Search
Close this search box.

فہرست موضوعات

اسلام کا نظریۂ سیاسی
تمام اِسلامی نظریات کی اساس
انبیا علیہم السلا م کا مشن
الٰہ کے معنی
رَبّ کا مفہوم
فتنے کی جڑ
انبیاؑ کا اصل اصلاحی کام
نظریّۂ سیاسی کے اوّلیں اُصُول
اِسلامی اسٹیٹ کی نوعیت
ایک اعتراض
حُدودُ اللّٰہ کا مقصد
اِسلامی اسٹیٹ کا مقصد
ایجابی اسٹیٹ
جماعتی اور اُصولی اسٹیٹ
نظریہ خلافت اور اس کے سیاسی مضمرات
اِسلامی جمہوریت کی حیثیت
انفرادیت اور اجتماعیت کا توازن
اِسلامی اسٹیٹ کی ہیئتِ ترکیبی

اسلام کا نظریۂ سیاسی

اس ویب سائٹ پر آپ کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ اب آپ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی رحمتہ اللہ علیہ کی کتابوں کو ’’پی ڈی ایف ‘‘ کے ساتھ ساتھ ’’یونی کوڈ ورژن‘‘ میں بھی پڑھ سکتے ہیں۔کتابوں کی دستیابی کے حوالے سے ہم ’’اسلامک پبلی کیشنز(پرائیوٹ) لمیٹڈ، لاہور‘‘، کے شکر گزار ہیں کہ اُنھوں نے اس کارِ خیر تک رسائی دی۔ اس صفحے پر آپ متعلقہ کتاب PDF اور Unicode میں ملاحظہ کیجیے۔

فتنے کی جڑ

اس نظر سے جب آپ دیکھیں گے تو آپ کو معلوم ہو گا کہ دنیا میں فتنہ کی اصل جڑ اور فساد کا اصل سرچشمہ انسان پر انسان کی خدائی ہے۔ خواہ وُہ بالواسطہ ہو یا بلا واسطہ۔ اسی سے خرابی کی ابتدا ہوئی اور اسی سے آج بھی بِس کے زہریلے چشمے پھوٹ رہے ہیں۔ اللّٰہ تعالیٰ تو خیر انسان کی فطرت کے سارے راز ہی جانتا ہے، مگر اب تو ہزارہا برس کے تجربے سے خود ہم پر بھی یہ حقیقت پوری طرح منکشف ہو چکی ہے کہ انسان کسی نہ کسی کو الٰہ اور رب مانے بغیر رَہ ہی نہیں سکتا گویا اس کی زندگی محال ہے اگر کوئی اس کا الٰہ اور رب نہ ہو۔ اگر اللّٰہ کو نہ مانے گا تب بھی اسے الٰہ اور رب سے چھٹکارا نہیں ہے بلکہ اس صورت میں بہت سے الٰہ اور اَرباب اس کی گردن پر مسلّط ہو جائیں گے۔
غور سے دیکھیے۔ کیا روس میں کمیونسٹ پارٹی کی سیاسی مجلس (Political Bureau)کے ارکان باشندگانِ روس کے ارباب و الٰہ نہیں ہیں؟ اور کیا اسٹالین ان کا رب الارباب نہیں؟ روس کا کون سا گائوں اور کون سا زرعی فارم ایسا ہے جہاں اس خدائے روسیاں کی تصویر موجود نہیں؟ ابھی پولینڈ کے جس حصہ پر روس نے قبضہ کیا ہے واضح رہے کہ یہ مقالہ اکتوبر ۱۹۳۹ء؁ میں لکھا گیا تھا۔
اس میں سویٹ سسٹم کی بسم اللّٰہ آپ کو معلوم ہے کس طرح ہوئی؟ اسٹالین کی تصویریں ہزاروں کی تعداد میں درآمد کی گئیں، گائوں گائوں میں پہنچائی گئیں تاکہ سب سے پہلے وُہ اپنے الٰہ العظیم اور ربِّ کبیر سے واقف ہو لیں، تب انھیں دین بالشویکی میں داخل کیا جائے۔ سوال یہ ہے کہ آخر ایک انسان کو یہ اہمیت کیوں؟ کیا وجہ ہے کہ ایک آدمی کو، خواہ وُہ جماعت (Community) کی نمایندگی ہی کر رہا ہو، کروڑوں انسانوں کے دماغوں اور ان کی رُوحوں پر اس طرح مسلّط کر دیا جائے کہ اس کی شخصیت کا جبروت اور اس کی کبریائی ان کے رگ و ریشہ میں پیوست ہو جائے؟ اسی طریقہ سے تو شخصی اقتدار دُنیا میں قائم ہوتا ہے۔ یوں ہی تو انسان انسانوں کا خدا بنتا ہے۔ یہی تو وُہ ڈھنگ ہیں جن سے فرعونیت اور نمرودیت اور زاریت و قیصریت کی جڑیں ہر زمانہ میں مستحکم ہوئی ہیں۔
اسی طرح اٹلی کو دیکھیے وہاں فاشست گرانڈ کونسل الٰہوں کا مجمع ہے اور مسولینی ان کا سب سے بڑا الٰہ، جرمنی میں نازی پارٹی کے لیڈر الٰہ ہیں اور ہٹلر ان کا الٰہ کبیر۔ انگلستان بھی اپنی ڈیمو کریسی کے باوجود بینک آف انگلینڈ کے ڈائریکٹروں اور چند اُونچے طبقے کے امرا و مدبّرین میں اپنے الٰہ رکھتا ہے۔ امریکا میں حال اسٹریٹ کے چند مٹھی بھر سرمایہ دار تمام ملک کے ارباب و الٰہ بنے ہوئے ہیں۔
آج بھی آپ جدھر نظر ڈالیں گے یہی نظر آئے گا کہ کہیں ایک قوم دوسری قوم کی الٰہ ہے، کہیں ایک طبقہ دوسرے طبقوں کا الٰہ ہے، کہیں ایک پارٹی نے الٰہیت و ربوبیت کے مقام پر قبضہ کر رکھا ہے، کہیں قومی ریاست خدائی کے مقام پر براجمان ہے اور کہیں کوئی ڈکٹیٹر مَاعَلِمْتُ لَکُمْ مِّنْ اِلٰہٍ غَیْرِیْ کی منادی کر رہا ہے۔ انسان کسی ایک جگہ بھی الٰہ کے بغیر نہ رہا۔
پھر انسان پر انسان کی خدائی قائم ہونے کا نتیجہ کیا ہوتا ہے؟ وہی جو ایک کم ظرف آدمی کو پولیس کمشنر بنا دینے، یا ایک جاہل تنگ نظر کو وزیر اعظم بنا دینے کا نتیجہ ہوتا ہے۔ اوّل تو خدائی کا نشہ ہی کچھ ایسا ہوتا ہے کہ آدمی اس شراب کو پی کر کبھی اپنے قابو میں نہیں رَہ سکتا اور بالفرض اگر وُہ قابو میں رَہ بھی جائے تو خدائی کے فرائض انجام دینے کے لیے جس علم کی ضرورت ہے اور جس بے لوثی و بے غرضی اور بے نیازی کی حاجت ہے وُہ انسان کہاں سے لائے گا؟ یہی وجہ ہے کہ جہاں جہاں انسانوں پر انسانوں کی الٰہیّت و ربوبیت قائم ہوئی وہاں ظلم، طغیان، ناجائز انتفاع بے اعتدالی اور ناہمواری نے کسی نہ کسی صورت سے راہ پا ہی لی۔ وہاں انسانی روح اپنی فطری آزادی سے محروم ہو کر ہی رہی، وہاں انسان کے دل و دماغ پر اس کی پیدائشی قوتوں اور صلاحیتوں پر ایسی بندشیں عائد ہو کر رہیں جنھوں نے انسانی شخصیت کے نشو و ارتقا کو روک دیا۔ کس قدر سچ فرمایا اس صادق و مصدوق علیہ و علیٰ آلہ الصلوٰۃ والسلام نے:
قَالَ اللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ اِنِّیْ خَلَقْتُ عِبَادِیْ حُنَفَآئَ فَجَائَ تْھُمُ الشَّیٰطِیْنُ فَاجْتَالَتْھُمْ مِنْ دِیْنِھِمْ وَحَرَّمَتْ عَلَیْھِمْ مَا اَحْلَلْتُ لَھُمْ۔ (حدیثِ قدسی)
اللّٰہ عزوجل فرماتا ہے کہ مَیں نے اپنے بندوں کو صحیح فطرت پر پیدا کیا تھا پھر شیطانوں نے انھیں آن گھیرا، انھیں فطرت کی راہِ راست سے بھٹکا لے گئے اورجو کچھ مَیں نے ان کے لیے حلال کیا تھا شیطانوں نے انھیں اس سے محروم کرکے رَکھ دیا۔
جیسا کہ اُوپر عرض کر چکا ہوں، یہ ہے وُہ چیز جو انسان کے سارے مصائب، اس کی ساری تباہیوں، اس کی تمام محرومیوں کی اصل جڑ ہے۔ یہ اس کی ترقی میں اصلی رُکاوٹ ہے۔ یہ وُہ روگ ہے جو اس کے اخلاق اور اس کی روحانیت کو اس کی علمی و فکری قوتوں کو، اس کے تمدن اور اس کی معاشرت کو، اس کی سیاست اور اس کی معیشت کو، اور قصہ مختصر اس کی انسانیت کو تپ دق کی طرح کھا گیا ہے، قدیم ترین زمانہ سے کھا رہا ہے اور آج تک کھائے چلا جاتا ہے۔ اس روگ کا علاج بجز اس کے کچھ ہے ہی نہیں کہ انسان سارے ارباب اور تمام الٰہوں کا انکار کرکے صرف اللّٰہ کو اپنا الٰہ اور صرف رب العالمین کو اپنا رب قرار دے۔ اس کے سوا کوئی دوسرا راستہ اس کی نجات کے لیے نہیں ہے۔ کیوں کہ ملحد اور دہریہ بَن کر بھی تو وُہ الٰہوں اور ارباب سے چھٹکارا نہیں پاسکتا۔

شیئر کریں