پھر چونکہ آپ کو اس زندگی میں ہر قدم پر خدا کے احکام بجا لانا ہیں، خدا کی سپرد کی ہوئی خدمات اس کے مقرر کیے ہوئے حدود کی نگاہ داشت کے ساتھ انجام دینی ہیں، اس لیے یہ بھی ضروری ہے کہ آپ میں فرض شناسی پیدا ہو اور فرض کو مستعدی اور فرماں برداری کے ساتھ انجام دینے کی عادت آپ کی فطرت ثانیہ بن جائے۔ جو شخص یہ جانتا ہی نہ ہو کہ فرض کیا بلا ہوتی ہے اور اس کا فرض ہونا کیا معنی رکھتا ہے، ظاہر ہے کہ وہ کبھی ادا ئے فرض کے قابل نہیں ہوسکتا، اسی طرح جو شخص فرض کے معنی تو جانتا ہو مگر اس کی تربیت اتنی خراب ہو کہ فرض کو فرض جاننے کے باوجود اسے ادا کرنے کی پروا نہ کرے، اس کے کیریکٹر پر کوئی اعتماد نہیں کیا جاسکتا، اور نہ وہ کسی عملی خدمت (active service)کا اہل ہوسکتا ہے، پس یہ بالکل ناگزیر ہے کہ جن لوگوں کو کسی ذمہ دارانہ خدمت پر مامور کیا جائے، ان کے لیے فرض شناس اور اطاعت امر کی تربیت کا بھی انتظام کیا جائے۔ اس کا فائدہ صرف یہی نہیں ہے کہ کام کے آدمی تیار ہوتے رہتے ہیں بلکہ اس کا فائدہ یہ بھی ہے کہ روزانہ کار آمد اور ناکارہ آدمیوں کے درمیان تمیز ہوتی رہتی ہے۔ روز یہ فرق کھلتا رہتا ہے کہ جو لوگ خدمت کے امیدوار ہیں ان میں کون قابل اعتماد ہے اور کون نہیں ہے۔ تمام عملی خدمات کے لیے یہ قطعاً ضروری ہے کہ ہمیشہ بالالتزام عملی آزمایش (practical test)پر آدمیوں کو پرکھا جاتا رہے تاکہ ناقابل اعتماد آدمی ملازمت میں نہ رہنے پائیں۔
فوج کو دیکھیے، کن کن طریقوں سے وہاں ڈیوٹی کو سمجھنے اور اسے ادا کرنے کی مشق کرائی جاتی ہے۔ رات دن میں کئی کئی باربگل بجایا جاتا ہے۔ سپاہیوں کو ایک جگہ حاضر ہونے کا حکم دیا جاتا ہے، ان سے قواعد کرائے جاتے ہیں۔ یہ سب کس لیے؟ اس کا پہلا مقصد یہ ہے کہ سپاہیوں کو حکم بجالانے کی عادت ہو۔ ان میں فرض شناسی کا مادہ پیدا ہو۔ ان میں ایک نظام اور تربیت کے ساتھ کام کرنے کی خصلت پیدا ہو۔ اور اس کا دوسرا مقصد یہ ہے کہ روزانہ سپاہیوں کی آزمایش کی جاتی رہے، روز یہ فرق کھلتا رہے کہ جو لوگ فوج میں بھرتی ہوئے ہیںان میں سے کون کام کے آدمی ہیں اور کون ناکارہ ہیں۔ جو سست اور نالائق لوگ بگل کی آواز سن کر گھر بیٹھے رہیں یا قواعد میں حکم کے مطابق حرکت نہ کریں انھیں پہلے ہی فوج سے نکال باہر کیا جاتا ہے۔ کیوں کہ ان پر یہ بھروسا نہیں کیا جاسکتا کہ جب کام کا وقت آئے گا تو وہ فرض کی پکار پر لبیک کہیں گے۔
دنیوی فوجوں کے لیے تو کام کا وقت کبھی برسوں میں آتا ہے، اور اس کے لیے یہ اہتمام ہے کہ روزانہ سپاہیوں کی تربیت اور ان کی آزمایش کی جاتی ہے مگر اسلام جو فوج بھرتی کرتا ہے اس کے لیے ہر وقت کام کا وقت ہے۔ وہ ہر وقت برسرکار (on duty) ہے۔ اس کے لیے ہر وقت معرکۂ کار زار گرم ہے۔ اسے زندگی میں ہر آن ہر لمحہ فرائض ادا کرنا ہیں، خدمات بجا لانی ہیں، شیطانی قوتوں سے لڑنا ہے، حدود اللہ کی حفاظت کرنی ہے، اور احکام شاہی کو نافذ کرنا ہے۔ اسلام محض ایک اعتقادی مسلک نہیں ہے بلکہ عملی خدمت ہے اور عملی خدمت بھی ایسی جس میں رخصت، تعطیل اور آرام کا کوئی وقت نہیں۔ رات دن کے چوبیس گھنٹے پیہم اور مسلسل خدمت ہی خدمت ہے۔ اب فوج کی مثال کو سامنے رکھ کر اندازہ کیجیے کہ ایسی سخت عملی خدمت کے لیے کتنے سخت ڈسپلن ، کیسی زبردست تربیت اور کتنی شدید آزمایش کی ضرورت ہے۔ محض عقیدہ (creed)کا زبانی اقرار اس کے لیے کیوں کر کافی ہوسکتا ہے کہ ایک شخص اس فوج میں رکھ لیا جائے جسے اتنی اہم خدمت انجام دینا ہے۔ عقیدے کا اقرار تو صرف اس ملازمت میں داخل ہونے کے لیے امیدواری کا اعلان کیا ہے۔ اس اعلان کے بعد یہ قطعاً ناگزیر ہے کہ اسے ڈسپلن کے شکنجہ میں کسا جائے۔ اس ڈسپلن میں رہ کر ہی وہ اسلام کے کام کا بن سکتا ہے۔ اور اگر وہ اپنے آپ کو اس شکنجہ کی گرفت میں دینے پر تیار نہیں، اگر وہ فرض کی پکار پر نہیں آتا، اگر وہ احکام کی اطاعت کے لیے کوئی مستعدی اپنے اندر نہیں رکھتا تو وہ اسلام کے لیے قطعی ناکارہ ہے۔ خدا اور اس کے دین کو ایسے فضول آدمی کی کوئی حاجت نہیں۔
یہی دو گونہ اغراض ہیں جن کے لیے نماز رات دن میں پانچ وقت فرض کی گئی ہے۔ یہ روزانہ پانچ باربگل بجاتی ہے تاکہ اللہ کے سپاہی اسے سن کر ہر طرف سے دوڑے چلے آئیں اور ثابت کریں کہ وہ فرض کو پہچانتے ہیں۔ اللہ کے اقتدار اعلیٰ کو تسلیم کرتے ہیں، اور اس کے احکام بجا لانے کے لیے مستعد ہیں۔ اس طریقہ سے ایک طرف سپاہیوں کی تربیت ہوتی ہے اور دوسری طرف مومن اور منافق کا فرق کھلتا رہتا ہے۔ جو لوگ اس آواز پر پابندی کے ساتھ آتے ہیں اور ضابطہ کے مطابق حرکت کرتے ہیں، ان میں فرض شناسی، مستعدی، انضباط اور اطاعت امر کا مادہ نشوونما پاتا ہے۔ بخلاف اس کے جو لوگ اس آواز کو سن کر اپنی جگہ سے نہیں ہلتے وہ اپنے عمل سے ثابت کر دیتے ہیں کہ یا تو وہ فرض کو پہچانتے نہیں، یا پہچانتے ہیں تو اسے ادا کرنے کے لیے مستعد نہیں ہیں۔ یا تو وہ اس اقتدار (authority)ہی کو تسلیم نہیں کرتے جس نے اسے فرض قرار دیا ہے، یا پھر ان کی ذہنی حالت اتنی ناقص ہے کہ جسے اپنا الٰہ اور رب مانتے ہیں اس کے پہلے اور اہم ترین حکم کو بجا لانے کے لیے تیار نہیں۔ وہ اگر ایمان رکھتے بھی ہیں تو صادق الایمان (true to their conviction) نہیں ہیں۔ ان میں یہ صفت اور صلاحیت موجود نہیں ہے کہ جس چیز کو حق جانیں اس کے مطابق عمل کرنے کی زحمت بھی اٹھانے کے لیے تیار ہوں۔ پہلی صورت میں وہ مسلمان نہیں ہیں اور دوسری صورت میں وہ اتنے نالائق اور ناکارہ ہیں کہ اسلامی جماعت میں رہنے کے قابل نہیں۔
اسی بنا پر قرآن میں نماز کے متعلق فرمایا گیا ہے کہ
وَاِنَّہَا لَكَبِيْرَۃٌ اِلَّا عَلَي الْخٰشِعِيْنَo البقرہ 45:2
بے شک یہ (نماز) ایک مشکل کام ہے، مگر فرماں برداروں کے لیے مشکل نہیں۔
یعنی جو لوگ خدا کی اطاعت و بندگی کے لیے تیار نہیں ہیں صرف انھی پر نماز گراں گزرتی ہے۔ بالفاظ دیگر جس پر نماز گراں گزرے وہ خود اس بات کا ثبوت پیش کرتا ہے کہ خدا کی بندگی و اطاعت کے لیے تیار نہیں ہے۔
اسی بنا پر ارشاد ہوا کہ:
فَاِنْ تَابُوْا وَاَقَامُوا الصَّلٰوۃَ وَاٰتَوُا الزَّكٰوۃَ فَاِخْوَانُكُمْ فِي الدِّيْنِ۰ۭ التوبہ 11:9
اگر وہ کفر و شرک سے توبہ کریں اور نماز کے پابند ہوں اور زکوٰۃ دیں تب وہ تمھارے دینی بھائی ہیں۔
یعنی نماز کے بغیر آدمی اسلام کی دینی برادری میں شامل ہی نہیں ہوسکتا۔ اس بنا پر قرآن کے بارے میں فرمایا کہ:
ھُدًى لِّلْمُتَّقِيْنَo الَّذِيْنَ يُؤْمِنُوْنَ بِالْغَيْبِ وَيُـقِيْمُوْنَ الصَّلٰوۃَ وَمِمَّا رَزَقْنٰھُمْ يُنْفِقُوْنَo البقرہ 2-3:2
یہ کتاب صرف ان خدا ترس لوگوں کے لیے ہدایت ہے جو ان دیکھی حقیقت پر ایمان لائیں اور نماز کے پابند بنیں اورجو رزق ہم نے انھیں دیا ہے اس میں سے راہ خدا میں دیں۔
اسی بنا پر منافقین کی یہ صفت بیان کی گئی کہ:
وَاِذَا قَامُوْٓا اِلَى الصَّلٰوۃِ قَامُوْا كُسَالٰى۰ۙ النسائ 142:4
یعنی وہ نماز کے لیے اٹھتے ہیں تو اس طرح کسمساتے ہوئے بادل ناخواستہ اٹھتے ہیں کہ گویا ان کی جان پر بن رہی ہے۔
اور
الَّذِيْنَ ہُمْ عَنْ صَلَاتِہِمْ سَاہُوْنَo الماعون 5:107
یعنی وہ اپنی نمازوں سے غافل ہوتے ہیں۔
اسی بنا پر حدیث میں ارشاد ہوا ہے کہ:
بین العبد وبین الکفر ترک الصلوٰۃ۔ (مسلم، کتاب الصلوٰۃ)
بندے اور کفر کے درمیان ترک صلوٰۃ واسطہ ہے۔
یعنی ترکِ صلوٰۃ وہ پل ہے جسے عبور کرکے آدمی ایمان سے کفر کی طرف جاتا ہے۔
اسی بنا پر رحمۃً للعالمینؐ نے فرمایا کہ ’’جو لوگ اذان کی آواز سن کر گھروں سے نہیں نکلتے، میرا جی چاہتا ہے کہ جاکر اُن کے گھروں میں آگ لگادوں۔‘‘
اور اسی بنا پر فرمایا کہ:
العھد بیننا و بینھم الصلوٰۃ فمن ترکہا فقد کفر۔ (ترمذی، نسائی، ابن ماجہ)
ہمارے اور عرب کے بدوئوں کے درمیان تعلق کی بنا نماز ہے۔جس نے اسے چھوڑ دیا وہ کافر قرار پائے گا اور اس سے ہمارا تعلق ٹوٹ جائے گا۔
آج دین سے قطعی ناواقفیت کا نتیجہ یہ ہے کہ جو لوگ نماز نہیں پڑھتے، جو اذان کی آواز سن کر ٹس سے مس نہیں ہوتے، جنھیں یہ محسوس تک نہیں ہوتا کہ مؤذِ ن کسے بلا رہا ہے اور کس کام کے لیے بلا رہا ہے، وہ مسلمان سمجھے جاتے ہیں، اور یہ خیال عام ہوگیا ہے کہ نماز کی کوئی اہمیت اسلام میں نہیں ہے، اس کے بغیر بھی آدمی مسلمان ہوسکتا ہے بلکہ مسلمانوں کا امام اور ملت کا قائد بھی ہوسکتا ہے۔ مگر جب اسلام ایک تحریک کی حیثیت سے زندہ تھا، اس وقت یہ حال نہ تھا۔ مستند روایت ہے کہ:
کان اصحاب النبی صلعم لایرون شیئًا من الاعمال ترکہ کفر غیر الصلوٰۃ۔
(ترمذی)
یعنی نبی ﷺ کے صحابہ میں یہ بات متفق علیہ تھی کہ اسلامی اعمال میں سے صرف نماز ہی وہ عمل ہے جسے چھوڑ دینا کُفر ہے۔