Search
Close this search box.

فہرست موضوعات

عرضِ ناشر
تصریح
دیباچہ
باب اوّل: سُنّت کی آئینی حیثیت
ڈاکٹر صاحب کا پہلا خط
جواب
ڈاکٹر صاحب کا دوسرا خط
جواب
سُنّت کیا چیز ہے؟
سُنّت کس شکل میں موجود ہے؟
کیا سُنّت متفق علیہ ہے؟ اور اس کی تحقیق کا ذریعہ کیا ہے؟
چار بنیادی حقیقتیں
دوسرے خط کا جواب
چار نکات
نکتۂ اُولیٰ
رسول اللّٰہa کے کام کی نوعیت
حضور a کی شخصی حیثیت اور پیغمبرانہ حیثیت کا فرق
قرآن سے زائد ہونا اور قرآن کے خلاف ہونا ہم معنی نہیں ہے
کیا سُنّت قرآن کے کسی حکم کو منسوخ کر سکتی ہے؟
نکتۂ دوم
نکتۂ سوم
احادیث کو پرکھنے میں روایت اور درایت کا استعمال
نکتۂ چہارم
اشاعت کا مطالبہ
باب دوم: منصبِ نبوت
ڈاکٹر صاحب کا خط
جواب
۱۔ منصب ِنبوّت اور اس کے فرائض
۲۔ رسول پاکﷺ کے تشریعی اختیارات
۳۔ سُنّت اور اتباع سُنّت کا مفہوم
۴۔رسولﷺ پاک کس وحی کے اتباع پر مامور تھے، اور ہم کس کے اتباع پر مامور ہیں؟
۵۔ مرکزِ ملّت
۶۔ کیا حضورﷺ صرف قرآن پہنچانے کی حد تک نبی تھے؟
۷۔ حضورﷺ کی اجتہادی لغزشوں سے غلط استدلال
۸۔ موہوم خطرات
۹۔ خلفائے راشدین پر بہتان
۱۰۔ کیا حضورﷺ پر قرآن کے علاوہ بھی وحی آتی تھی؟
سُنّت کے متعلق چند مزید سوالات
جواب
وحی پر ایمان کی وجہ
مَااَنْزَلَ اللّٰہُ سے کیا چیز مراد ہے؟
سُنّت کہاں ہے؟
وحی سے مراد کیا چیز ہے؟
محض تکرارِ سوال
ایمان وکفر کا مدار
کیا احکامِ سُنّت میں رد وبدل ہو سکتا ہے؟
باب سوم : اعتراضات اور جوابات
۱۔ بزمِ طلوع اِسلام سے تعلق؟
۲۔ کیا گشتی سوال نامے کا مقصد علمی تحقیق تھا؟
۳۔ رسولﷺ کی حیثیت ِ شخصی و حیثیتِ نبویﷺ
۴۔ تعلیماتِ سنّت میں فرقِ مراتب
۵۔ علمی تحقیق یا جھگڑالو پن؟
۶۔ رسولﷺ کی دونوں حیثیتوں میں امتیاز کا اصول اور طریقہ
۷۔ قرآن کی طرح احادیث بھی کیوں نہ لکھوائی گئیں؟
۸۔ دجل وفریب کا ایک نمونہ
۹۔ حدیث میں کیا چیز مشکوک ہے اور کیا مشکوک نہیں ہے
۱۰۔ ایک اور فریب
۱۱۔ کیا امت میں کوئی چیز بھی متفق علیہ نہیں ہے؟
۱۲۔ سُنّت نے اختلافات کم کیے ہیں یا بڑھائے ہیں؟
۱۳۔ منکرینِ سُنّت اور منکرینِ ختم نبوت میں مماثلت کے وجوہ
۱۴۔ کیا آئین کی بنیاد وہی چیز ہو سکتی ہے جس میں اختلاف ممکن نہ ہو؟
۱۵۔ قرآن اور سُنّت دونوں کے معاملے میں رفعِ اختلاف کی صورت ایک ہی ہے
۱۶۔ ایک دل چسپ مغالطہ
۱۷۔ شخصی قانون اور ملکی قانون میں تفریق کیوں؟
۱۸۔ حیثیت ِرسول ﷺ کے بارے میں فیصلہ کن بات سے گریز
۱۹۔ کیا کسی غیر نبی کو نبی کی تمام حیثیات حاصل ہو سکتی ہیں
۲۰۔ اِسلامی نظام کے امیر اور منکرینِ حدیث کے مرکزِ ملت میں عظیم فرق
۲۱۔ عہد رسالت میں مشاورت کے حدود کیا تھے؟
۲۲۔ اذان کا طریقہ مشورے سے طے ہوا تھا یا الہام سے؟
۲۳۔ حضورﷺ کے عدالتی فیصلے سند وحجت ہیں یا نہیں؟
۲۴۔ کج بحثی کا ایک عجیب نمونہ
۲۵۔ کیا اللہ تعالیٰ بھی غلطی کرسکتا ہے؟
۲۶۔حضورﷺ کے ذاتی خیال اور بربنائے وحی کہی ہوئی بات میں واضح امتیاز تھا
۲۷۔ کیا صحابہؓ اس بات کے قائل تھے کہ حضورﷺ کے فیصلے بدلے جا سکتے ہیں؟
۲۸۔ مسئلہ طلاق ثلاثہ میں حضرت عمرؓ کے فیصلے کی اصل نوعیت
۲۹۔ مؤلفۃ القلوب کے بارے میں حضرت عمرؓ کے استدلال کی نوعیت
۳۰۔ کیا مفتوحہ اراضی کے بارے میں حضرت عمرؓ کا فیصلہ حکم رسولﷺ کے خلاف تھا؟
۳۱۔ وظائف کی تقسیم کے معاملے میں حضرت عمرؓ کا فیصلہ
۳۲۔ کیا قرآن کے معاشی احکام عبوری دور کے لیے ہیں؟
۳۳۔ ’’عبوری دور‘‘ کا غلط مفہوم
۳۴۔ حضورﷺکیا صرف شارح قرآن ہی ہیں یا شارع بھی؟
۳۵۔ بصیرت رسولﷺ کے خداداد ہونے کا مفہوم
۳۶۔ وحی کی اقسام ازروئے قرآن
۳۷۔ وحی غیرمتلو پر ایمان، ایمان بالرسول کا جُز ہے
۳۸۔ کیا وحی غیر متلو بھی جبریل ہی لاتے تھے؟
۳۹۔ کتاب اور حکمت ایک ہی چیز یا الگ الگ
۴۰۔ لفظ تلاوت کے معنی
۴۱۔ کتاب کے ساتھ میزان کے نزول کا مطلب
۴۲۔ ایک اور کج بحثی
۴۳۔ تحویلِ قبلہ والی آیت میں کون سا قبلہ مراد ہے؟
۴۴۔ قبلے کے معاملے میں رسولﷺ کی پیروی کرنے یا نہ کرنے کا سوال کیسے پیدا ہوتا تھا؟
۴۵۔ نبی پر خود ساختہ قبلہ بنانے کا الزام
۴۶۔ لَقَدْ صَدَقَ اللّٰہُ رَسُوْلَہُ الرُّؤْیَا کا مطلب
۴۷۔ کیا وحی خواب کی صورت میں بھی ہوتی ہے؟
۴۸۔ بے معنی اعتراضات اور الزامات
۴۹۔ کیا آنحضورﷺ نے صحابہؓ کو دھوکا دیا تھا؟
۵۰۔ کیا آنحضورﷺ اپنے خواب سے متعلق متردد تھے؟
۵۱۔دروغ گویم بر رُوئے تو
۵۲۔ رُو در رُو بہتان
۵۳۔ نَبَّأَنِیَ الْعَلِیْمُ الْخَبِیْرُ کا مطلب

سنت کی آئینی حیثیت

انکار سنت کا فتنہ اسلامی تاریخ میں سب سے پہلے دوسری صدی ہجری میں اُٹھا تھا اور اس کے اُٹھانے والے خوارج اور معتزلہ تھے۔ خوارج کو اس کی ضرورت اس لیے پیش آئی کہ مسلم معاشرے میں جو انارکی وہ پھیلانا چاہتے تھے، اس کی راہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی وہ سنت حائل تھی جس نے اس معاشرے کو ایک نظم و ضبط پر قائم کیا تھا، اور اس کی راہ میں حضور کے وہ ارشادات حائل تھے جن کی موجودگی میں خوارج کے انتہا پسندانہ نظریات نہ چل سکتے تھے۔ اس بنا پر اُنھوں نے احادیث کی صحت میں شک اور سنت کے واجب الاتباع ہونے سے انکار کی دو گونہ پالیسی اختیار کی۔ معتزلہ کو اس کی ضرورت اس لیے لاحق ہوئی کہ عجمی اور یونانی فلسفوں سے پہلا سابقہ پیش آتے ہی اسلامی عقائد اور اصول و احکام کے بارے میں جو شکوک و شبہات ذہنوں میں پیدا ہونے لگے تھے، اُنھیں پوری طرح سمجھنے سے پہلے وہ کسی نہ کسی طرح اُنھیں حل کر دینا چاہتے تھے۔ خود ان فلسفوں میں ان کو وہ بصیرت حاصل نہ ہوئی تھی کہ ان کا تنقیدی جائزہ لے کر ان کی صحت و قوت جانچ سکتے۔ اُنھوں نے ہر اس بات کو جو فلسفے کے نام سے آئی، سراسر عقل کا تقاضا سمجھا اور یہ چاہا کہ اسلام کی عقائد اور اصولوں کی ایسی تعبیر کی جائے جس سے وہ ان نام نہاد عقلی تقاضوں کے مطابق ہو جائیں۔ اس راہ میں پھر وہی حدیث و سنت مانع ہوئی۔ اس لیے اُنھوں نے بھی خوارج کی طرح حدیث کو مشکوک ٹھیرایا اور سنت کو حجت ماننے سے انکار کیا۔ اس کتاب میں مولانا مودودیؒ نے مخالفانہ دلائل کو ایک ایک کرکے اس طرح بیان کیا ہے کہ اس کے بعد کوئی گنجائش باقی نہیں رہتی۔ سید مودودیؒ کتاب کے آخر میں رقم طراز ہیں: ”ہم نے ایک ایک دلیل کا تفصیلی جائزہ لے کر جو بحث کی ہے اسے پڑھ کر ہر صاحب علم آدمی خود یہ رائے قائم کر سکتا ہے کہ ان دلائل میں کتنا وزن ہے اور ان کے مقابلے میں سنت کے ماخذ قانون اور احادیث کے قابل استناد ہونے پر جو دلیلیں ہم نے قائم کی ہیں وہ کس حد تک وزنی ہیں۔ ہم خاص طور پر خود فاضل جج سے اور مغربی پاکستان ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اور ان کے رفقا سے گزارش کرتے ہیں کہ وہ پورے غور کے ساتھ ہماری اس تنقید کو ملاحظہ فرمائیں اور اگر ان کی بے لاگ رائے میں، جیسی کہ ایک عدالت عالیہ کے فاضل ججوں کے رائے بے لاک ہونی چاہیے، یہ تنقید فی الواقع مضبوط دلائل پر مبنی ہو تو وہ قانون کے مطابق کوئی ایسی تدبیر عمل میں لائیں جس سے یہ فیصلہ آئیندہ کے لیے نظیر نہ بن سکے۔ عدالتوں کا وقار ہر ملک کے نظام عدل و انصاف کی جان ہوتا ہے اور بہت بڑی حد تک اسی پر ایک مملکت کے استحکام کا انحصار ہوتا ہے۔ اس وقار کے لیے کوئی چیز اس سے بڑھ کر نقصان دہ نہیں ہے کہ ملک کی بلند ترین عدالتوں کے فیصلے علمی حیثیت سے کمزور دلائل اور ناکافی معلومات پر مشتمل ہوں۔ اس لیے یہ ضروری ہے کہ جب ایمان دارانہ تنقید سے ایسی کسی غلطی کی نشان دہی ہو جائے تو اولین فرصت میں خود حاکمان عدالت ہی اس کی تلافی کی طرف توجہ فرمائیں۔“ حدیث کے حوالے سے شکوک وشبہات کا اظہار کرنے والے افراد کے لیے اس کتاب کو پڑھنا بہت اہم ہے۔

فقہ حنفی کی اصل حیثیت

اب ہم اس فیصلے کے اصولی مباحث پر ایک نگاہ ڈالتے ہیں جیسا کہ اس کے مطالعے سے ناظرین کے سامنے آ چکا ہے۔ یہ حضانت کے ایک مقدمے کا فیصلہ ہے۔ اس سلسلے میں حضانت کے متعلق فقہ حنفی کے قواعد کا حوالہ دیتے ہوئے فاضل جج یہ فرماتے ہیں کہ انگریزی حکومت کے دور میں پریوی کونسل تک تمام عدالتیں ان قواعد کی پوری پابندی کرتی رہی ہیں، اور اس کی وجہ ان کی رائے میں یہ ہے کہ:
مسلمان قانون دان یہ نہیں چاہتے تھے کہ انگریز یا دوسرے غیر مسلم اپنے مقصد کے مطابق قرآن پاک کی تفسیر وتعبیر کریں اور قوانین بنائیں۔ مسلم قانون سے تعلق رکھنے والے تمام معاملات میں فتاوائے عالمگیری کو جو اہمیت دی گئی ہے وہ اسی حقیقت کی صاف نشاندہی کرتی ہے لیکن اب حالات بالکل بدل چکے ہیں۔ (پیرا گراف نمبر۴)
پھر حضانت کے حنفی قانون کی تفصیلات بیان کرنے کے بعد وہ دوبارہ یہ سوال اُٹھاتے ہیں کہ:
کیا کسی درجے کی قطعیت کے ساتھ ان قواعد کو اِسلامی قانون کہا جا سکتا ہے جسے وہی لزوم کا مرتبہ حاصل ہو جو ایک کتابِ آئین میں درج شدہ قانون کو حاصل ہوتا ہے؟
(پیرا گراف ۷)
ہمارے خیال میں یہ رائے ظاہر کرتے وقت فاضل جج کی نگاہ ان تمام اسباب پر نہیں تھی جن کی بِنا پر حنفی قانون نہ صرف انگریزی دور میں اور نہ صرف ہمارے ملک میں، بلکہ تیسری صدی ہجری سے دُنیائے اِسلام کے ایک بڑے حصے میں اِسلامی قانون مانا جاتا رہا ہے۔ انھوں نے اس کے ایک بہت ہی خفیف سے جزوی سبب کا نوٹس لیا ہے، اور اسی بِنا پر ان کا یہ ارشاد بھی صحیح صورت واقعہ کی ترجمانی نہیں کرتا کہ ’’اب حالات بالکل بدل چکے ہیں۔
اِسلامی قانون کی تاریخ سے جو لوگ واقف ہیں ان سے یہ بات پوشیدہ نہیں ہے کہ خلافت راشدہ کی جگہ شاہی طرز حکومت قائم ہو جانے سے اِسلامی نظام قانون میں ایک بڑا خلا رونما ہو گیا تھا جو ایک صدی سے زیادہ مدت تک موجود رہا۔ خلافت راشدہ میں ’’شورٰی‘‘ ٹھیک وہی کام کرتی تھی جو موجودہ زمانے میں ایک مجلس قانون ساز کا کام ہوتا ہے۔ مسلم مملکت میں جو جو مسائل بھی ایسے پیش آتے تھے جن پر ایک واضح قانونی حکم کی ضرورت ہوتی تھی، خلیفہ کی مجلسِ شورٰی ان پرکتاب اللّٰہ اور سُنّت رسول اللّٰہﷺ کی روشنی میں اجتماعی فکر واجتہاد سے کام لے کر فیصلے کرتی تھی اور وہی فیصلے پوری مملکت میں قانون کی حیثیت سے نافذ ہوتے تھے۔ قرآن مجید کے کسی فرمان کی تعبیر میں اختلاف ہو، یا سُنّت رسولﷺ کی تحقیق میں، یا کسی نئے پیش آمدہ مسئلے پر اصول شریعت کی تطبیق میں‘مجلسِ شورٰی کے سامنے ایسا ہر اختلاف ہر وقت پیش ہو جاتا تھا اور اجماع یا کثرت رائے سے اس کا جو فیصلہ بھی ہو جاتا، وہ قانون بن جاتا تھا۔ خلافتِ راشدہ کی اس مجلس کو یہ حیثیت محض سیاسی طاقت کے بَل پر حاصل نہ تھی، بلکہ اس کی اصل وجہ وہ اعتماد تھا جو عام مسلمان خلیفہ اور اس کے اہلِ شورٰی کی خدا ترسی، دیانت، خلوص اور علم دین پر رکھتے تھے۔
جب یہ نظام باقی نہ رہا اور شاہی حکومتوں نے اس کی جگہ لے لی تو فرماں روا اگرچہ مسلمان تھے اور ا ن کے اعیانِ حکومت اور اہلِ دربار بھی مسلمان ہی تھے، لیکن ان میں سے کوئی بھی یہ جرأت نہ کر سکا کہ مسائل ومعاملات میں خلفائے راشدینؓ کی طرح فیصلے دیتا، کیوں کہ وہ خود جانتے تھے کہ انھیں عام مسلمانوں کا اعتماد حاصل نہیں ہے اور ان کے فیصلے قانون اِسلام کا جز نہیں بن سکتے۔ وہ اگر خلفائے راشدینؓ کی شورٰی کے مانند عام مسلمانوں کے معتمد اہلِ علم وتقوٰی کی ایک مجلس بناتے اور اس کو وہی آئینی حیثیت دیتے جو اس شورٰی کو حاصل تھی، تو ان کی بادشاہی نہ چل سکتی تھی اور اگر وہ اپنے مطلب کے لوگوں کی مجلسِ شورٰی بنا کر فیصلے صادر کرنے شروع کر دیتے تو مسلمان ان کے فیصلوں کو شرعی فیصلے ماننے کے لیے تیار نہ تھے۔ ایسے فیصلے طاقت کے ذریعے سے مسلط کیے جا سکتے تھے، لیکن انھیں مسلط کرنے والی طاقت جب بھی ہٹتی وہ فیصلے اسی جگہ پھینک دئیے جاتے جہاں ان کے نافذ کرنے والے گئے تھے۔ ان کا ایک مستقل جزوِ شریعت بن کر رہنا کسی طرح ممکن نہ تھا۔
اس حالت میں اِسلامی نظامِ قانون کے اندر ایک خلا پیدا ہو گیا۔ خلافتِ راشدہ کے زمانے میں مسائل ومعاملات کے جو فیصلے اجماعی طور پر ہو گئے تھے، وہ تو پوری مملکت کا قانون رہے، لیکن اس کے بعد پیش آنے والے مسائل ومعاملات میں ایسا کوئی ادارہ موجود نہ رہا جو قرآن کی تعبیر اور سُنّت کی تحقیق اور قوت اجتہادیہ کے استعمال سے ایک فیصلہ دیتا اور وہ مملکت کا قانون قرار پاتا۔ اس دور میں مختلف قاضی اور مفتی اپنے اپنے طور پر جو فتوے دیتے رہے، وہ ان کے دائرۂ اثر واختیار میں نافذ ہوتے رہے۔ ان متفرق فتاوٰی اور فیصلوں سے مملکت میں ایک قانونی طوائف الملوکی پیدا ہو گئی۔ کوئی ایک قانون نہ رہا جو یکسانی کے ساتھ تمام عدالتوں میں نافذ ہوتا اور جس کے مطابق تمام انتظامی محکمے کام کرتے۔ منصور عباسی کے عہد میں ابن المقفع نے اس طوائف الملوکی کو شدت کے ساتھ محسوس کیا، اور خلیفہ کو مشورہ دیا کہ وہ خود اس خلا کو بھرنے کی کوشش کرے لیکن خلیفہ اپنی حیثیت کو خود جانتا تھا۔ وہ کم از کم اتنا برخود غلط نہ تھا جتنے آج کل کے ڈکٹیٹر حضرات ہیں۔ اسے معلوم تھا کہ جو قانون اس کی صدارت میں اس کے نامزد کیے ہوئے لوگوں کے ہاتھوں بنیں گے اور اس کے امضا (sanction) سے نافذ ہوں گے انھیں کتنے مسلمان شریعت کے احکام مان لیں گے۔
قریب قریب ایک صدی اس حالت پر گزر چکی تھی کہ امام ابوحنیفہؒ اس خلا کو بھرنے کے لیے آگے بڑھے۔ انھوں نے کسی سیاسی طاقت اور کسی آئینی حیثیت کے بغیر اپنے تربیت کردہ شاگردوں کی ایک غیر سرکاری مجلس قانون ساز (private legislature) بنائی۔اس میں قرآن کے احکام کی تعبیر، سنتوں کی تحقیق، سلف کے اجماعی فیصلوں کی تلاش وجستجو، صحابہ وتابعین اور تبع تابعین کے فتاوٰی کی جانچ پڑتال اور معاملات ومسائل پر اصول شریعت کی تطبیق کا کام بڑے وسیع پیمانے پر کیا گیا اور پچیس تیس سال کی مدت میں اِسلام کا پورا قانون مدون کرکے رکھ دیا گیا۔ یہ قانون کسی بادشاہ کی رضا سے مدون نہیں کیا گیا تھا۔ کوئی طاقت اس کی پشت پر نہیں تھی جس کے زور سے یہ نافذ ہوتا۔ لیکن پچاس برس بھی نہ گزرے تھے کہ یہ سلطنت عباسیہ کا قانون بن گیا۔ اس کی وجہ صرف یہ تھی کہ اس کو ان لوگوں نے مرتب کیا تھا جن کے متعلق عام مسلمانوں کو یہ اعتماد تھا کہ وہ عالم بھی ہیں اور متقی ومحتاط بھی، وہ قرآن اور سُنّت کو ٹھیک ٹھیک سمجھتے اور جانتے ہیں، صحیح اِسلامی ذہن رکھتے ہیں، غیر اِسلامی افکار ونظریات سے متاثر نہیں ہیں اور اِسلامی قانون کی تدوین میں اپنے یا کسی کے ذاتی مفادات، رجحانات یا خواہشات کو ذرہ برابر دخل دینے والے نہیں ہیں۔ مسلمان ان پر پورا اطمینان رکھتے تھے کہ یہ تحقیق واجتہاد کے بعد شریعت کا جو حکم بھی بیان کریں گے، ان میں بشری غلطی تو ہو سکتی ہے، مگر بے ڈھب اور بے لگام اجتہاد یا اِسلام میں غیر اِسلام کی آمیزش کا ان سے کوئی خطرہ نہیں ہے۔ اس خالص اخلاقی طاقت کا یہ کرشمہ تھا کہ پہلے بلاد مشرق کے عام مسلمانوں نے آپ سے آپ اس کو اِسلام کا قانون مان لیا اور اپنے معاملات میں بطور خود اس کی پیروی شروع کر دی۔ پھر سلطنت عباسیہ کو اسے تسلیم کرکے ملک کا قانون قرار دینا پڑا۔ اس کے بعد وہی قانون اپنی اسی طاقت سے مغرب میں ترکی سلطنت کا اورمشرق میں ہندستان کی مسلم حکومت کا قانون بنا۔({ FR 7018 })
بعد کی بہت سی صدیوں میں یہ قانون اسی مقام پر کھڑا نہیں رہا۔ جہاں امام ابوحنیفہؒ نے اسے چھوڑا تھا، بلکہ ہر صدی میں اس کے اندر بہت سی ترمیمات بھی ہوئی ہیں اور بہت سے نئے مسائل کے فیصلے بھی اس میں ہوتے رہے ہیں، جیسا کہ کتب ظاہر الروا یۃ اور بعد کی کتب فتاوٰی کے تقابل سے معلوم ہو سکتا ہے لیکن یہ بعد کا سارا کام بھی حکومت کے ایوانوں سے باہر مدرسوں اور دارالافتائوں میں ہی ہوتا رہا، کیوں کہ مسلمان بادشاہوں اور ان کے مسلمان امرا وحکام کے علم و تقوٰی پر مسلمان عوام کوئی اعتماد نہ رکھتے تھے، انھیں صرف خدا ترس علما پر ہی اعتماد تھا اس لیے انھی کے فتوے اس قانون کے جز بنتے رہے اور انھی کے ہاتھوں اس کا ارتقا ہوتا رہا۔ ایک دو مثالوں کو چھوڑ کر اس پورے زمانے میں کسی بددماغ سے بددماغ بادشاہ کو بھی اپنے متعلق یہ غلط فہمی نہیں ہوئی کہ میں ایک قانون بنائوں گا اور مسلمان اسے شریعت مان لیں گے۔ اورنگ زیب جیسے پرہیز گار فرماں روا نے بھی وقت کے نامور علما ہی کو جمع کیا۔ جنھیں مسلمان دینی حیثیت سے بھروسے کے قابل سمجھتے تھے، اور ان کے ذریعے سے اس نے فقہا حنفیہ ہی کے فتاوٰی کا مجموعہ مرتب کرا کے اس کو قانون قرار دیا۔اس بحث سے تین باتیں بخوبی واضح ہو جاتی ہیں:
٭ ایک یہ کہ فقہ حنفی، جو انگریزوں کی آمد سے صدیوں پہلے سے مشرقی مسلمان مملکتوں کا قانون تھی اور جسے آ کر انگریز بھی اپنے پورے دور میں کم از کم پرسنل لا کی حد تک مسلمانوں کا قانون تسلیم کرتے رہے، دراصل مسلمانوں کی عام رضا اور پسند سے قانون قرار پائی تھی۔ اس کو کسی سیاسی طاقت نے نافذ (enforce) نہیں کیا تھا بلکہ ان ممالک کے جمہور مسلمین اسی کو اِسلامی قانون مان کر اس کی پیروی کرتے تھے اور حکومتوں نے اسے اس لیے قانون مانا کہ ان ملکوں کے عام مسلمان اس کے سوا کسی دوسری چیز کی پیروی قلب وضمیر کے اطمینان کے ساتھ نہ کر سکتے تھے۔
٭ دوسرے یہ کہ مسلمان جس طرح انگریزی دور میں اپنا دین اور اپنی شریعت انگریزوں اور دوسرے غیر مسلموں کے ہاتھ میں دینے کے لیے تیار نہ تھے، اسی طرح وہ بنی امیہ کے زمانے سے لے کر آج تک کبھی ایسے مسلمانوں کے ہاتھ میں بھی انھیں دینے کے لیے تیار نہیں رہے ہیں جن کے علم دین اور تقوٰی اور احتیاط پر ان کو اطمینان نہ ہو۔
٭ تیسرے یہ کہ اب حالات بالکل کیا معنی، بالجز بھی نہیں بدلے ہیں۔ انگریزوں کی جگہ بس مسلمانوں کا کرسی نشین ہو جانا بجائے خود اپنے اندر کوئی جوہری فرق نہیں رکھتا۔ خلافت راشدہ کے بعد جو خلا پیدا ہوا تھا، مسلمان حکومتوں کی حد تک وہ اب بھی جوں کا توں باقی ہے، اور وہ اس وقت تک باقی رہے گا جب تک ہمارا نظام تعلیم ایسے خدا ترس فقیہہ پیدا نہ کرنے لگے جن کے علم وتقوٰی پر مسلمان اعتماد کر سکیں، اور ہمارا نظام سیاست ایسا نہ بن جائے کہ اس طرح کے معتمد علیہ اصحاب ہی ملک میں قانون سازی کے منصب پر فائز ہونے لگیں۔ اگر اس ملک میں ہمیں قوم کے ضمیر اور قانون کے درمیان تضاد اور تصادم پیدا کرنا نہیں ہے تو جب تک یہ خلا واقعی صحیح طریقے سے بھر نہ جائے، اسے خام مواد سے بھرنے کی کوشش نہ کرنی چاہیے۔

شیئر کریں