Search
Close this search box.

فہرست موضوعات

عرضِ ناشر
جدید ایڈیشن
مقدمہ
۱ اِلٰہ: لغوی تحقیق
اہلِ جاہلیت کا تصورِ اِلٰہ
اُلوہیّت کے باب میں ملاک اَمر
قرآن کا استدلال
۲ رَبّ: لغوی تحقیق
قرآن میں لفظ ’’رَبّ‘‘ کے استعمالات
ربُوبیّت کے باب میں گم راہ قوموں کے تخیلات
قومِ نوحؑ
قومِ عاد
قومِ ثمود
قومِ ابراہیم ؑونمرود
قومِ لُوطؑ
قومِ شعیبؑ
فرعون اور آلِ فرعون
یہود ونصارٰی
مشرکینِ عرب
قرآن کی دعوت
۳ عبادت: لغوی تحقیق
لفظِ عباد ت کا استعمال قرآن میں
عبادت بمعنی اطاعت
عبادت بمعنی پرستش
مثالیں
عبادت بمعنی بندگی واطاعت وپرستش
۴ دین: لغوی تحقیق
قرآن میں لفظِ ’’دین‘‘ کا استعمال
دین بمعنی اوّل ودُوُم
دین بمعنی سوم
دین بمعنی چہارم
دین ایک جامع اصطلاح

قرآن کی چار بنیادی اصطلاحیں

اُمت مسلمہ کے زوال کے اسباب پر اگرغور کیا جائے تو اس میں سر فہرست یہ سبب نظر آئے گا کہ اس نے قرانی تعلیمات کو فراموش کر دیا اور اس کی انقلابی دعوت سے نا آشنا ہوگئی۔ آج اگر ہم قرآن مجید کو پڑھتے ہیں تو اس کے معانی ومفہوم سے بے خبر اور محض رسماً۔ یہی وجہ ہے کہ اپنے دکھوں کا علاج اور ترقی کا زینہ دنیا بھر کے افکار ونظریات میں تلاش کرتے ہیں لیکن خود نسخہ شفا سے استفادہ نہیں کرتے یا استفادے کی اہلیت نہیں رکھتے جواللہ تعالیٰ نے ہمارے لیے نازل کیا ہے۔ مولانا سید ابوالاعلی مودودی ؒنے اس کتاب کو لکھ کر قرآن کی اس ہی انقلابی دعوت کو واضح کیا ہے۔ جس نے اونٹوں کی نکیل پکڑنے والوں کو دنیا کا امام بنا دیا تھا اور اس کے ذریعے سے فہم قرآن کی راہ کو آسان بنایا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے مولانا موصوف کو علوم قرانی میں جوگہری بصیرت عطا فرمائی ہے۔ یہ کتاب اس کی پوری طرح آئنہ دارہے۔

فرعون اور آلِ فرعون

اب ہمیں فرعون اور اس کی قوم کو دیکھنا چاہیے جس کے باب میں نمرود اور اس کی قوم سے بھی زیادہ غلط فہمیاں پائی جاتی ہیں۔ عام خیال یہ ہے کہ فرعون نہ صرف خدا کی ہستی کا منکر تھا بلکہ خود خدا ہونے کا مدعی تھا۔ یعنی اس کا دماغ اتنا خراب ہو گیا تھا کہ دنیا کے سامنے کھلم کھلا یہ دعوٰی کرتا تھا کہ میں خالقِ ارض وسما ہوں، اور اس کی قوم اتنی پاگل تھی کہ اس کے دعوے پر ایمان لاتی تھی۔ حالانکہ قرآن اور تاریخ کی شہادت سے اصل حقیقت یہ معلوم ہوتی ہے کہ الوہیّت وربوبیت کے باب میں اس کی گم راہی نمرود کی گم راہی سے اور اس کی قوم کی گم راہی قومِ نمرود کی گم راہی سے کچھ زیادہ مختلف نہ تھی۔ فرق جو کچھ تھا وہ صرف اس بِناپر تھا کہ یہاں سیاسی اسباب سے بنی اسرائیل کے ساتھ ایک قوم پرستانہ ضد اور متعصبانہ ہٹ دھرمی پیدا ہو گئی تھی، اس لیے محض عناد کی بِنا پر اللہ کو الٰہ اور رب ماننے سے انکار کیا جاتا تھا اگرچہ دلو ں میں اس کا اعتراف چھپا ہوا تھا۔ جیسا کہ آج کل بھی اکثر دہریوں کا حال ہے۔
اصل واقعات یہ ہیں کہ حضرت یوسفؑ کو جب مصر میں اقتدار حاصل ہوا تو انھوں اپنی پوری قوت اسلام کی تعلیم پھیلانے میں صرف کر دی۔ اور سرزمینِ مصر پر اتنا گہرا نقش مرتسم کیا کہ صدیوں تک کسی کے مٹائے نہ مٹ سکا۔ اُس وقت چاہے تمام اہل مصر نے دین حق قبول نہ کر لیا ہو۔ مگر یہ ناممکن تھا کہ مصر میں کوئی شخص اللہ سے ناواقف رہ گیا ہو اور یہ نہ جان گیا ہو کہ وہی خالقِ ارض وسما ہے۔ یہی نہیں بلکہ ان کی تعلیمات کا کم از کم اتنا اثر ہر مصری پر ضرور ہو گیا تھا کہ وہ فوق الفطری معنوں میں اللہ کو اِلٰہ الاٰلِھَہ اور رب الارباب تسلیم کرتا تھا اور کوئی مصری اللہ کی الوہیّت کا منکر نہ رہا تھا۔ البتہ جو ان میں کفر پر قائم رہ گئے تھے وہ الوہیت وربوبیت میں اللہ کے ساتھ دوسروں کو شریک ٹھہراتے تھے۔ یہ اثرات حضرت موسیٰ ؑ کی بعثت کے وقت تک باقی تھے۔{ FR 7436 } چنانچہ اس کا صریح ثبوت وہ تقریر ہے جو فرعون کے دربار میں ایک قبطی سردار نے کی تھی۔ جب فرعون نے حضرت موسیٰ کے قتل کا ارادہ ظاہر کیا تواس کے دربار کا یہ امیر جو مسلمان ہو چکا تھا مگر اپنا اسلام چھپائے تھا، بے قرار ہو کر بول اٹھا:
اَتَقْتُلُوْنَ رَجُلًا اَنْ يَّقُوْلَ رَبِّيَ اللہُ وَقَدْ جَاۗءَكُمْ بِالْبَيِّنٰتِ مِنْ رَّبِّكُمْ۝۰ۭ وَاِنْ يَّكُ كَاذِبًا فَعَلَيْہِ كَذِبُہٗ۝۰ۚ وَاِنْ يَّكُ صَادِقًا يُّصِبْكُمْ بَعْضُ الَّذِيْ يَعِدُكُمْ۝۰ۭ اِنَّ اللہَ لَا يَہْدِيْ مَنْ ہُوَمُسْرِفٌ كَذَّابٌo يٰقَوْمِ لَكُمُ الْمُلْكُ الْيَوْمَ ظٰہِرِيْنَ فِي الْاَرْضِ۝۰ۡفَمَنْ يَّنْصُرُنَا مِنْۢ بَاْسِ اللہِ اِنْ جَاۗءَنَا۝۰ۭ …… يٰقَوْمِ اِنِّىْٓ اَخَافُ عَلَيْكُمْ مِّثْلَ يَوْمِ الْاَحْزَابِo مِثْلَ دَاْبِ قَوْمِ نُوْحٍ وَّعَادٍ وَّثَمُوْدَ وَالَّذِيْنَ مِنْۢ بَعْدِہِمْ۝۰ۭ …… وَلَقَدْ جَاۗءَكُمْ يُوْسُفُ مِنْ قَبْلُ بِالْبَيِّنٰتِ فَمَازِلْتُمْ فِيْ شَكٍّ مِّمَّا جَاۗءَكُمْ بِہٖ۝۰ۭ حَتّٰٓي اِذَا ہَلَكَ قُلْتُمْ لَنْ يَّبْعَثَ اللہُ مِنْۢ بَعْدِہٖ رَسُوْلًا۝۰ۭ…… وَيٰقَوْمِ مَا لِيْٓ اَدْعُوْكُمْ اِلَى النَّجٰوۃِ وَتَدْعُوْنَنِيْٓ اِلَى النَّارِo تَدْعُوْنَنِيْ لِاَكْفُرَ بِاللہِ وَاُشْرِكَ بِہٖ مَا لَيْسَ لِيْ بِہٖ عِلْمٌ۝۰ۡوَّاَنَا اَدْعُوْكُمْ اِلَى الْعَزِيْزِ الْغَفَّارِo
(المومن۴۰: ۲۸ تا ۳۱۔۳۴،۴۱ تا۴۲)
کیا تم ایک شخص کو اس لیے قتل کرتے ہو کہ وہ کہتا ہے کہ میرا رب اللہ ہے۔ حالانکہ وہ تمھارے رب کی طرف سے تمھارے سامنے کھلی کھلی نشانیاں لایا ہے۔ اگر وہ جھوٹا ہے تو اس کے جھوٹ کا وبال اس پر ضرور پڑے گا۔ لیکن اگر وہ سچا ہے تو جس انجام سے وہ تمھیں ڈرا رہا ہے اس میں سے کچھ نہ کچھ تو تم پر نازل ہو کے رہے گا۔ یقین جانو کہ اللہ کسی حد سے بڑھے ہوئے جھوٹے آدمی کو فلاح کا راستہ نہیں دکھاتا۔ اے برادرانِ قوم! آج تمھارے ہاتھ میں حکومت ہے، زمین میں تم غالب ہو، مگر کل اللہ کا عذاب ہم پر آ جائے تو کون ہماری مدد کرے گا؟… اے برادران قوم! میں ڈرتا ہوں کہ کہیں تم پر وہ دن نہ آ جائے جو بڑی بڑی قوموں پر آ چکا ہے، اور وہی انجام تمھارا نہ ہو، جو قومِ نوح اور عاد اور ثمود اور بعد کی قوموں کا ہوا… اس سے پہلے یوسف (علیہ السلام) تمھارے پاس روشن نشانیاں لے کر آئے تو تم اس چیز کے متعلق شک میں پڑے رہے جسے وہ لائے تھے۔ پھر جب ان کا انتقال ہو گیا تو تم نے کہا کہ اللہ ان کے بعد کوئی رسول نہ بھیجے گا… اور اے برادران قوم! یہ عجیب معاملہ ہے کہ مَیں تمھیں نجات کی طرف بلاتا ہوں اور تم مجھے آگ کی طرف دعوت دیتے ہو۔ تم مجھے اس طرف بلاتے ہو کہ میں اللہ کے ساتھ کفر کروں اور اس کے ساتھ انھیں شریک ٹھہرائوں جن کے شریک ہونے پر میرے پاس کوئی علمی ثبوت نہیں ہے، اور میں تمھیں اس کی طرف بلاتا ہوں جو سب سے زبردست ہے اور بخشنے والا ہے۔
یہ پوری تقریر اس بات پر شاہد ہے کہ حضرت یوسف علیہ السلام کی عظیم الشان شخصیت کا اثر کئی صدیاں گزر جانے کے بعد بھی اس وقت تک باقی تھا اور اس جلیل القدر نبی کی تعلیم سے متاثر ہونے کے باعث یہ قوم جہالت کے اس مرتبے پر نہ تھی کہ اللہ کی ہستی سے بالکل ہی ناواقف ہوتی یا یہ نہ جانتی کہ اللہ رب اور الٰہ ہے اور قوائے فطرت پر اس کا غلبہ وقہر قائم ہے اور اس کا غضب کوئی ڈرنے کی چیز ہے۔ اس کے آخری فقرے سے یہ بھی صاف معلوم ہوتا ہے کہ یہ قوم اللہ کی الوہیّت اور ربوبیت کی قطعی منکر نہ تھی بلکہ ان کی گم راہی وہی تھی جو دوسری قوموں کی بیان ہو چکی ہے۔ یعنی ان دونوں حیثیتوں میں اللہ کے ساتھ دوسروں کو شریک ٹھہرانا۔
شبہ جس وجہ سے واقع ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ فرعون حضرت موسیٰ ؑ کی زبان سے اِنَّا رَسُوْلُ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ (ہم ربّ العٰلمین کے رسول ہیں) سن کر پوچھتا ہے: وَمَا رَبُّ الْعٰلَمِیْنَ (ربّ العٰلمین کیا چیز ہے؟) اپنے وزیر ہامان سے کہتا ہے کہ میرے لیے ایک اونچی عمارت بنا کہ میں موسیٰ کے الٰہ کو دیکھوں۔ حضرت موسیٰ ؑ کو دھمکی دیتا ہے کہ میرے سوا کسی اور کو تم نے الٰہ بنایا تو میں تمھیں قید کر دوں گا۔ ملک بھر میں اعلان کرتا ہے کہ میں تمھارا رب اعلیٰ ہوں۔ اپنے درباریوں سے کہتا ہے کہ میں اپنے سوا تمھارے کسی الٰہ کو نہیں جانتا۔ اس قسم کے فقرات دیکھ کر لوگوں کو گمان ہوا ہے کہ شاید وہ اللہ کی ہستی ہی کا منکر تھا، رب العالمین کے تصور سے بالکل خالی الذہن تھا اور اپنے آپ ہی کو واحد معبود سمجھتا تھا۔ مگر اصل واقعہ یہ ہے کہ اس کی یہ تمام باتیں قوم پرستانہ ضد کی وجہ سے تھیں۔ حضرت یوسفؑ کے زمانہ میں صرف یہی نہیں ہوا تھا کہ آں جناب کی زبردست شخصیت کے اثر سے اسلام کی تعلیمات مصر میں پھیل گئی تھیں، بلکہ حکومت میں جو اقتدار انھیں حاصل ہوا تھا ان کی بدولت بنی اسرائیل مصر میں بہت بااثر ہو گئے تھے۔ تین چار سو سال تک یہ اسرائیلی اقتدار مصر پر چھایا رہا۔ پھر وہاں اسرائیلیوں کے خلاف قوم پرستانہ جذبات پیدا ہونا شروع ہوئے۔ یہاں تک کہ ان کے اقتدار کو الٹ پھینکا گیا اور ایک مصری قوم پرست خاندان فرماں روا ہو گیا۔ ان نئے فرماں روائوں نے محض اسرائیلیوں کو دبانے اور کچلنے ہی پر اکتفا نہ کیا بلکہ دَورِ یوسفی کے ایک ایک اثر کو مٹانے اور اپنے قدیم جاہلی مذہب کی روایات کو تازہ کرنے کی کوشش کی۔ اس حالت میں جب حضرت موسیٰ ؑ تشریف لائے تو ان لوگوں کو خطرہ ہوا کہ کہیں اقتدار پھر ہمارے ہاتھ سے نکل کر اسرائیلیوں کے ہاتھ میں نہ چلا جائے۔ یہی عناد اور ہٹ دھرمی کا جذبہ تھا جس کی بنا پر فرعون چندرا چندرا کر حضرت موسیٰ ؑ سے پوچھتا تھا کہ رب العٰلمین کیا ہوتا ہے؟ میرے سوا اور الٰہ کون ہو سکتا ہے؟ دراصل وہ رب العٰلمین سے بے خبرنہ تھا۔ اس کی اور اس کے اہل دربار کی گفتگوئیں اور حضرت موسیٰؑ کی جو تقریریں قرآن میں آئی ہیں، ان سب سے یہ حقیقت بیّن طور پر ثابت ہوتی ہے۔ مثلاً ایک موقع پر فرعون اپنی قوم کو یہ یقین دلانے کے لیے کہ موسیٰ ؑ خدا کے پیغمبر نہیں ہیں، کہتا ہے:
فَلَوْلَآ اُلْقِيَ عَلَيْہِ اَسْوِرَۃٌ مِّنْ ذَہَبٍ اَوْ جَاۗءَ مَعَہُ الْمَلٰۗىِٕكَۃُ مُقْتَرِنِيْنَo
(الزخرف۴۳:۵۳)
تو کیوں نہ اس کے لیے سونے کے کنگن اتارے گئے؟ یا فرشتے صف بستہ ہو کر اس کے ساتھ کیوں نہ آئے؟
کیا یہ بات ایک ایسا شخص کہہ سکتا تھا جو اللہ اور ملائکہ کے تصور سے خالی الذہن ہوتا؟ ایک اور موقع پر فرعون اور حضرت موسیٰ کے درمیان یہ گفتگو ہوتی ہے:
……فَقَالَ لَہٗ فِرْعَوْنُ اِنِّىْ لَاَظُنُّكَ يٰمُوْسٰي مَسْحُوْرًاo قَالَ لَقَدْ عَلِمْتَ مَآ اَنْزَلَ ہٰٓؤُلَاۗءِ اِلَّا رَبُّ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ بَصَاۗىِٕرَ۝۰ۚ وَاِنِّىْ لَاَظُنُّكَ يٰفِرْعَوْنُ مَثْبُوْرًاo
(بنی اسرائیل۱۷:۱۰۱۔۱۰۲)
پس فرعون نے اس سے کہا کہ اے موسیٰ میں تو سمجھتا ہوں کہ تیری عقل خبط ہو گئی ہے۔ موسیٰ نے جواب دیا: تو خوب جانتا ہے کہ یہ بصیرت افروز نشانیاں ربِ زمین وآسمان کے سوا کسی اور کی نازل کی ہوئی نہیں ہیں۔ مگر میرا خیال ہے کہ اے فرعون تیری شامت ہی آ گئی ہے۔
ایک اورمقام پر اللہ تعالیٰ فرعونیوں کی قلبی حالت اس طرح بیان فرماتا ہے:
فَلَمَّا جَاۗءَتْہُمْ اٰيٰتُنَا مُبْصِرَۃً قَالُوْا ھٰذَا سِحْرٌ مُّبِيْنٌo وَجَحَدُوْا بِہَا وَاسْتَيْقَنَتْہَآ اَنْفُسُہُمْ ظُلْمًا وَّعُلُوًّا۝۰ۭ (النمل۲۷: ۱۳۔۱۴)
جب ہماری نشانیاں ان کے سامنے علانیہ نمایاں ہو گئیں تو انھوں نے کہا یہ صریح جادو ہے۔ ان کے دل اندر سے قائل ہو چکے تھے مگر انھوں نے محض شرارت اور تکبر وسرکشی کی بِنا پر ماننے سے انکار کیا۔
ایک اور مجلس کا نقشہ قرآن یوں کھینچتا ہے:
قَالَ لَہُمْ مُّوْسٰى وَيْلَكُمْ لَا تَفْتَرُوْا عَلَي اللہِ كَذِبًا فَيُسْحِتَكُمْ بِعَذَابٍ۝۰ۚ وَقَدْ خَابَ مَنِ افْتَرٰىo فَتَنَازَعُوْٓا اَمْرَہُمْ بَيْنَہُمْ وَاَسَرُّوا النَّجْوٰىo قَالُوْٓا اِنْ ھٰذٰىنِ لَسٰحِرٰنِ يُرِيْدٰنِ اَنْ يُّخْرِجٰكُمْ مِّنْ اَرْضِكُمْ بِسِحْرِہِمَا وَيَذْہَبَا بِطَرِيْقَتِكُمُ الْمُثْلٰىo (طٰہٰ۲۰: ۶۱۔۶۳)
موسیٰ ؑ نے ان سے کہا تم پر افسوس ہے۔ اللہ پر جھوٹ افترانہ باندھو ورنہ وہ سخت عذاب سے تمھیں تباہ کر دے گا۔ اور افتراجس نے بھی باندھا ہے وہ نامراد ہو کر ہی رہا ہے۔ یہ سن کر لوگ آپس میں ردوکد کرنے لگے اور خفیہ مشورہ ہوا جس میں کہنے والوں نے کہا: یہ دونوں (موسیٰ وہارون) تو جادوگر ہیں۔ چاہتے ہیں کہ اپنے جادو کے زور سے تمھیں تمھاری سرزمین سے بے دخل کر دیں اور تمھارے مثالی (آئیڈل) طریقِ زندگی کو مٹا دیں۔
ظاہر ہے کہ اللہ کے عذاب سے ڈرانے اور افتراکے انجام سے خبردار کرنے پر ان کے درمیان ردّوکد اسی لیے شروع ہو گئی تھی کہ ان لوگوں کے دلوں میں کہیں تھوڑا بہت اثر خدا کی عظمت اور اس کے خوف کا موجود تھا۔ لیکن جب ان کے قوم پرست حکم ران طبقہ نے سیاسی انقلاب کا خطرہ پیش کیا، اور کہا کہ موسیٰؑ اور ہارونؑ کی بات ماننے کا انجام یہ ہو گا کہ مصریت پھر اسرائیلیّت سے مغلوب ہو جائے گی تو ان کے دل پھر سخت ہو گئے اور سب نے بالاتفاق رسولوں کا مقابلہ کرنے کی ٹھان لی۔
اس حقیقت کے واضح ہو جانے کے بعد ہم بآسانی یہ تحقیق کر سکتے ہیں کہ حضرت موسیٰ اور فرعون کے درمیان اصل جھگڑا کس بات پر تھا، فرعون اور اس کی قوم کی حقیقی گم راہی کس نوعیت کی تھی، اور فرعون کس معنی میں الوہیت وربوبیت کا مدعی تھا۔ اس غرض کے لیے قرآن کی حسب ذیل آیات ترتیب وار ملاحظہ کیجیے۔
۱۔ فرعون کے درباریوں میں سے جو لوگ حضرت موسیٰ ؑ کی دعوت کا استیصال کرنے پر زور دیتے تھے وہ ایک موقع پر فرعون کو خطاب کرکے کہتے ہیں:
اَتَذَرُ مُوْسٰي وَقَوْمَہٗ لِيُفْسِدُوْا فِي الْاَرْضِ وَيَذَرَكَ وَاٰلِہَتَكَ۝۰ۭ(الاعراف۷: ۱۲۷)
کیا آپ موسیٰ اور اس کی قوم کو چھوڑ دیں گے کہ وہ ملک میں فساد پھیلائے اور آپ اور آپ کے الٰہوں کو چھوڑ دے۔
دوسری طرف انھی درباریوں میں سے جو شخص حضرت موسیٰ ؑ پر ایمان لے آیا تھا وہ ان لوگوں کو خطاب کرکے کہتا ہے:
تَدْعُوْنَنِيْ لِاَكْفُرَ بِاللہِ وَاُشْرِكَ بِہٖ مَا لَيْسَ لِيْ بِہٖ عِلْمٌ۝۰ۡ (المومن۴۰:۴۲)
تم مجھے اس طرف بلاتے ہو کہ مَیں اللہ سے کفر کروں اور اس کے ساتھ انھیں شریک کروں جن کے شریک ہونے کے لیے میرے پاس کوئی علمی ثبوت نہیں۔
ان دونوں آیتوں کو جب ہم ان معلومات کے ساتھ ملا کر دیکھتے ہیں جو تاریخ وآثارِ قدیمہ کے ذریعہ سے ہمیں اس زمانہ کے اہلِ مصر کے متعلق حاصل ہوئی ہیں تو صاف معلوم ہو جاتا ہے کہ فرعون خود بھی اور اس کی قوم کے لوگ بھی ربوبیت کے پہلے اور دوسرے معنی کے اعتبار سے بعض دیوتائوں کو خدائی میں شریک ٹھہراتے تھے اور ان کی عبادت کرتے تھے۔ ظاہر ہے کہ اگر فرعون فوق الفطری معنوں میں خدا ہونے کا مدعی ہوتا، یعنی اگر اس کا دعوٰی یہی ہوتا کہ سلسلۂ اسباب پر وہ خود حکم ران ہے اور اس کے سوا زمین وآسمان کا الٰہ ورب کوئی نہیں ہے، تو وہ دوسرے الٰہوں کی پرستش نہ کرتا۔{ FR 7437 }
۲۔ فرعون کے یہ الفاظ جو قرآن میں نقل کیے گئے ہیں کہ:
يٰٓاَيُّہَا الْمَلَاُ مَا عَلِمْتُ لَكُمْ مِّنْ اِلٰہٍ غَيْرِيْ۝۰ۚ (القصص۲۸: ۳۸)
لوگو! مَیں تو اپنے سوا کسی الٰہ کو جانتا نہیں ہوں۔
لَىِٕنِ اتَّخَذْتَ اِلٰــہًا غَيْرِيْ لَاَجْعَلَنَّكَ مِنَ الْمَسْجُوْنِيْنَo (الشعرائ۲۶: ۲۹)
اے موسیٰ! اگر میرے سوا تو نے کسی کو الٰہ بنایا تو میں تجھے قیدیوں میں شامل کر دوں گا۔
ان الفاظ کا مطلب یہ نہیں ہے کہ فرعون اپنے سوا دوسرے تمام الٰہوں کی نفی کرتا تھا، بلکہ اس کی اصل غرض حضرت موسیٰ کی دعوت کو رد کرنا تھا۔ چوں کہ حضرت موسیٰ ؑ ایک ایسے الٰہ کی طرف بلا رہے تھے جو صرف فوق الفطری معنی ہی میں معبود نہیں ہے بلکہ سیاسی وتمدنی معنی میں امر ونہی کا مالک اور اقتدارِ اعلیٰ کا حامل بھی ہے، اس لیے اس نے اپنی قوم سے کہا کہ تمھارا ایسا الٰہ تو میرے سوا کوئی نہیں ہے، اور حضرت موسیٰ ؑ کو دھمکی دی کہ اس معنی میں میرے سوا کسی کو الٰہ بنائو گے تو جیل کی ہوا کھائو گے۔
نیز قرآن کی ان آیات سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے، اور تاریخ وآثارِ قدیمہ سے اس کی تصدیق ہوتی ہے کہ فراعنۂـ مصر محض حاکمیت مطلقہ (Absolute Sovereignty) ہی کے مدعی نہ تھے بلکہ دیوتائوں سے اپنا رشتہ جوڑ کر ایک طرح کی قدوسیت کا بھی دعوٰی رکھتے تھے تاکہ رعایا کے قلب وروح پر ان کی گرفت خوب مضبوط ہو جائے۔ اس معاملہ میں تنہا فراعنہ ہی منفرد نہیں ہیں، دنیا کے اکثر ملکوں میں شاہی خاندانوں نے سیاسی حاکمیت کے علاوہ فوق الفطری الوہیّت وربوبیّت میں بھی کم وبیش حصہ بٹانے کی کوشش کی ہے اور رعیّت کے لیے لازم کیا ہے کہ وہ ان کے آگے عبودیّت کے کچھ نہ کچھ مراسم ادا کرے۔ لیکن دراصل یہ محض ایک ضمنی چیز ہے۔ اصل مقصد سیاسی حاکمیت کا استحکام ہوتا ہے اور اس کے لیے فوق الفطری الوہیّت کا دعویٰ محض ایک تدبیر کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ اسی لیے مصر میں اور دوسرے جاہلیت پرست ملکوں میں بھی ہمیشہ سیاسی زوال کے ساتھ ہی شاہی خاندانوں کی الوہیّت بھی ختم ہوتی رہی ہے۔ اور تخت جس جس کے پاس گیا ہے الوہیّت بھی اسی کی طرف منتقل ہوتی چلی گئی ہے۔
۳۔ فرعون کا اصلی دعوٰی فوق الفطری خدائی کا نہیں بلکہ سیاسی خدائی کا تھا۔ وہ ربوبیّت کے تیسرے چوتھے اور پانچویں معنی کے لحاظ سے کہتا تھا کہ مَیں سر زمینِ مصر اور اس کے باشندوں کا ربِّ اعلیٰ (Over-Lord) ہوں۔ اس ملک اور اس کے تمام وسائل وذرائع کا مالک میں ہوں۔ یہاں کی حاکمیتِ مطلقہ کا حق مجھی کو پہنچتا ہے یہاں کے تمدّن واجتماع کی اساس میری ہی مرکزی شخصیت ہے۔ یہاں قانون میرے سوا کسی اور کا نہ چلے گا۔ قرآن کے الفاظ میں اس کے دعویٰ کی بنیاد یہ تھی:
وَنَادٰى فِرْعَوْنُ فِيْ قَوْمِہٖ قَالَ يٰقَوْمِ اَلَيْسَ لِيْ مُلْكُ مِصْرَ وَہٰذِہِ الْاَنْہٰرُ تَجْرِيْ مِنْ تَحْتِيْ۝۰ۚ اَفَلَا تُبْصِرُوْنَo (الزخرف۴۳: ۵۱)
اور فرعون نے اپنی قوم میں منادی کی کہ اے قوم! کیا میں ملک مصر کا مالک نہیں ہوں؟ اور یہ نہریں میرے ماتحت نہیں چل رہی ہیں؟ کیا تم دیکھتے نہیں ہو؟
یہ وہی بنیاد تھی جس پر نمرود کا دعوائے ربوبیت مبنی تھا( حَاۗجَّ اِبْرٰھٖمَ فِيْ رَبِّہٖٓ اَنْ اٰتٰىہُ اللہُ الْمُلْكَ۝۰ۘ البقرہ۲: ۲۵۸ )اور اسی بنیاد پر حضرت یوسفؑ کا ہم عصر بادشاہ بھی اپنے اہلِ ملک کا رب بنا ہوا تھا۔
۴۔ حضرت موسیٰ کی دعوت جس پر فرعون اور آلِ فرعون سے ان کا جھگڑا تھا، دراصل یہ تھی کہ رب العٰلمین کے سوا کسی معنی میں بھی کوئی دوسرا الٰہ اور رب نہیں ہے۔ وہی تنہا فوق الفطری معنی میں بھی الٰہ اور رب ہے، اور سیاسی واجتماعی معنی میں بھی۔ پرستش بھی اسی کی ہو، بندگی واطاعت بھی اسی کی ، اور پیروی قانون بھی اسی کی۔ نیز یہ کہ صریح نشانیوں کے ساتھ اس نے مجھے اپنا نمایندہ مقرر کیا ہے، میرے ذریعہ سے وہ اپنے امر ونہی کے احکام دے گا، لہٰذا اس کے بندوں کی عنانِ اقتدار تمھارے ہاتھ میں نہیں، میرے ہاتھ میں ہونی چاہیے۔ اسی بنا پر فرعون اور اس کے اعیانِ حکومت بار بار کہتے تھے کہ یہ دونوں بھائی ہمیں زمین سے بے دخل کرکے خود قابض ہونا چاہتے ہیں اور ہمارے ملک کے نظامِ مذہب وتمدن کو مٹا کر اپنا نظام قائم کرنے کے درپے ہیں۔
وَلَقَدْ اَرْسَلْنَا مُوْسٰى بِاٰيٰتِنَا وَسُلْطٰنٍ مُّبِيْنٍo اِلٰي فِرْعَوْنَ وَمَلَا۟ىِٕہٖ فَاتَّبَعُوْٓا اَمْرَ فِرْعَوْنَ۝۰ۚ وَمَآ اَمْرُ فِرْعَوْنَ بِرَشِيْدٍo (ہود۱۱: ۹۶۔۹۷)
ہم نے موسیٰ کو اپنی آیات اور صریح نشانِ ماموریت کے ساتھ فرعون اور اس کے سردارانِ قوم کی طرف بھیجا تھا، مگر ان لوگوں نے فرعون کے امر کی پیروی کی۔ حالانکہ فرعون کا امر راستی پر نہ تھا۔
وَلَقَدْ فَتَنَّا قَبْلَہُمْ قَوْمَ فِرْعَوْنَ وَجَاۗءَہُمْ رَسُوْلٌ كَرِيْمٌo اَنْ اَدُّوْٓا اِلَيَّ عِبَادَ اللہِ۝۰ۭ اِنِّىْ لَكُمْ رَسُوْلٌ اَمِيْنٌo وَّاَنْ لَّا تَعْلُوْا عَلَي اللہِ۝۰ۚ اِنِّىْٓ اٰتِيْكُمْ بِسُلْطٰنٍ مُّبِيْنٍo (الدّخان۴۴:۱۷۔۱۹)
اور ہم نے ان سے پہلے فرعون کی قوم کو آزمائش میں ڈالا تھا۔ ایک معزز رسول ان کے پاس آیا اور اس نے کہا کہ اللہ کے بندوں کو میرے حوالے کرو۔ مَیں تمھارے لیے امانت دار رسول ہوں۔ اور اللہ کے مقابلہ میں سرکشی نہ کرو، مَیں تمھارے سامنے صریح نشانِ ماموریت پیش کرتا ہوں۔
اِنَّآ اَرْسَلْنَآ اِلَيْكُمْ رَسُوْلًا شَاہِدًا عَلَيْكُمْ كَـمَآ اَرْسَلْنَآ اِلٰى فِرْعَوْنَ رَسُوْلًاo فَعَصٰى فِرْعَوْنُ الرَّسُوْلَ فَاَخَذْنٰہُ اَخْذًا وَّبِيْلًاo (المزمل۷۳:۱۵۔۱۶)
(اے اہلِ مکہ!) ہم نے تمھاری طرف ایک رسول بھیجا ہے جو تم پر گواہی دینے والا ہے، اسی طرح جیسے ہم نے فرعون کی طرف رسول بھیجا تھا۔ پھر فرعون نے اس رسول کی نافرمانی کی تو ہم نے اسے سختی کے ساتھ پکڑا۔
قَالَ فَمَنْ رَّبُّكُمَا يٰمُوْسٰىo قَالَ رَبُّنَا الَّذِيْٓ اَعْطٰي كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَہٗ ثُمَّ ہَدٰىo
(طٰہٰ۲۰: ۴۹۔۵۰)
فرعون نے کہا: اے موسیٰ (اگر تم نہ دیوتائوں کو رب مانتے ہو نہ شاہی خاندان کو)تو آخر تمھارا رب کون ہے؟ موسیٰ ؑنے جواب دیا، ہمارا رب وہی ہے جس نے ہر چیز کو اس کی مخصوص ساخت عطا کی، پھر اسے اس کے کام کرنے کا طریقہ بتایا۔
قَالَ فِرْعَوْنُ وَمَا رَبُّ الْعٰلَمِيْنَo قَالَ رَبُّ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَمَا بَيْنَہُمَا۝۰ۭ اِنْ كُنْتُمْ مُّوْقِنِيْنَo قَالَ لِمَنْ حَوْلَہٗٓ اَلَا تَسْتَمِعُوْنَo قَالَ رَبُّكُمْ وَرَبُّ اٰبَاۗىِٕكُمُ الْاَوَّلِيْنَo قَالَ اِنَّ رَسُوْلَكُمُ الَّذِيْٓ اُرْسِلَ اِلَيْكُمْ لَمَجْنُوْنٌo قَالَ رَبُّ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ وَمَا بَيْنَہُمَا۝۰ۭ اِنْ كُنْتُمْ تَعْقِلُوْنَo قَالَ لَىِٕنِ اتَّخَذْتَ اِلٰــہًا غَيْرِيْ لَاَجْعَلَنَّكَ مِنَ الْمَسْجُوْنِيْنَo (الشعرائ۲۶: ۲۳۔۲۹)
فرعون نے کہا: اور یہ ربّ العٰلمین کیا ہے؟ موسیٰ نے جواب دیا: زمین وآسمان اور ہر اس چیز کا ربّ جو ان کے درمیان ہے اگر تم یقین کرنے والے ہو۔ فرعون اپنے گرد وپیش کے لوگوں سے بولا، سنتے ہو؟ موسیٰ ؑ نے کہا: تمھارا رب بھی اور تمھارے آبائو اجداد کا رب بھی۔ فرعون بولا: تمھارے یہ رسول صاحب جو تمھاری طرف بھیجے گئے ہیں، بالکل ہی پاگل ہیں۔ موسیٰ ؑ نے کہا: مشرق اور مغرب اور ہر اس چیز کا رب جو ان کے درمیان ہے اگر تم کچھ عقل رکھتے ہو۔ اس پر فرعون بول اٹھا کہ اگر میرے سوا تو نے کسی اور کو الٰہ بنایا تو میں تجھے قیدیوں میں شامل کر دوں گا۔
قَالَ اَجِئْتَنَا لِتُخْرِجَنَا مِنْ اَرْضِنَا بِسِحْرِكَ يٰمُوْسٰىo (طٰہٰ۲۰:۵۷)
فرعون نے کہا: اے موسیٰ! کیا تو اس لیے آیا ہے کہ اپنے جادو کے زور سے ہمیں ہماری زمین سے بے دخل کر دے؟
وَقَالَ فِرْعَوْنُ ذَرُوْنِيْٓ اَقْتُلْ مُوْسٰى وَلْيَدْعُ رَبَّہٗ۝۰ۚ اِنِّىْٓ اَخَافُ اَنْ يُّبَدِّلَ دِيْنَكُمْ اَوْ اَنْ يُّظْہِرَ فِي الْاَرْضِ الْفَسَادَo (المومن۴۰: ۲۶)
اور فرعون نے کہا: چھوڑو مجھے کہ میں موسیٰ ؑ کو قتل کر دوں اور وہ اپنے رب کو مدد کے لیے پکار دیکھے۔ مجھے خطرہ ہے کہ وہ تمھارے دین کو بدل ڈالے گا یا ملک میں فساد برپا کرے گا۔
قَالُوْٓا اِنْ ھٰذٰىنِ لَسٰحِرٰنِ يُرِيْدٰنِ اَنْ يُّخْرِجٰكُمْ مِّنْ اَرْضِكُمْ بِسِحْرِہِمَا وَيَذْہَبَا بِطَرِيْقَتِكُمُ الْمُثْلٰىo (طٰہٰ۲۰:۶۳)
انھوں نے کہا: کہ یہ دونوں تو جادو گر ہیں۔ چاہتے ہیں کہ اپنے جادو کے زور سے تم کو تمھاری زمین سے بے دخل کریں اور تمھارے مثالی طریقِ زندگی کو مٹا دیں۔
ان تمام آیات کو ترتیب وار دیکھنے سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ ربوبیت کے باب میں وہی ایک گم راہی جو ابتدا سے دنیا کی مختلف قوموں میں چلی آ رہی تھی ارضِ نیل میں بھی ساری ظلمت اسی کی تھی اور وہی ایک دعوت جو ابتدا سے تمام انبیادیتے چلے آ رہے تھے، موسیٰ وہارون علیہما السلام بھی اُسی کی طرف بلاتے تھے۔

شیئر کریں