اس سلسلہ میں سب سے پہلے میں ضروری سمجھتا ہوں کہ اس غلط فہمی کو دُور کروں جو اسلامی قانون کے اجرا کے متعلق کثرت سے لوگوں کے ذہن میں پائی جاتی ہے۔ لوگ جب سنتے ہیں کہ ہم یہاں اسلامی حکومت قائم کرنا چاہتے ہیں اور اس حکومت میں ملک کا قانون اسلامی قانون ہوگا تو انہیں یہ گمان ہوتا ہے کہ شاید نظامِ حکومت کے تغیر کا اعلان ہوتے ہی تمام پچھلے قوانین یک لخت منسوخ ہو جائیں گے اور اسلامی قانون بیک وقت نافذ کردیا جائے گا۔ یہ غلط فہمی صرف عام لوگوں ہی میں نہیں پائی جاتی بلکہ اچھے خاصے مذہبی طبقے بھی اس میں مبتلا ہیں۔ ان کے نزدیک ایسا ہونا چاہیے کہ اِدھر اسلامی حکومت قائم ہو اور اُدھر فوراً ہی غیر اسلامی قوانین کا نفاذ بند اور اسلامی قانون کا نفاذ شروع ہو جائے۔ درحقیقت یہ لوگ اس بات کو بالکل نہیں سمجھتے کہ ایک ملک کا قانون اس کے اخلاقی، معاشرتی، معاشی اور سیاسی نظام کے ساتھ گہرا تعلق رکھتا ہے۔ انہیں معلوم نہیں ہے کہ جب تک کسی ملک کا نظامِ زندگی اپنے سارے شعبوں کے ساتھ نہ بدلے اس کے قانونی نظام کا بدل جانا ممکن نہیں ہے۔انہیں اس کا بھی اندازہ نہیں ہے کہ پچھلے سو ڈیڑھ سو برس سے ہم پر جو انگریزی اقتدار مسلط رہا ہے اس نے کس طرح ہماری زندگی کے پورے نظام کو اسلامی اصولوں سے ہٹا کر غیر اسلامی اصولوں پر چلا دیا ہے اور اب اسے پھر بدل کر دوسری بنیادوں پر قائم کرنا کتنی محنت، کتنی کوشش اور کتنا وقت چاہتا ہے۔ یہ لوگ عملی مسائل میں بصیرت نہیں رکھتے، اس لیے اجتماعی نظام کی تبدیلی کو ایک کھیل سمجھتے ہیں اور ہتھیلی پر سرسوں جمانے کا خواب دیکھتے ہیں۔ پھر ان کی یہی باتیں ان لوگوں کو جو اسلامی نظام سے فرار کی راہیں ڈھونڈ رہے ہیں، یہ موقع دے دیتی ہیں کہ وہ اس تخیل کا مذاق اڑائیں اور اس کے حامیوں کا استخفاف کریں۔