Search
Close this search box.

فہرست موضوعات

عرضِ ناشر
سلامتی کا راستہ (یہ خطبہ مئی ۱۹۴۰ء میں ریاست کپور تھلہ میں ہندوئوں،سکھوں اور مسلمانوں کے ایک مشترکہ اجتماع کے سامنے پیش کیا گیا تھا)
توحید
اِنسان کی تباہی کا اصلی سبب
ہماری صحیح حیثیت
ظلم کی وجہ
بے انصافی کیوں ہے؟
فلاح کس طرح حاصل ہو سکتی ہے؟
اَمن کس طرح قائم ہو سکتا ہے؟
ایک شُبہ

سلامتی کا راستہ

اس ویب سائٹ پر آپ کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ اب آپ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی رحمتہ اللہ علیہ کی کتابوں کو ’’پی ڈی ایف ‘‘ کے ساتھ ساتھ ’’یونی کوڈ ورژن‘‘ میں بھی پڑھ سکتے ہیں۔کتابوں کی دستیابی کے حوالے سے ہم ’’اسلامک پبلی کیشنز(پرائیوٹ) لمیٹڈ، لاہور‘‘، کے شکر گزار ہیں کہ اُنھوں نے اس کارِ خیر تک رسائی دی۔ اس صفحے پر آپ متعلقہ کتاب PDF اور Unicode میں ملاحظہ کیجیے۔

فلاح کس طرح حاصل ہو سکتی ہے؟

اس بات کو اگر آپ صحیح سمجھتے ہیں تو غور کیجیے کہ انسانی فلاح اور خوش حالی کس طرح حاصل ہو سکتی ہے ؟ میرے نزدیک اس کی کوئی صورت اس کے سوا نہیں کہ انسانی زندگی کے لیے قانون وُہ بنائے جس کی نظر میں تمام انسان یکساں ہوں۔ سب کے حقوق انصاف کے ساتھ وُہ مقرر کرے جو نہ تو خود اپنی کوئی ذاتی غرض رکھتا ہوا ورنہ کسی خاندان یا طبقہ کی یا کسی ملک یا قوم کی اغراض سے اسے خاص دل چسپی ہو۔ سب کے سب اس کا حکم مانیں جو حکم دینے میں نہ اپنی جہالت کی وجہ سے غلطی کرے، نہ اپنی خواہش کی بنا پر حکم رانی کے اختیارات سے ناجائز فائدہ اُٹھائے، اورنہ ایک کا دشمن اور دُوسرے کا دوست، ایک کا طرف دار اور دوسرے کا مخالف، ایک کی طرف مائل اور دوسرے سے منحرف ہو۔ صرف اِسی صورت میں عدل قائم ہو سکتا ہے۔ اسی طرح تمام انسانوں، تمام قوموں، تمام طبقوں اور تمام گروہوں کو اُن کے جائز حقوق پہنچ سکتے ہیں۔ یہ ہی ایک صورت ہے جس سے ظلم مِٹ سکتا ہے۔
اگر یہ بات بھی درست ہے تو پھر میں آپ سے پوچھتا ہوں کہ کیا دنیا میں کوئی انسان بھی ایسا بے لاگ، ایسا غیر جانب دار، ایسا بے غرض، اور اس قدر انسانی کم زوریوں سے بالاتر ہو سکتا ہے؟ شاید آپ میں سے کوئی شخص میرے اس سوال کا جواب اثبات میں دینے کی جرأت نہ کرے گا۔ یہ شان صرف خدا ہی کی ہے، کوئی دوسرا اس شان کا نہیں ہے۔ انسان خواہ کتنے ہی بڑے دل گردے کا ہو، بہ ہرحال وُہ اپنی کچھ ذاتی اغراض رکھتا ہے، کچھ دل چسپیاں رکھتا ہے، کسی سے اس کا تعلق زیادہ ہے اور کسی سے کم، کسی سے اسے محبت ہے اور کسی سے نہیں ہے، ان کم زوریوں سے کوئی انسان پاک نہیں ہو سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ جہاں خدا کے بجائے انسانوں کا قانون مانا جاتا ہے اور خدا کے بجائے انسانوں کے حکم کی اطاعت کی جاتی ہے وہاں کسی نہ کسی صورت میں ظلم اور بے انصافی ضرور موجود ہے۔
ان شاہی خاندانوں کو دیکھیے جو زبردستی اپنی طاقت کے بل بوتے پرامتیازی حیثیت حاصل کیے ہوئے ہیں۔ انھوں نے اپنے لیے وُہ عزت، وُہ ٹھا ٹھ، وُہ آمدنی، وُہ حقوق، اور وُہ اختیارات مخصوص کر رکھے ہیں جو دوسروں کے لیے نہیں ہیں۔ یہ قانون سے بالاتر ہیں، ان کے خلاف کوئی دعوٰی نہیں کیا جا سکتا، یہ چاہے کچھ کریں اِن کے مقابلہ میں کوئی چارہ جوئی نہیں کی جا سکتی، کوئی عدالت ان کے نام سمن نہیں بھیج سکتی۔ دنیا دیکھتی ہے کہ یہ غلطیاں کرتے ہیں، مگر کہا یہ جاتا ہے اور ماننے والے مان بھی لیتے ہیں کہ ’’بادشاہ غلطی سے پاک ہے۔،، دنیا دیکھتی ہے کہ یہ معمولی انسان ہیں جیسے اور سب انسان ہوتے ہیں، مگر یہ خدا بن کر سب سے اونچے بیٹھتے ہیں اور لوگ ان کے سامنے یوں ہاتھ باندھے، سرجھکائے، ڈرے، سہمے کھڑے ہوئے ہیں گویا ان کا رزق، ان کی زندگی، ان کی موت، سب ان کے ہاتھ میں ہے۔ یہ رعایا کا پیسا اچھے اور بُرے ہر طریقے سے گھسیٹتے ہیں اور اسے اپنے محلوں پر، اپنی سواریوں پر، اپنے عیش و آرام اور اپنی تفریحوں پر بے دریغ لٹاتے ہیں۔ ان کے کتوں کو وُہ روٹی ملتی ہے جو کما کر دینے والی رعایا کو نصیب نہیں ہوتی۔ کیا یہ انصاف ہے؟ کیا یہ طریقہ کسی عادل کا مقرر کیا ہوا ہو سکتا ہے جس کی نگاہ میں سب انسانوں کے حقوق اور مفاد یکساں ہوں؟ کیا یہ لوگ انسانوں کے لیے کوئی منصفانہ قانون بنا سکتے ہیں۔
ان برہمنوں اور پیروں کو دیکھیے، ان نوابوں اور رئیسوں کو دیکھیے، ان جاگیرداروں اور زمین داروں کو دیکھیے، ان سا ہو کاروں اور مہاجنوں کو دیکھیے، یہ سب طبقے اپنے آپ کو عام انسانوں سے بالا تر سمجھتے ہیں۔ ان کے زور و اثر سے جتنے قوانین دُنیا میں بنے ہیں وُہ انھیں ایسے حقوق دیتے ہیں جو عام انسانوں کو نہیں دیے گئے۔ یہ پاک ہیں اور دُوسرے ناپاک، یہ شریف ہیں اور دُوسرے کمین، یہ اُونچے ہیں اور دُوسرے نیچے، یہ لوٹنے کے لیے ہیں اور دُوسرے لٹنے کے لیے، ان کے نفس کی خواہشوں پر لوگوں کی جان، مال، عزت، آبرو ہر ایک چیز قربان کر دی جاتی ہے۔ کیا یہ ضابطے کسی منصف کے بنائے ہوئے ہو سکتے ہیں؟ کیا ان میں صریح طور پر خود غرضی اور جانب داری نظر نہیں آتی؟ کیا اُس سوسائٹی میں منصفانہ قوانین بن سکتے ہیں جس پر یہ لوگ چھائے ہوئے ہیں؟
اِن حاکم قوموں کو دیکھیے جو اپنی طاقت کے بل پر دوسری قوموں کو غلام بنائے ہوئے ہیں۔ ان کا کون سا قانون اور کون سا ضابطہ ایسا ہے جس میں خود غرضی شامل نہیں ہے؟ یہ اپنے آپ کو انسانِ اعلیٰ کہتے ہیں، بلکہ دَرحقیقت صرف اپنے ہی کو انسان سمجھتے ہیں۔ ان کے نزدیک کم زور قوموں کے لوگ یا تو انسان ہی نہیں ہیں یا اگر ہیں تو ادنیٰ درجے کے ہیں۔ یہ ہر حیثیت سے اپنے آپ کو دوسروں سے اونچا ہی رکھتے ہیں اور اپنی اغراض پر دوسروں کے مفاد کو قربان کرنا اپنا حق سمجھتے ہیں۔ ان کے زور و اثر سے جتنے قوانین اور ضوابط دُنیا میں بنے ہیں ان سب میں یہ رنگ موجود ہے۔
یہ چند مثالیں میں نے محض اشارے کے طور پر دی ہیں، تفصیل کا یہاں موقع نہیں۔ میں صرف یہ بات آپ کے ذہن نشین کرنا چاہتا ہوں کہ دنیا میں جہاں بھی انسان نے قانون بنایا ہے وہاں بے انصافی ضرور ہوئی ہے۔ کچھ انسانوں کو ان کے جائز حقوق سے بہت زیادہ دیا گیا ہے اور کچھ انسانوں کے حقوق نہ صرف پامال کیے گئے ہیں بلکہ انھیں انسانیت کے درجہ سے گرا دینے میں بھی تامل نہیں کیا گیا۔ اس کی وجہ انسان کی یہ کم زوری ہے کہ وُہ جب کسی معاملہ کا فیصلہ کرنے بیٹھتا ہے تو اس کے دل و دماغ پر اپنی ذات، یا اپنے خاندان، یا اپنی نسل، یا اپنے طبقے، یا اپنی قوم ہی کے مفاد کا خیال مسلّط رہتا ہے۔ دوسروں کے حقوق اور مفاد کے لیے اس کے پاس وُہ ہم دردی کی نظر نہیں ہوتی جو اپنوں کے لیے ہوتی ہے۔
مجھے بتائیے، کیا اِس بے انصافی کا کوئی علاج اِس کے سوا ممکن ہے کہ تمام انسانی قوانین کو دریا بُرد کر دیا جائے، اور اس خدا کے قانون کو ہم سب تسلیم کر لیں جس کی نگاہ میں ایک انسان اور دوسرے انسان کے درمیان کوئی فرق نہیں، فرق اگر ہے تو صرف اس کے اخلاق، اس کے اعمال، اور اس کے اوصاف کے لحاظ سے ہے، نہ کہ نسل یا طبقے یا قومیت یا رنگ کے لحاظ سے۔

شیئر کریں