آخر میں اس امر کی توضیح بھی ضروری ہے کہ ایک اسلامی حکومت اپنے غیر مسلم شہریوں کو جو حقوق بھی دے گی بلا اس لحاظ کے دے گی کہ کوئی ہمسایہ غیر مسلم حکومت اپنی مسلمان رعایا کو کیا حقوق دیتی ہے، بلکہ کچھ دیتی بھی ہے یا نہیں۔ ہم اس بات کے قائل نہیں ہیں کہ مسلمان کافروں کو دیکھ دیکھ کراپنا لائحہ عمل بنائے، وہ انصاف کریں تو یہ بھی کرے، اوروہ ظلم کرنے لگیں تو یہ بھی ظلم پر اتر آئے، ہم مسلمان ہونے کی حیثیت سے ایک قطعی اور واضح اصول کے پیرو ہیں اور ہمیں بہرحال اپنے حدودِ اختیار میں اپنے اصولوں پر ہی عمل کرنا ہے، جو ہم دیں گے نیک نیتی کے ساتھ دیں گے، صرف کاغذ ہی پر نہیں بلکہ زمین پر بھی دیں گے، اور اپنی لی ہوئی ذمّہ داریوں کو انصاف اور سچائی کے ساتھ ادا کریں گے۔
اس کے بعد یہ بیان کرنے کی حاجت نہیں رہتی کہ پاکستان میں غیر مسلموں کے لیے تحفظ، امن اور خوشحالی کی اس سے بڑھ کر، بلکہ درحقیقت اس کے سوا کوئی قابلِ اعتماد ضمانت نہیں ہو سکتی کہ یہاں ایک خالص اسلامی حکومت قائم ہو جائے۔ صرف اسی صورت میں ظلم اور جوابی ظلم کا وہ شیطانی چکر ٹوٹ سکتا ہے جو بدقسمتی سے بر عظیم ہند میں چل رہا ہے۔ صرف اسی صورت میںپاکستان بھی انصاف کا گھر بن سکتا ہے اور انڈین یونین کو بھی انصاف کا راستہ نظر آ سکتا ہے۔ افسوس ہے کہ غیر مسلم ایک مدّت سے اسلام کی غلط تعبیریں سنتے اور دیکھتے چلے آ رہے ہیں، اس لیے وہ اسلامی حکومت کا نام سن کر گھبراتے ہیں، اور ان میں سے بعض لوگ یہ شور مچانے لگتے ہیں کہ یہاں بھی انڈین یونین کی طرح بے دین جمہوریت قائم ہونی چاہئے۔ مگر ہم کو تعجب ہے کہ وہ خود ہی اصرار کرکے یہاں اس چیز کا تجربہ کرنا چاہتے ہیں جس کا مزہ آج انڈین یونین کے مسلمان چکھ رہے ہیں، کیا واقعی وہ کوئی خوشگوار حالت ہے جس کی تمنا کی جا سکتی ہو؟ کیا اس کے بجائے ایک ایسے نظام کا تجربہ کرنا زیادہ بہتر نہ ہو گا جس کی بنیاد خدا ترسی اور دیانت اور مستقل اصولوں کی پیروی پر ہو؟
(ترجمان القرآن۔ اگست ۱۹۴۸ء شوال ۱۳۶۷ھ)