یہ سیاست تھی، یہ اخلاقیات تھے، یہ فلسفے تھے اور مذہب کے بارے میں یہ خیالات تھے ان لوگوں کے جو ہماری تاریخ کے منحوس مرحلے میں باہر سے آ کر ہم پر غالب ہوئے۔ ہم اس وقت جن کم زوریوں میں مبتلا تھے وہ آپ پہلے سن چکے ہیں اور یہ لوگ جو تہذیب لائے تھے وہ یہ تھی جس کی تصویر ابھی آپ نے ملاحظہ فرما لی ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ تہذیب یہاں اس حیثیت سے نہیں آئی تھی کہ کچھ مسافر یا کچھ سیاح اسے لائے تھے۔ یہ ان لوگوں کی تہذیب تھی جو یہاں حکم ران بن کر آئے تھے۔ جن کو یہاں کی پوری زندگی پر وہ تسلط حاصل ہوا تھا جو اُن سے پہلے کبھی اس ملک کی کسی حکومت کو نصیب نہ ہوا تھا۔ جن کا وہ رعب… ذہنی اورمادی دونوں طرح کا رعب… یہاں کی آبادی پر پڑا تھا جو شاید پہلے کسی حکم ران گروہ کا نہ پڑا تھا۔ جن کے قبضے میں نشرواشاعت اور تعلیم کے وسیع ذرائع بھی تھے۔ قانون اور عدالت کے کارگر ہتھیار بھی تھے اور اس کے ساتھ معاش کے وسائل کو بھی ان کے اقتدار نے پوری طرح گرفت میں لے رکھا تھا۔ اس لیے ان کی تہذیب نے ہم پر ایسا ہمہ گیر اثر ڈالا جس کی گہرائی سے ہماری زندگی کا کوئی شعبہ نہ بچا۔