دوسری اہم شہادت عہد نبوت سے قریب زمانے کے فقہائے امت کی ہے جو سب بالاتفاق اس قربانی کو مسنون اور مشروع کہتے ہیں اور کسی ایک فقیہ کا قول بھی اس کے خلاف نہیں ملتا۔ ان فقہا سے یہ بات بالکل بعید تھی کہ سب کے سب بلاتحقیق ایک فعل کو سنت مان بیٹھتے۔ اور وہ ایسے زمانے میں تھے جب یہ تحقیق کرنے کے تمام ذرائع موجود تھے کہ یہ کام جو مسلمان کر رہے ہیں آیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مقرر کردہ سنت ہی ہے یا کسی اور کی رائج کردہ بدعت۔
مثلاً: امام ابوحنیفہؒ کو دیکھیے۔ وہ ۸۰ھ میں پیدا ہوئے۔ ان کی پیدائش اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے درمیان صرف ۷۰ سال کا فاصلہ ہے۔ ان کے زمانے میں بعض طویل العمر صحابہ موجود تھے۔ اور ایسے لوگ تو ہزاروں کی تعداد میں جگہ جگہ پائے جاتے تھے جنھوں نے خلفائے راشدین کا زمانہ دیکھا تھا اور صحابۂ کرام کی صحبت پائی تھی۔ پھر کوفہ جو امام صاحب کا وطن تھا، کئی سال تک حضرت علی رضی اللہ عنہ کا دارالخلافہ رہ چکا تھا۔ امام صاحب کی پیدائش اور حضرت علیؓ کی شہادت کے درمیان صرف ۴۰ سال کا زمانہ گزرا تھا۔ اس شہر میں ان لوگوں کا شمار نہ کیا جاسکتا تھا جو خلیفۂ رابع کا عہد دیکھ چکے تھے۔ کیا کوئی شخص تصور کرسکتا ہے کہ امام ابوحنیفہؒ کو یہ تحقیق کرنے میں کوئی مشکل پیش آسکتی تھی کہ قربانی کا یہ طریقہ کب سے اور کیسے شروع ہوا ہے اور کس نے اسے جاری کیا ہے؟
اسی طرح امام مالکؒ کی مثال لیجیے۔ وہ ۹۳ھ میں مدینۂ طیبہ میں پیدا ہوئے اور وہیں ساری عمر گزاری۔ اس شہر میں سیکڑوں خاندان ایسے موجود تھے جن کے بڑے بوڑھوں اور بڑی بوڑھیوں نے خلافتِ راشدہ کا عہد دیکھا تھا، صحابہ کرامؓ کی گودوں میں پرورش پائی تھی، اور جن کے اپنے بزرگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے تربیت یافتہ تھے۔ کیا کوئی شخص باور کرسکتا ہے کہ اس شہر کے لوگ اتنی قلیل مدت میں عہد نبوی کی روایات گم کر چکے تھے اور وہاں کوئی یہ بتانے والا نہ تھا کہ عید الاضحیٰ کی یہ قربانی کس نے رائج کی ہے؟
یہی حال پہلی اور دوسری صدی ہجری کے تمام فقہا کا ہے۔ وہ سب عہد نبوت سے اتنے قریب زمانے میں تھے کہ ان کے لیے سنت اور بدعت کی تحقیق کرنا کوئی بڑا مشکل کام نہ تھا اور وہ آسانی کے ساتھ اس غلط فہمی میں مبتلا نہ ہوسکتے تھے کہ جو چیز سنت نہ ہو اسے سنت سمجھ بیٹھیں۔