اشتراکی حضرات بالعموم اٹلی کی فاشی اور جرمنی کی نازی تحریک کو سرمایہ داری کی رجعت قرار دینے کی کوشش کرتے ہیں اور الزام رکھتے ہیں کہ بورژوا سرمایہ داروں نے اپنی بازی ہرتی دیکھ کر ہٹلر اور مسولینی کو کھڑا کردیا تھا لیکن یہ اصل حقیقت نہیں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ لوگ کسی طبقے یا کسی مخصوص مفاد کے بدنیت ایجنٹ نہیں تھے۔ مارکس اور لینن ہی کی طرح کے لوگ تھے ۔ ویسے ہی مخلص، ویسے ہی ذہین، اور ویسے ہی کج فہم۔ انہوں نے دیکھا کہ ایک طرف جنگ کی زبردست چوٹ نے ان کی قوم کو اس قدر بدحال کردیا ہے کہ صدیوں کا قومی فخروناز خاک میں ملا جاتا ہے۔ دوسری طرف بے قید معیشت کی اندرونی خرابیاں اور اشتراکیت کی اوپری انگیخت قوم کے مختلف عناصر کو آپس ہی میں ایک سخت خونریز اور غارتگر کشمکش میں مبتلا کئے دے رہی ہیں۔ اس لیے انہوں نے ایسی تدبیریں سوچنی شروع کیں جن سے وہ طبقاتی اغراض کی اندرونی نزاع کو دور کرکے اپنی قومی وحدت کو پارہ پارہ ہونے سے بھی بچالیں اور اپنی قوم کی معاشی، تمدنی اور سیاسی طاقت کو مضبوط کرکے از تر نو اس کی عظمت کا سکہ بھی دنیا میں بٹھا دیں۔ لیکن وہ اور ان کے حامی اور پیرو سب کے سب مغربی ذہن کی ان ساری کمزوریوں کے وارث تھے جنہیں ہم تاریخ میں مسلسل کارفرما دیکھتے چلے آرہے ہیں۔ اپنے پیش رو مفکرین و مدبرین کی طرح انہوں نے بھی یہی کیا کہ چند صداقتوں کو لے کر ان کے اندر بہت سے مبالغے کی آمیزش کی، چند صداقتوں کو ساقط کرکے ان کی جگہ چند حماقتیں رکھ دیں اوراس ترکیب سے ایک نیا غیرمتوازن نظام زندگی بنا کھڑا کیا۔
آئیے اب ذرا اس مرکب کا بھی جائزہ لے کر دیکھیں کہ اس میں صحیح اور غلط کی آمیزش کس طرح کس تناسب سے تھی اور اس کے نفع و نقصان کی میزان کیا رہی۔ اگرچہ جنگ عظیم دوم میں شکست کھا کر یہ دونوں توام بھائی بظاہر مر چکے ہیں لیکن ان کی پھیلائی ہوئی بہت سی بدعتیں بدلے ہوئے ناموں سے مختلف ملکوں میں اب بھی موجود ہیں اور خود ہمارا ملک بھی ان بلائوں سے محفوظ نہیں ہے۔ اس لیے فاشیت اور نازیت کے اجزاء صالح اور اجزاء فاسد کی نشاندہی اب بھی اتنی ہی ضروری ہے جتنی جنگ سے پہلے تھی۔