Search
Close this search box.

فہرست موضوعات

اسلامی ریاست میں ذمیّوں کے حقوق
غیر مسلم رعایا کی اقسام:
معاہدین:
مفتوحین:
ذمّیوں کے عام حقوق
حفاظت جان
فوجداری قانون:
دیوانی قانون:
تحفظ عزت:
ذمّہ کی پائیداری:
شخصی معاملات:
مذہبی مراسم:
عبادت گاہیں:
جزیہ و خراج کی تحصیل میں رعایات:
تجارتی ٹیکس
فوجی خدمت سے استثناء:
فقہائِ اسلام کی حمایت
زائد حقوق جو غیر مسلموں کو دیے جا سکتے ہیں
نمائندگی اور رائے دہی:
تہذیبی خود اختیاری:
آزادیٔ تحریر و تقریر وغیرہ
تعلیم:
ملازمتیں
معاشی کاروبار اور پیشے:
غیر مسلموں کے لیے تحفظ کی واحد صورت:
ضمیمۂ اوّل
ضمیمۂ دوم
حقوق شہریت

اسلامی ریاست میں ذِمّیوں کے حقوق

اس ویب سائٹ پر آپ کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ اب آپ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی رحمتہ اللہ علیہ کی کتابوں کو ’’پی ڈی ایف ‘‘ کے ساتھ ساتھ ’’یونی کوڈ ورژن‘‘ میں بھی پڑھ سکتے ہیں۔کتابوں کی دستیابی کے حوالے سے ہم ’’اسلامک پبلی کیشنز(پرائیوٹ) لمیٹڈ، لاہور‘‘، کے شکر گزار ہیں کہ اُنھوں نے اس کارِ خیر تک رسائی دی۔ اس صفحے پر آپ متعلقہ کتاب PDF اور Unicode میں ملاحظہ کیجیے۔

فقہائِ اسلام کی حمایت

یہ ہیں اس قانون کی تفصیلات جو صدرِ اوّل میں غیر مسلم رعایا کے حقوق وفرائض سے متعلق بنایا گیا تھا۔ اب آگے بڑھنے سے پہلے ہم یہ بھی بتا دینا چاہتے ہیں کہ خلفاء راشدین کے بعد بادشاہی دَور میں جب کبھی ذمّیوں کے ساتھ بے انصافی کی گئی تو وہ فقہائِ اسلام ہی کا گروہ تھا جو آگے بڑھ کر ان کی حمایت کے لیے کھڑا ہو گیا اور متفق ہو کر ان کا پشت پناہ بنا۔ تاریخ کا مشہور واقعہ ہے کہ ولید بن عبدالملک اُمَوِی نے دمشق کے کینسۂ یوحّنا کو زبردستی عیسائیوں سے چھین کر کر مسجد میں شامل کر لیا تھا۔ جب حضرت عمربن عبدالعزیز تختِ خلافت پر متمکن ہوئے اور عیسائیوں نے ان سے اس ظلم کی شکایت کی تو انہوں نے اپنے عامل کو لکھا کہ مسجد کا جتنا حصہ گرجا کی زمین پر تعمیر کیا گیا ہے اسے منہدم کرکے عیسائیوں کے حوالہ کر دو۔‘‘ (فتوح البلدان مطبوعہ یورپ ص ۱۳۲)
ولید بن یزید نے رومی حملہ کے خوف سے قبرص کے ذمّی باشندوں کو جلا وطن کرکے شام آباد کیا۔ فقہائے اسلام اور عام مسلمان اس پر سخت ناراض ہوئے اور انہوں نے اس کو گناہِ عظیم سمجھا۔ پھر جب یزید بن ولید نے انہیں دوبارہ قبرص میں لے جا کر آباد کر دیا تو اس کو عام طور پر تحسین کی گئی اور کہا گیا کہ یہی انصاف کا تقاضہ ہے۔ اسماعیل بن عیاش کا بیان ہے کہ:۔
فاستفظع ذالک المسلمون واستعظمہ الفقہاء فلما ولی یزید بن ولید بن عبدالملک ردھم الی قبرص ناستحسن المسلمون ذالک من فعلہ وراؤہ عدلاً (فتوح البلدان ص ۱۵۶)
’’مسلمانوں نے اس کی اس حرکت سے بیزاری ظاہر کی اور فقہاء نے اس کو گناہ سمجھا۔ پھر جب یزید بن ولید خلیفہ ہوا اور اس نے ان کو قبرص کی طرف پھر لوٹا دیا تو مسلمانوں نے اس کو پسند کیا اور اسے عدل وانصاف سمجھا۔‘‘
بَلاذُری کا بیان ہے کہ ایک مرتبہ جبل لُبنٰان کے باشندوں میں سے ایک گروہ نے بغاوت کر دی۔ اس پر صالح بن علی بن عبداللہ نے ان کی سرکوبی کے لیے ایک فوج بھیجی اور اس نے ان کے ہتھیار اٹھانے والے مردوں کو قتل کر دیا اور باقی لوگوں میں سے ایک جماعت کو جلا وطن کر دیا اور ایک جماعت کو وہیں آباد رہنے دیا۔ امام اوزاعیؒ اس زمانے میں زندہ تھے۔ انہوں نے صالح کو اس ظلم پر سخت تنبیہہ کی اور ایک طویل خط لکھا جس کے چند فقرے یہ ہیں:۔
’’جبل لبنان کے اہل ذمّہ کی جلا وطنی کا حال تم کو معلوم ہے۔ ان میں بعض ایسے لوگ بھی تھے جنہوں نے بغاوت کرنے والوں کے ساتھ کوئی حصہ نہیں لیا تھا۔ مگر باوجود اس کے تم نے کچھ کو قتل کیا اور کچھ لوگوں کو ان کی بستیوں کی طرف واپس بھیج دیا۔ میں نہیں سمجھ سکتا کہ عام لوگوں کو بعض خاص لوگوں کے جرم کی سزا کیونکر دی جا سکتی ہے اور کس بِنا پر ان کے گھروں اوران کی جائیدادوں سے انہیں بے دخل کیا جا سکتا ہے‘ حالانکہ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے لا تزرو ازرۃ وزراخریٰ۔ اور یہ ایک واجب التعمیل حکم ہے۔ تمہارے لیے بہترین نصیحت یہ ہے کہ تم رسول اللہ کے اس ارشاد کو یاد رکھو کہ ’’جو کوئی کسی معاہد پر ظلم کرے گا اور اس کی طاقت سے زیادہ اس پر بار ڈالے گا اس کے خلاف میں خود مدعی بنوں گا۔‘‘ (فتوح البلدان ص ۱۶۹)
یہ اور ایسی ہی بے شمار مثالیں تاریخ میں ملتی ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ علماء اسلام نے ہمیشہ اہل ذمّہ کے حقوق کی حمایت کی ہے اور اگر کبھی کسی امیر یا بادشاہ نے ان پر جبر و ظلم کیا بھی ہے تو جو لوگ اس عہد میں اسلامی قانون کے پاسبان رہے ہیں وہ کبھی اس پر ملامت کرنے سے باز نہیں رہے۔

شیئر کریں