ذمّی فوجی خدمت سے مستثنیٰ ہیں اور دشمن سے ملک کی حفاظت کرنا تنہا مسلمانوں کے فرائض میں داخل کیا گیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ایک اصول پر جو ریاست قائم ہو اس کی حفاظت کے لیے وہی لوگ لڑ سکتے ہیں اور انہی کو اس کے لیے لڑنا چاہیے جو اس اصول کو حق مانتے ہیں۔ پھر لڑائی میں اپنے اصول اور حدود کی پابندی بھی وہی کر سکتے ہیں دوسرے لوگ اگر اس ریاست کی حفاظت کے لیے لڑیں گے تو محض کرایہ کے سپاہیوں (Mercenaries) کی حیثیت سے لڑیں گے اور اسلام کے مقرر کیے ہوئے اخلاقی حدود کی پابندی نہ کر سکیں گے۔ اسی لیے اسلام نے ذمّیوں کو فوجی خدمت سے مستثنیٰ کر کے ان پر صرف یہ فرض عائد کیا ہے کہ وہ ملکی حفاظت کے مصارف میں اپنا حصہ ادا کر دیں۔ جزیہ کی اصل حیثیت یہی ہے۔ وہ نہ صرف اطاعت کا نشان ہے، بلکہ فوجی خدمت سے استثناء کا بدل اور ملکی حفاظت کا معاوضہ بھی ہے۔ چنانچہ جزیہ صرف قابلِ جنگ مردوں ہی پر لگایا جاتا ہے۔ اور اگر مسلمان کسی وقت ذمّیوں کی حفاظت سے قاصر ہوں تو جزیہ واپس کر دیا جاتا ہے۔ ۱ ؎ جنگ یرموک کے موقع پر جب رومیوں نے مسلمانوں کے مقابلہ میں ایک زبردست فوج جمع کی اور مسلمانوں کو شام کے تمام مفتوحہ علاقوں کو چھوڑ کر ایک مرکز پر اپنی طاقت سمیٹنی پڑی تو حضرت ابو عبیدہ ث نے اپنے امراء کو لکھا کہ جو کچھ جزیہ و خراج تم نے ذمّیوں سے وصول کیا ہے انہیں واپس کر دو اور ان سے کہو کہ ’’اب ہم تمہاری حفاظت سے قاصر ہیں‘ اس لیے ہم نے جو مال تمہاری حفاظت کے معاوضہ میں وصول کیا تھا اسے واپس کرتے ہیں۔‘‘ (کتاب الخراج صفحہ ۱۱۱)
اس حکم کے مطابق تمام امراء فوج نے جمع شدہ رقوم واپس کر دیں۔ بلا ذری اس موقع پر غیر مسلم رعایا کے جذبات کا حال لکھتا ہے کہ جب مسلمانوں نے حمص میں جزیہ کی رقم واپس کی تو وہاں کے باشندوں نے یک زبان ہو کر کہا کہ ’’تمہاری حکومت اور انصاف پسندی ہم کو اُس ظلم و ستم سے زیادہ محبوب ہے جس میں ہم مبتلا تھے۔ اب ہم ہرقل کے عامل کو اپنے شہر میں ہرگز نہ گھسنے دیں گے۔ تاوقتیکہ لڑ کر مغلوب نہ ہوجائیں۔ (فتوح البلدان طبع یورپ ص ۱۳۷)