یہ تو تھا مذہب کے بارے میں اس آنے والی فاتح تہذیب کا رویہ، اب دیکھیے کہ اس کا اپنا فلسفۂ حیات کیا تھا جسے مذہب کی نفی کرکے اس نے اختیار کیا تھا۔
یہ سراسر ایک مادہ پرستانہ فلسفہ تھا۔ مغرب کے فکری راہ نما محسوسات سے ماورا کسی غیبی حقیقت کو ماننے کے لیے نہ تو تیار ہی تھے اور نہ وحی والہام کے سوا… جس کے وہ منکر تھے… حقائقِ غیب کو جاننے اور ٹھیک ٹھیک سمجھنے کا اور کوئی ذریعہ ہی ہو سکتا تھا۔ پھر سائنٹفک اسپرٹ اس امر میں بھی مانع تھی کہ وہ مجرد قیاسات پر غیبی طاقتوں کے متعلق کسی تصور کی عمارت کھڑی کر دیں۔ اس کی کوشش اگر کی بھی گئی تو علمی تنقید کے معاملے میں وہ نہ ٹھیر سکی۔ اس لیے غیب کے بارے میں جب وہ شک اور لاادریّت کے مقام سے آگے نہ بڑھ سکے تو ان کے لیے اس کے سوا چارہ نہ رہا کہ دُنیا اور اس کی زندگی کے متعلق وہ جو رائے بھی قائم کریں، صرف حواس کے اعتماد پر کریں۔اس چیز نے ان کے پورے فلسفۂ زندگی کو ظاہر پرست بنا کر رکھ دیا۔ انھوں نے سمجھا کہ انسان ایک قسم کا حیوان ہے جو اس زمین میں پایا جاتا ہے۔ وہ نہ کسی کا تابع ہے، نہ کسی کے آگے جواب دہ۔ اس کو کہیں اوپر سے ہدایت بھی نہیں ملتی۔ اپنی ہدایت اسے خود لینی ہے اور اس ہدایت کا ماخذ اگر کوئی ہے تو وہ قوانین طبیعی ہیں، یا حیوانی زندگی کی معلومات، یا پھر خود پچھلی انسانی تاریخ کے تجربات۔ انھوں نے سمجھا کہ زندگی جو کچھ ہے بس یہی دنیا کی زندگی ہے، اس کی کام یابی اور خوش حالی عین مطلوب ہے اور اسی کے اچھے اور برے نتائج مدارِ فیصلہ ہیں۔ انھوں نے سمجھا کہ انسان کی زندگی کا کوئی مقصد اپنی طبیعت کے تقاضوں کو پورا کرنے اور اپنے نفس کی خواہشوں کو حاصل کرنے سوا نہیں ہے۔ انھوں نے سمجھا کہ حقیقت جو کچھ بھی ہے، ان ہی چیزوں کی ہے جن کو ناپا یا تولا جا سکے، یا جن کا وزن وقدر کسی طرح کی پیمائش قبول کر سکے۔ جو چیزیں اس نوعیت کی نہیں ہیں وہ بے حقیقت اور بے قدر ہیں۔ ان کے پیچھے پڑنا وقت ضائع کرنا ہے۔
میں یہاں ان فلسفیانہ نظاموں کا ذکر نہیں کر رہا ہوں جو مغرب میں بنے، کتابوں میں لکھے گئے اور یونی ورسٹیوں میں پڑھے پڑھائے جاتے رہے۔ میں اس تصورِ کائنات وانسان اور اس تصور حیات ودنیا کا ذکر کر رہا ہوں جسے مغربی تہذیب وتمدن نے اپنے اندر جذب کیا اور جو ایک عام مغربی کے ذہن میں، اور اس سے اثر لینے والے ایک عام انسان کے ذہن میں پیوست ہوا۔ اس کا خلاصہ وہی کچھ ہے جو میں نے آپ کے سامنے بیان کیا ہے۔
اس کے علاوہ تین بڑے فلسفیانہ نظرئیے ایسے ہیں جو اٹھارویں اور انیسویں صدی میں… اسی زمانے میں جبکہ ہم مغرب کے غلام رہے تھے… اٹھے اور اپنی تفصیلات سے قطع نظر، اپنی روح کے اعتبار سے پوری تہذیب پر چھا گئے۔ میں یہاں خاص طور پر ان کا ذکر کروں گا کیوں کہ انسانی زندگی پر جتنا ہمہ گیر اثر ان کا پڑا ہے، شاید کسی اورچیز کا نہیں پڑا۔