبی اکرمﷺ کی نسبت نعوذباللہ ایسے الفاظ استعمال کیے کہ یہ شخص ڈاکو تھا ، چور تھا ، زنا کار تھااور صدہا پرچوںمیں یہ شائع کیا کہ یہ شخص اپنی لڑکی پر بدنیتی سے عاشق تھا اور بایں ہمہ جھوٹاتھا اور لو ٹ مار اور خون کرنا اس کا کام تھا تو مجھے ایسی کتابوں اور اخباروں کے پڑھنے سے یہ اندیشہ دل میں پیدا ہواکہ مبادا مسلمانوں کے دلوں پر جو ایک جوش رکھنے والی قوم ہے، ان کلمات کاکوئی سخت اشتعال دینے والا اثر پیدا ہو تب میں نے ان جوشوں کو ٹھنڈا کرنے کے لیے اپنی صحیح اورپاک نیت سے یہی مناسب سمجھاکہ اس عام جوش کو دبانے کے لیے حکمت عملی یہی ہے کہ ان تحریرات کاکسی قدر سختی سے جواب دیا جائے تاکہ سریع الغضب انسانوں کے جوش فرو ہوجائیں اور ملک میں کوئی بدامنی پیدانہ ہو۔ تب میں نے بمقابل ایسی کتابوں کے جن میں کمال سختی سے بدزبانی کی گئی تھی چند ایسی کتابیں لکھیں جن میں بالمقابل سختی تھی کیونکہ میرے کانشنس نے قطعی طور پر مجھے فتویٰ دیاکہ اسلام میں جو بہت سے وحشیانہ جوش رکھنے والے آدمی موجود ہیں ،ان کے غیظ و غضب کی آگ بجھانے کے لیے یہ طریق کافی ہوگا ۔(ص ۳۰۸۔۳۰۹)
پھر چند سطور کے بعد لکھتے ہیں :
’’سو مجھ سے پادریوں کے مقابل پر جو کچھ وقوع میں آیا یہی ہے کہ حکمت عملی سے بعض وحشی مسلمانوں کو خوش کیاگیااور میں دعویٰ سے کہتا ہوں کہ تمام مسلمانوں میں سے اول درجے کا خیرخواہ گورنمنٹ انگریزی کا ہوں کیونکہ مجھے تین باتوں نے خیرخواہی میں اول درجے پر بنادیاہے اول والد مرحوم کے اثر نے، دوم اس گورنمنٹ عالیہ کے احسانوں نے، سوم تیسرے خداتعالی کے الہام نے۔‘‘ (ص ۳۰۹۔۳۱۰)