آخر میں چند گزارشات اپنے غیر مسلم بھائیوں کی خدمت میں بھی پیش کرنا چاہتا ہوں کیونکہ جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا ہے۔ ہمارا فرض ہے کہ حق و صداقت کی اس دعوت کو اپنے غیر مسلم بھائیوں کے سامنے بھی پیش کریں اور پوری دل سوزی اور برادرانہ ہمدردی سے انہیں سمجھائیں کہ بھائی یہ ’’اسلام‘‘ ہمار یا کسی کی بھی ذاتی میراث نہیں ہے۔ یہ تمام اولاد آدم کی مشترک متاع ہے۔ یہ بنی نوع انسان کی فلاح کے لیے ہم سب کے خالق و مالک اور رب کے بتائے ہوئے وہ اصول ہیں جنہیں اختیار کرکے انسان دنیا و آخرت دونوں جگہ و نجات سے ہم کنار ہوسکتا ہے۔ اس لیے انہیں قبول کرنا آپ کی اپنی بھلائی ہے۔ اور اگر انہیں قبول نہیں کرتے تو ان اصولوں کا یا کسی اور کا تو کچھ نہیں بگڑتا‘ خود اپنے آپ ہی کو خسران میں ڈالتے ہو۔ اپنے سامنے پھیلی ہوئی خدا کی اس کائنات کا کھلی آنکھوں اور کھلے دل سے مشاہدہ کیجئے۔ ہر شے اصل حقیقت کی نشان دہی کرتی چلی جائے گی۔
چنانچہ آپ دیکھتے ہیں کہ یہ سورج‘ چاند اور ستارے‘ یہ آگ‘ پانی اور ہوا‘ یہ پھل پھول اور نباتات‘ یہ لوہا‘ تانبا‘ سونا اور ساری کی ساری جمادات اور اس زمین و آسمان کی ایک ایک چیز ایک اٹل اور بے لچک قانون میں جکڑی ہیں‘ جس کے خلاف وہ بال برابر بھی جنبش نہیں کرسکتیں۔ چنانچہ آپ کے یہ دن رات اور ماہ و سال اور موسموں کی آمد و رفت اسی پر تو موقوف ہے کہ سورج‘ چاند اور زمین ایک قطعی اور اٹل قانون کے ماتحت بلا چون و چرا اپنے اپنے مقرر راستوں پر اپنی مقرر رفتار کے ساتھ مسلسل چلے جارہے ہیں‘ آپ کے پھل پھول اور باغات کی ساری رونق اسی کی تو مرہون منت ہے کہ زمین کی ہر پیداوار مختلف موسموں‘ اقسام زمین اور آب و ہوا کی اس طرح پابند بنا دی گئی ہے کہ ہر شے اپنے موسم‘ اپنے لیے مقرر قسم کی زمین اور آب و ہوا میں بے چون و چرا پیدا ہوتی‘ نشوونما پاتی اور پروان چڑھتی چلی جاتی ہے۔ آپ کی یہ ساری صنعتی ترقیاں اور کارخانے اسی وجہ سے توممکن ہوئے کہ ساری جمادات‘ آگ‘ پانی‘ بجلی اور دوسری سب اشیاء اور قوتیں جو اس کام کے لیے درکار ہیں‘ اٹل اور بالکل معین قوانین طبیعی اور کیمیاوی کی بے عذر اطاعت پر مجبور کر دی گئی ہیں‘ اور آپ کے سائنس کالج‘ ریسرچ سنٹر اور ہسپتال اسی یقین پر تو قائم ہوئے ہیں کہ اس کائنات کی ساری چیزیں کچھ قطعی اصولوں اور قوانین کی پابند ہیں‘ جن کے مطابق کام کرکے ہر شخص اور ہر قوم ان سے یکساں خدمت لے سکتے ہیں۔ جو لوگ معقولات اور سائنسی علوم سے کچھ بھی واقفیت رکھتے ہیں وہ اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ انسان کے یہ سارے مایہ ناز علوم خواہ وہ علم الطبیعیات (Physics)ہو یا علم الکیمیا (Chemistry)‘ حیوانات (Zoology) ہو یا حیاتیات (Biology)‘ علم الابدان (Physiology) ہویا علم الادویہ (Medicine)‘ فلکیات (Astronomy)ہو یا ارضیات (Geology)‘ زراعت ہو یا انجینئرنگ یا کوئی اور شعبہ علم‘ سب خالق کائنات (Nature)کے ان اٹل اور قطعی قوانین و ضوابط کے مجموعوں پر مشتمل ہیں جو اس نے اپنی اس کائنات میں اپنی قوت قاہرہ کے ذریعے نافذ کر رکھے ہیں اور اب تک انسان کے علم میں آسکے ہیں۔ ان میں سے کوئی ایک اصول یا قانون و ضابطہ بلکہ اس کا کوئی چھوٹے سے چھوٹا جز بھی کسی سائنس دان‘ ڈاکٹر‘ انجینئر‘ بڑے سے بڑے کاریگر یا ماہر فن کا بنایا ہوا یا مقرر کردہ نہیں ہے۔ سائنس دان اور دوسرے سارے ماہرین فن ان اصولوں اور قوانین کو بناتے یا وضع نہیں کرتے‘ بلکہ مشاہدات و تجربات کے ذریعے صرف معلوم (Discover)کرتے ہیں کہ فلاں معاملے میں قانون طبعی (Law of Nature)یہ اور یہ ہے۔ نیوٹن (Newton)‘ گیلیلیو (Galileo)‘ کوپر نیکس (Copernicus)‘ رتھرفورڈ (Ruther Ford)یا آئن سٹائن (Einstein)اور دوسرے سائنس دان سب اس کائنات میں جاری بعض قوانین قدرت کو معلوم ہی کرنے والے تھے۔ کوئی بھی اپنے معلوم کردہ قوانین کو مقرر اور وضع کرنے والا نہیں تھا۔ اسی طرح سے یہ کیمسٹ اور دوا ساز‘ دوا سازی اور مرکبات تیار کرنے کے طریقے وض اور ان کی تاثیریں متعین نہیں بلکہ صرف تحقیق کرتے ہیں۔ ڈاکٹر لوگ بھی بیماری دور کرنے کے طریقے اور حفظان صحت کے اصول بناتے اور مقرر نہیں صرف معلوم ہی کرسکتے ہیں۔ آپ کے انجینئر بھی میکنکس (Mechanics)اور مشین سازی کے اصول و قواعد بناتے نہیں‘ معلوم کرکے ان کا اطلاق (Apply)ہی کرتے ہیں اور پھر فلکیات و ارضیات‘ حیوانیات اور حیاتیات وغیرہ کے ماہرین بھی کائنات کے ان مختلف گوشوں کے لیے ضابطے اور قوانین بناتے نہیں بلکہ ان کا علم حاصل کرکے ان کے مطابق عمل کرتے ہیں۔ چونکہ ہر شے سے متعلق ان قوانین کو خالق کائنات نے اس کی فطرت میں اس طرح سے پیوست کر دیا ہے کہ وہ کسی حال میں اس سے الگ نہیں ہوسکتے‘ اس وجہ سے ان کو قوانین قدرت (Law of Nature)کے نام سے بھی پکارا جاتا ہے۔
پھر اس بات سے بھی مجال انکار نہیں کہ ان سب قوانین و ضوابط کی تعین و ترتیب‘ وضع و تنقیذ یا باہمی تعلق میں کسی عام انسان کو تو کیا دخل ہوگا‘ کسی بڑے سے بڑے بادشاہ‘ ڈکٹیٹر‘ صدر جمہوریہ یا کسی پیر‘ پادری‘ پنڈت‘ پروہت یا سارے بنی نوع انسان کو اپنے سازوسامان سمیت بھی کوئی دخل نہیں۔ اور یہ سارے قوانین قدرت سورج سے لے کر ریت کے ذروں تک‘ بڑے سے بڑے بادشاہ اور ڈکٹیٹر سے لے کر ایک حقیر چیونٹی تک اور انبیاء و صلحاء سے لے کر فساق و فجار تک سب کے لیے اور سب پر یکساں طور پر نافذ العمل اور اٹل ہیں۔
اور پھر آپ یہ بھی دیکھتے ہیں کہ اس دنیا میں ان قوانین سے انحراف اور ان کی خلاف ورزی ہی کا دوسرا نام بگاڑ ہے۔ مثلاً آپ ذرا مشینی ضوابط (Laws of Mechanies)کی خلاف ورزی کیجئے وہیں آپ کی مشین میں اس انحراف کے تناسب سے نقص پیدا ہو جائے گا‘ حفظان صحت کے اصولوں کو توڑئیے‘ آپ کی صحت و تندرستی رخصت ہو جائے گی۔ قوانین زراعت کی پابندی میں کوتاہی برتئے‘ آپ کے سب پھل پھول اور پودے برباد ہو جائیں گے‘ حتیٰ کہ زندگی کے کسی گوشے میں بھی قوانین فطرت کو نظر انداز کرکے دیکھئے وہیں خرابی و بگاڑ کی کوئی شکل سامنے آجائے گی۔ یہی نہیں بلکہ ہر مشین کی کارگزاری (Efficiency)صحت کی درستی‘ فصل کی افزونی اور دنیا کی ہر چیز کی ترقی اسی پر موقوف ہے کہ اس قانون قدرت کی زیادہ سے زیادہ پابندی کی جائے جو اس کے لیے خالق کی طرف سے مقرر کردیا گیا ہے۔ جو جس قدر زیادہ ان قوانین ضوابط اور اصولوں کو جانے اور برتے گا اسی قدر اس کو اس دنیا میں کامیابی اور ترقی اور اس کے ذرائع و وسائل پر تسلط و تصرف حاصل ہوتا چلا جائے گا۔ اس صورت حال سے کم سے کم طبعی زندگی کی حد تک تو یہ بات تجربے سے ثابت ہو جاتی ہے کہ ترقی و ارتقاء اور کامیابی اور غلبہ کا حصول قوانین قدرت کو ٹھیک ٹھیک جاننے اور ان پر عمل پیرا ہونے ہی کی صورت میں ہوتا اور ہوسکتا ہے۔ اور یہ قوانین و ضوابط سب اس خدا کے بنائے ہوئے اور جاری کردہ ہیں‘ جس نے اس کائنات کو بنایا ہے۔
حضرات گرامی قدر! جس طرح اللہ تعالیٰ نے اپنی باقی کائنات اور اس کی ایک ایک چیز کے لیے اور خود انسان کی طبیعی اور تکوینی زندگی کے لیے اٹل قوانین فطرت (Laws of Nature)بنا دئیے ہیں جن کی پابندی اور پیروی ہی میں انسان کے لیے امن و فلاح اور ترقی و ارتقاء ہے‘ عین اسی طرح سے انسان کی اخلاقی‘ سماجی اور اجتماعی زندگی کے لیے بھی اللہ تعالیٰ کے مقرر کردہ اٹل اور قطعی قوانین اور اصول و ضوابط موجود ہیں جن کی ٹھیک ٹھیک پیروی کرنے سے ہی انسانوں کو اس دنیا میں مکمل امن اور سکون کی زندگی اور مرنے کے بعد نجات اور سرخروئی حاصل ہوسکتی ہے مگر اس دنیا میں طبیعات و تکوین اور انسانیت کے لیے اللہ تعالیٰ کے مقرر کردہ قوانین قدرت (Laws of Nature)میں فرق یہ ہے کہ طبعی و تکوینی دائرے میں ان قوانین کو اللہ نے اپنی قوت قاہرہ سے بجبر نافذ کر دیا ہے اور انسانیت (اخلاق‘ معاشرت‘ معیشت و سیاست وغیرہ) کے دائرے میں ان کو بجبر نافذ کرنے کے بجائے اولاد آدم کی مرضی پر چھوڑ دیا ہے کہ چاہے تو ان پر چلے اور نہ چاہے تو نہ چلے۔ چونکہ اس کائنات کا پورا طبعی نظام خدا کے طبعی قوانین (Laws of Nature)کے تابع ہے۔ اس لیے ان قوانین کی خلاف ورزی کا نتیجہ تو فوراً سامنے آجاتا ہے۔ لیکن اخلاقی اور اجتماعی زندگی سے متعلق قوانین الٰہی کے خلاف ورزی کا برا انجام فوراً ظاہر نہیں ہوتا اور بعض اوقات برسوں اور صدیوں تک اور کبھی اس دنیا میں سرے سے ہی ظاہر نہیں ہوتا۔ یہی وجہ ہے کہ جہاں تک قوانین طبعی (سائنسی علوم) کا تعلق ہے‘ ان کو معلوم کرنے کاکام خود انسان ہی پر چھوڑ دیا گیا ہے کہ مشاہدہ و تحقیق اور تجربات کے ذریعے ان کا علم خود حاصل کرے۔ لیکن اخلاقی اور اجتماعی زندگی سے متعلق قوانین الٰہی کی تعلیم اور تبلیغ کے لیے اللہ تعالیٰ نے کمال مہربانی سے کام لیتے ہوئے ہر ملک اور ہر قوم میں اپنے نبی اور رسول مقرر فرمائے‘ جنہوں نے نہ صرف یہ کہ خدا کی ساری کی ساری تعلیمات من و عن اور بلا کم و کاست اپنی اپنی قوم تک پہنچا دیں‘ بلکہ ان میں سے ایک ایک چیز پر عمل کرکے بھی دکھا دیا۔ اور تاریخ عالم گواہ ہے کہ جب کبھی اور جہاں کہیں نظام زندگی ’’انبیاء کے بتائے ہوئے اصولوں پر قائم ہوا‘ یہ زمین جنت کا نمونہ اور امن و سلامتی کا گہوارہ بن گئی۔ چنانچہ کم و بیش ہر قوم اور ہر ملک کے لوگوں میں جس گزشتہ‘ ’’سنہری زمانے‘‘کے قصے اور کہانیاں اب تک مشہور چلے آتے ہیں‘ یہ سب دراصل اسی زمانے سے متعلق ہیں جب کہ اس قوم یا ملک کی زمام کار اور انتظام ملکی اللہ کے ان برگزیدہ بندوں یا ان کے ماننے والو ں کے ہاتھ میں تھے‘ یا پھر ان کے بتائے ہوئے اصولوں کے بیشتر حصہ کو لوگ عملاً اختیار کیے ہوئے تھے۔
اللہ کے ان سب نمائندوں نے اپنے اپنے وقت میں ہر جگہ لوگوں کو غیر اللہ کی بندگی سے نکال کر ایک ہی دین (خالق کل اور معبود حقیقی کی اطاعت و بندگی کے طریقے) پر جمع کیا اور انہیں بتایا کہ ایک اللہ کو چھوڑ کر جن جن کی بھی تم اطاعت و بندگی کرتے ہو‘ وہ سب تمہاری طرح اس کے بندے اور غلام ہیں۔ زمان و مکان اور انسانی زندگی کے مختلف ادوار میں تمدن کے فرق کی بنا پر بعض تفصیلات کے سوا ان سب کی ایک ہی تعلیم تھی اور وہ یہ کہ‘ یہ چاند‘ یہ تارے‘ یہ زمین و آسمان کی ساری قوتیں ایک خدا کی مخلوق ہیں۔ وہی تمہارا پیدا کرنے والا ہے‘ وہی رزق دینے والا ہے‘ وہی مارنے والا اور جلانے والا ہے۔ سب کو چھوڑ کر اسی کو پوجو‘ سب کو چھوڑ کر اسی سے اپنی حاجتیں طلب کرو‘ یہ چوری‘ یہ لوٹ مار‘ یہ شراب خوری‘ یہ جوا‘ یہ بدکاریاں جو تم کرتے ہو‘ سب گناہ ہیں‘ انہیں چھوڑ دو۔ خدا انہیں پسند نہیں کرتا‘ سچ بولو‘ انصاف کرو‘ نہ کسی کی جان لو‘ نہ کسی کا مال چھینو‘ جو کچھ لو حق کے ساتھ لو‘ جو کچھ دو‘ حق کے ساتھ دو‘ تم سب انسان ہو‘ انسان اور انسان سب برابر ہیں۔ بزرگی اور شرافت انسان کی نسل اور نسب میں نہیں‘ رنگ و روپ اور مال دولت میں نہیں‘ خدا پرستی‘ نیکی اور پاکیزگی میں ہے۔ جو شخص خدا سے ڈرتا ہے اور نیک و پاک ہے وہی اعلیٰ درجہ کا انسان ہے اور جو ایسا نہیں وہ کچھ بھی نہیں۔ مرنے کے بعد تم سب کو اپنے خدا کے پاس حاضر ہونا ہے۔ اس عادل حقیقی کے ہاں نہ کوئی سفارش کام آئے گی‘ نہ رشوت چلے گی‘ نہ کسی کا نسب پوچھا جائے گا‘ وہاں صرف ایمان اور نیک عمل کی پوچھ ہوگی‘ جس کے پاس یہ سامان ہوگا‘ وہ جنت میں جائے گا اور جس کے پاس ان میں سے کچھ نہ ہوگا‘ وہ نامراد دوزخ میں ڈالا جائے گا۔۱؎
اللہ کے سب نبیوں نے اپنے اپنے زمانے کے لوگوں کو دین کی یہی تعلیم دی۔ دین کے جو اختلافات انبیاء علیہم السلام کو ماننے والوں میں آپ پا رہے ہیں‘ یہ درحقیقت ان انبیاء علیہم السلام کی تعلیمات کی پیروی و اتباع کی وجہ سے نہیں بلکہ ان سے انحراف و غفلت اور اپنی خواہشات نفس کی پیروی اور طلب دنیا کی دوڑ میں مجنونانہ مسابقت کی پیداوار ہیں۔ اس بات کی صحت کا اندازہ اس امر سے باآسانی کیا جاسکتا ہے کہ مختلف زمانوں اور اقوام میں آنے والے انبیاء علیہم السلام کے نام لیوا تو رہے ایک طرف‘ خود اپنی اس وقت موجودہ امت مسلمہ کا حال دیکھ لیجئے کہ خدا کی شریعت (قرآن و سنت)‘ جن کے وہ ہر معاملے میں آخری سند ہونے پر متفق اور ایمان رکھتے ہیں وہ دونوں ان کے درمیان اپنی اصل صورت میں موجود اور مکمل طور پر محفوظ ہیں‘ مگر اس کے باوجود مسلمان محض تاویل و تعبیر کے اختلافات کو طول دے کر مختلف فرقوں میں اس طرح بٹ گئے ہیں گویا کہ وہ مختلف مذاہب ہی نہیں‘ مختلف ادیان کے پیرو ہیں۔
پھر یہ بات بھی ساری دنیا کے مسلم و کافر تمام انسانوں کے سامنے بطور حقیقت موجود ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوق کی مختلف انواع و اجناس (خواہ وہ جاندار ہوں یا بے جان) کے لیے اپنی طرف سے جو قوانین (Laws of Nature)مقرر فرمائے ہیں وہ ہر نوع اور ہر جنس کے تمام افراد و اجزا کے لیے بھی اور ان کے اجتماعی وجود و بقاء اور نشوونما کے لیے بھی ایک ہی ہیں۔ مکان و زمان کے اختلاف کی بنا پر کسی نوع یا جنس کے افراد اجزاء کے درمیان ان کے متعلق قوانین قدرت میں یا ان کے ان پر اطلاق میں کوئی فرق نہیں کیا گیا۔ یعنی ہر نوع اور ہر جنس کے لیے جو ’’دین‘‘ اور ضابطہ حیات اللہ تعالیٰ نے اول روز تجویز اور مقرر فرما دیا وہی تاابد اس کا دین ہے۔ سوال یہ ہے کہ جب تمام انسان گورے ہوں یا کالے اور گندمی ہوں یا زرد اور شرقی ہوں یا غربی‘ سب ایک ہی نوع سے تعلق رکھتے ہوں‘ ایک ہی فطرت کے مالک ہیں۔ تو ان کے لیے ان کے خالق کی طرف سے زمان و مکان کے فرق کی بنا پر مختلف دین میں کیسے آسکتے تھے۔ حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم تک تمام انبیاء علیہم السلام کا ایک ہی دین لے کر آنا عقل کا تقاضا اور نقل سے ثابت ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے یہ حقیقت ہم انسانوں پر واضح کرنے کے لیے اپنے آخری رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے قرآن مجید میں فرمایا کہ تمہیں کوئی نیا دین دے کرنہیں بھیجا گیا بلکہ یہ وہی دین ہے جسے پہلے انبیاء علیہم السلام لے کر آتے رہے ہیں:
شرع لکم من الدین ما وصیٰ بہ نوحًا والذی او حینا الیک وما وصینا بہ ابراھیم و موسیٰ و عیسیٰ ان اقیموالدین ولا تتفرقوا فیہ۔ (الشوریٰ: ۱۳)
’’اس (اللہ) نے تمہارے لیے دین کا وہی طریقہ مقرر کیا ہے جس کا حکم اس نے نوح علیہ السلام کو دیا تھا اور جسے (اے محمدؐ) اب تمہارے طرف ہم نے وحی کے ذریعہ سے بھیجا ہے اور جس کی ہدایت ابراہیم ؑ اور موسیٰ ؑ اور عیسیٰ ؑ کو دے چکے ہیں اس تاکید کے ساتھ کہ قائم کرو اس دین کو اور اس میں متفرق نہ ہو جائو‘‘
ان الدین عنہ اللہ الاسلام وما اختلف الذین اوتوا الکتب الا من بعد ماجاء ھم العلم بغیا بینھم۔ (آل عمران: ۱۹)
’’اللہ کے نزدیک دین صرف اسلام ہے۔ اس دین سے ہٹ کر جو مختلف طریقے ان لوگوں نے اختیار کیے جن کو کتاب دی گئی تھی‘ ان کے اس طرز عمل کی کوئی وجہ اس کے سوا نہ تھی کہ انہوں نے علم آجانے کے بعد آپس میں ایک دوسرے پر زیادتی کرنے کے لیے ایسا کیا‘‘
آسمانی مذاہب کے درمیان پائے جانے والے اختلافات کی اصل وجہ کو مذکورہ بالا آیت میں صاف طور پر بیان کر دیا گیا ہے۔
یہ امر بھی ایک ناقابل انکار حقیقت ہے کہ آسمانی کتب میں سے صرف قرآن کریم اور اللہ تعالیٰ کے نمائندگان فی الارض (انبیاء و رسل علیہم السلام) میں سے صرف محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہی ایک ایسی ہستی ہیں جن کی سیرت و رہنمائی اس وقت دنیا میں بلا کم و کاست محفوظ ہے۔ اور تاریخ شاہد ہے کہ جہاں گزشتہ انبیاء علیہم السلام کے اسوہ اور ان کی تعلیمات کا اس وقت صحیح صحیح موجود ہونا تو درکنار‘ ان کے دو چار سو سال بعد بھی ان کے ٹھیک ٹھیک دنیا میں موجود ہونے کا ثبوت نہیں ملتا‘ وہاں گزشتہ تیرہ چودہ سو سال کے نشیب و فراز اور ’’مسلمان قوم‘‘ کی ساری نالایقیوں اور گراوٹوں کے باوجود محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی معرفت آئی ہوئی پوری کی پوری تعلیمات آج بھی اسی طرح موجود و محفوظ ہیں جس طرح نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں چھوڑا تھا اور یہ کوئی اتفاق زمانہ کی بات نہیں‘ قرآن کریم نے بتا دیا ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے آخری رسولؐ ‘ قرآن اللہ کی آخرت کتاب اور یہ دونوں آئندہ ہمیشہ کے لیے ہدایت کا واحد ذریعہ ہیں اور اس نور ہدایت کو متلاشیان حق کے لیے قیامت تک محفوظ رکھنے کا ذمہ اللہ تعالیٰ نے خود لے لیا ہے۔ فرمایا:
انا نحن نزلنا الذکر وانا لہ لحافظون۔ (الحجر: ۹)
’’اس ذکر (قرآن کریم) کو ہم نے نازل کیا ہے اور ہم خود اس کے محافظ ہیں‘‘
اس بات کا ثبوت کہ یہ بات برحق ہے‘ کہیں باہر سے تلاش کرنے کی ضرورت نہیں‘ کتاب و سنت کا ایک ایک شوشہ آپ کی آنکھوں کے سامنے موجود ہے۔
یہی وجہ ہے کہ ’’طالبان حق‘‘ کے لیے اب اس کے سوا چارہ نہیں کہ دوسرے تمام سرچشمہ ہائے ہدایت (جنہیں لوگوں نے اپنی تحریف و تصرف سے گدلا کر دیا ہے) کو چھوڑ کر صرف قرآن کریم اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کی طرف رجوع کریں‘ اور انہی سے رہنمائی حاصل کریں‘ ان اختلافات مذہب کو دور کرنے کے لیے ہی تو اللہ تعالیٰ نے سابقہ تعلیمات کو جو مختلف اقوام اور مختلف ممالک میں ابتداء سے وقتاً فوقتاً نازل کی جاتی رہی تھیں‘ یکجا کرکے قرآن کریم اور خاتم النبیین ؐ کی سیرت مقدمہ میں ہمیشہ کے لیے محفوظ کر دیا‘ اور بتا دیا کہ اللہ کی طرف سے آنے والے سب ہادیوں کی یہی تعلیم تھی‘ وہ سب اللہ کے سچے پیغامبر اور برگزیدہ بندے تھے‘ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ان سب کو سچا تسلیم کرنا اور ان پر ایمان لانا مسلمان ہونے کے لیے لازمی شرط ہے‘ اور ان میں سے کسی ایک کا بھی انکار انسان کو دائرۂ حق پرستی (دین اسلام) سے خارج کر دیتا ہے۔ قرآن مجید میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا گیا:
قولو ا امنا باللہ وما انزل علینا وما انزل علیٰ ابراھیم و اسماعیل واسحاق ویعقوب والاسباط ومااوتی موسیٰ و عیسیٰ و النبیون من ربھم لا نفرق بین احد منھم و نحن لہ مسلمون۔ ومن یبتخ غیر الاسلام دیناً فلن یقبل منہ و ھو فی الاخرۃ من الخسرین۔ (۳:۸۴۔۸۵)
’’اے محمدؐ ‘ کہو‘ ہم اللہ کو مانتے ہیں‘ اس تعلیم کو مانتے ہیں جو ہم پر نازل کی گئی ہے‘ ان تعلیمات کو بھی مانتے ہیں جو ابراہیم ؑ ‘ اسماعیل ؑ ‘ اسحاق ؑ‘ یعقوب ؑ اور اولاد یعقوب علیہ السلام پر نازل ہوئی تھیں اور ان ہدایات پر بھی ایمان رکھتے ہیں جو موسیٰ ؑ اور عیسیٰ ؑاور دوسرے پیغمبروں کو ان کے رب کی طرف سے دی گئیں۔ ہم ان کے درمیان فرق نہیں کرتے اور ہم اللہ کے فرمانبردار (مسلم) ہیں۔ اس فرمانبرداری (اسلام) کے سوا جو شخص کوئی اور طریقہ اختیار کرنا چاہے وہ طریقہ ہرگز قبول نہ کیا جائے گا اور آخرت میں وہ ناکام و نامراد رہے گا‘‘
پس ہم لوگ جو قرآن مجید اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات اور ان کے عمل کو اب واحد سرچشمہ ہدایت کے طور پر پیش کرتے ہیں تو اس کی وجہ ہرگز یہ نہیں ہے کہ ہم خوانخواستہ خدا کی طرف سے بھیجے جانے والے پہلے رسولوں کے خلاف کسی تعصب یا ضد میں مبتلا ہیں۔ ایسی کسی بات کا ادنیٰ ارتکاب بھی خود اسلام کی رو سے کفر میں مبتلا ہونا ہے۔ ہم یہ بات اس لیے کہتے ہیں کہ مذکورہ چشمہ ہدایت کے سوا کسی اور نبی اور رسول کی تعلیم اپنی اصل اور بے آمیز صورت میں کہیں موجود نہیں ہے۔ خدا کے دین اور اس کے تعلیم کردہ ضابطہ حیات کو معلوم کرنے کی اب ایک ہی ممکن صورت ہے اور وہ یہ کہ قرآن مجید اور سنت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف رجوع کیا جائے۔ جو لوگ اپنے گرد و پیش کائنات میں پھیلے ہوئے کھلے ہوئے حقائق سے آنکھیں بند کرکے قیاس‘ فلسفوں اور تقلید آباء کی راہ پر چل رہے ہیں‘ ہم ان سے پوچھتے ہیں کہ خدا کے رسول تو انسانوں کو بہت سے خدائوں سے چھڑا کر ایک خدا کی بندگی اور حق پرستی‘ عدل و انصاف‘ سچائی‘ امانت و دیانت‘ پاکیزہ عائلی زندگی اور امن و سلامتی کی راہ دکھانے اور ان کی تعلیم دینے آتے ہیں‘ وہ بتائیں کہ کیا ایک خالق کائنات کے بجائے بہت سے رب‘ خالص حق پرستی کے بجائے یہ تعصبات و تنگ نظری‘ سچائی کے بجائے مکر و فریب‘ عدل و انصاف کے بجائے ظلم و ستم‘ امانت و دیانت کے بجائے خیانت و بے ایمانی‘ نکاح و پاکیزگی اخلاق کے بجائے روز افزوں جنسی آوارگیذ امن اور سلامتی اور صلہ رحمی کے بجائے مردم آزاری اور برادر کشی‘ مختصراً یہ کہ کیا خدا اور اس کے رسولوں کی تعلیمات اور آخرت کی جواب دہی سے بے نیاز زندگی کو کسی طرح سے بھی مذہبی تو درکنار شریفانہ زندگی بھی قرار دیا جا سکتا ہے‘ اگر ایسا نہیں ہے اور یقینا نہیں ہے تو کم سے کم ’’دین حق‘‘ اور اس کے لانے والے کی سیرت سے واقف ہونے کی تو تکلیف فرمائیے۔ کسی بات یا طریقے کو قبول یا رد کرنے کا سوال تو بعد میں پیدا ہوتا ہے لیکن اس طرز عمل کو آپ کیسے صحیح کہہ سکتے ہیں کہ آدمی دوسرے سے ضد کی بنا پر اپنی آخرت کو خطرے میں ڈال دے اور بھلائی کو صرف اس لیے جاننے کی بھی کوشش نہ کرے کہ وہ دوسرا شخص بھی (جس سے اسے کسی بنا پر نفرت ہوگئی ہے) اسے اختیار کیے ہوئے ہے؟ کیا آپ اس تعصب کی وجہ سے جو آپ کو اپنے ملک کی ’’مسلم قوم‘‘ سے مادی مفادات کے لیے مدتوں کی کشمکش کے نتیجے ہی سے پیدا ہوگیا ہے‘ ان سب سچائیوں اور بھلائیوں کو چھوڑ دیں گے جنہیں ان مسلمانوں نے اختیار کر رکھا ہے یا جن کی نسبت انہوں نے اپنی طرف کر رکھی ہے؟ ظاہر ہے کہ اس کو تو کوئی دانشمند آدمی عاقلانہ رویہ نہیں کہہ سکتا۔ نیکی اور بھلائی اور فلاح کی راہ تو انسان کو دوست دشمن جہاں سے ملے‘ حاصل کرلینی چاہئے اور پھر جب مسلمانوں سے تعصب کی بنا پر آپ نے وہ پانی پینا نہیں چھوڑا جو مسلمان پیتے ہیں‘ وہ رزق کھانا نہیں چھوڑا جو مسلمان کھاتے ہیں۔ زراعت‘ حفظان صحت‘ سائنس اور دوسرے قوانین طبعی اور وہ کاروبار کے اصول نہیں چھوڑے جو مسلمان بھی استعمال کرتے ہیں تو آخر انسانی فلاح کے لیے ان اصولوں کی جن کا نام عربی زبان میں ’’اسلام‘‘ یعنی اللہ کی اطاعت و بندگی کی راہ ہے‘ صرف اس بنا پر کیوں چھوڑ رہے ہو کہ مسلمان بھی اسے اپنے دین کہتے ہیں اور وہ بھی اسے اختیار کیے ہوئے ہیں؟
’’اسلام‘‘ کسی کی آبائی جائداد نہیں‘ یہ تو اسی کا ہے جو اس پر چلے‘ پاکستان یا ہندوستان کے لوگ اس پر چلیں تو ان کا ہے‘ عرب والے اس پر چلیں تو ان کا ہے‘ اور یورپ کے لوگ اسے اختیار کرلیں تو ان کا ہے۔ عبداللہ‘ رام داس‘ یا کرتارسنگھ کسی سے بھی ملک‘ قوم یا خاندان کی بنا پر اسے کوئی تعلق یا نفرت نہیں‘ اسے تو بس ان لوگوں کی ضرورت ہے جو اس راہ پر چلنے والے ہوں۔ خواہ ان کا کوئی ملک‘ قوم‘ رنگ یا خاندان ہو‘ حد یہ ہے کہ کسی بت گر کافر کا بیٹا اسے اختیار کرلے تو خلیل اللہ اور خدا کا دوست بن جائے گا اور نبی کا بیٹا اس پر چلنا چھوڑ دے تو وہ کفار و مشرکین میں شمار ہوگا‘ اور طوفان نوح میں غرق ہونے والے کے ساتھ ڈبو دیا جائے گا۔ اور پھر یہ دانشمندی تو نہیں ہے کہ انسانی فلاح کا ایک مکمل نظام جو خود خالق کل نے اپنے آخری رسولؐ کے ذریعے دیا‘ چودہ سو برس سے اپنی اصل صورت میں سرتاپا محفوظ ہے‘ اور تاریخ گواہ ہے کہ اس پر عملاً قائم ہونے والا نظام زندگی امن و سلامتی اور عدل و انصاف میں بس آپ ہی اپنی مثال تھا۔ اس نظام کا مطالعہ اور اس پر غور تک کرنے سے آدمی اس وجہ سے اجتناب کرے کہ اسے ایک ایسی قوم نے اپنی طرف منسوب کر رکھا ہے جس سے اس کی قوم کی سیاسی اور معاشی کشمکش ہے۔ حالانکہ اگر اس ملک کے مسلمانوں نے اس نظام زندگی کو فی الحقیقت اپنایا ہوتا اور اپنا طریق زندگی بنایا ہوتا تو یہاں کی پوری آبادی حق و صداقت اور فلاح انسانیت کی اس راہ پر متحد ہو کر شیر و شکر ہوگئی ہوتی۔ جن مسلمانوں سے ناراضی کی بنا پر آپ (ہمارے غیر مسلم بھائی) اسلام سے تعصب برت رہے ہیں‘ ان کا بحیثیت مجموعی اسلام سے اس سے زائد کیا واسطہ ہے کہ اپنے جلسوں جلوسوں میں ’’نعرہ تکبیر…… اللہ اکبر… اور ’’اسلام زندہ باد‘‘ کے نعرے لگا لیتے ہیں اور جمعہ اور عیدین کے موقعوں پر کچھ لوگ رکوع و سجود کر لیتے ہیں‘ باقی معاملات زندگی ان کے کاروبار‘ لین دین‘ تجارتیں‘ سیاست‘ معیشت‘ قانون‘ حکومت اور دوسرے قومی اور اجتماعی امور اور طور طریقے سب اسلام سے آزاد و بے نیاز اور اسی ڈگر پر چل رہے ہیں جو دوسری اقوام کی ہے اور ہمارے اور آپ کے مشترک غیر ملکی آقائوں نے اس ملک میں رائج کی ہے۔ اس لیے مسلمانوں سے ضد میں اس خدا کے مقرر کردہ نظام سے تعصب برتنا‘ جو صرف مسلمانوں کا خدا نہیں ہے بلکہ رب الناس‘ ملک الناس اور الٰہ الناس ہے‘ کسی اور کا نہیں‘ اپنا ہی سب کچھ بگاڑنا ہے۔
پھر جب آپ پانی تک اسی خداوند عالم کا پیتے ہیں‘ رزق اس کا کھاتے ہیں‘ سانس اس کی ہوا میں لیتے ہیں‘ اپنے کھیت‘ کارخانے اور ورکشاپ میں اسی کے قوانین قدرت (Laws of Nature)کے مطابق عمل کرتے ہیں‘ صحت و تندرستی دیکھتے‘ سننے‘ سونگھنے‘ چھونے‘ گرمی و سردی سے استفادہ کرنے اور اپنے دل و دماغ اور اپنے گرد و پیش پھیلے ہوئے وسائل اور قوتوں کے سلسلے میں خدا ہی کے قوانین اور ضوابط قدرت پر چلتے ہیں اور یہ امر واقعہ بھی آپ کے سامنے ہے کہ طبعی و تکوینی دائرہ زندگی میں انسانی کامیابی و ترقی کا سارا انحصار خالق کائنات کے مقرر کردہ قوانین قدرت کو جاننے اور ٹھیک ٹھیک ان کے مطابق کام کرنے پر ہے‘ تو یہ بات سمجھنے میں کیا اور کیوں دشواری پیش آرہی ہے کہ انسانی زندگی کے اخلاقی‘ معاشرتی‘ اقتصادی و سیاسی یعنی اختیاری و نشریعی دائرے میں بھی انسانی فلاح و عافیت اور حقیقی و پائیدار ترقی و کامیابی کی راہ خدا کے مقرر کردہ قوانین قدرت (شریعت الٰہی) پر چلنے پر ہی منحصر ہے۔ لہٰذا طبعی و تکوینی زندگی کی طرح اپنے اختیار دائرہ زندگی میں بھی سرکشی اور دوسروں کی غلامی اور نقالی چھوڑ کر اس کے مقرر کردہ قوانین حیات پر چل کر ذرا دیکھ تو لو۔
خدا کے لیے ان بے اصل تعصبات اور عصبیتوں کو بالائے طاق رکھ کر کھلے دل سے خدا کی آخری کتاب اور اس کے آخری رسولؐ کی تعلیمات کا مطالعہ کیجئے۔ وقت بہت تیزی سے گزر رہا ہے اور زندگی گھڑی کی چابی کی طرح سے ختم ہوتی چلی جارہی ہے۔ کیا عجب ہے کہ اللہ کے دین کا پرچم از سر نو بلند کرنے کاکام اب اسی ملک کے بسنے والوں سے لیا جائے اورپوری انسانیت جو اس وقت انسان نما درندوں کے ہاتھوں جان بلب ہو رہی ہے‘ اس تک اب انہی کے ہاتھوں یہ آب حیات پہنچایا جانا مقدر ہو چکا ہو۔ دعوت حق کا اس منزہ شکل میں اس دیار سے اٹھنا اور حضور کا پونے چودہ سو برس پہلے یہ مژدہ سنانا کہ مشرق سے مجھے ٹھنڈی ہوا آرہی ہے‘ کیا عجب کہ اس کے رنگ لانے کا وقت آگیا ہو اور یہ سعادت اللہ اسی دور کے لوگوں کو عطا فرما دے۔
انسانی تاریخ کے اس نازک ترین مرحلے پر اب مسلمانوں کو بھی متنبہ ہو جانا چاہئے کہ یا تو وہ اپنی ذمہ داری کو سمجھ کر اور شاہراہ اسلام پر سیدھی طرح قائم ہو کہ اس کی طرف دنیا کی رہنمائی کریں اور انبیاء علیہم السلام کے صحیح جانشین بن کر اپنے سپرد خدائی مشن کو سرانجام دینے کے لیے تیار ہو جائیں یا پھر اپنے اعمال و اخلاق سے اسلام کے لیے بدنامی کا موجب نہ بنیں کہ دنیا ان کے اخلاق اور طرز عمل کو اسلامی اخلاق اور اسلامی طرز عمل کا نمونہ سمجھ کر اسلام سے بدظن ہو رہی ہے‘ کہیں ایسا نہ ہو کہ خدا کے دین کی اس غلط نمائندگی پر غضب الٰہی بھڑک اٹھے۔
اللھم مصرف القلوب صرف قلوبنا علٰی طاعتک یا مقلب القلوب ثبت قلبی (و قلوب قومنا) علٰی دینک۔
’’اے اللہ دلوں کے پھیرنے والے! ہمارے دلوں کو اپنی اطاعت کی طرف پھیر دے۔ اے دلوں کے بدلنے والے! میرے (اور میری قوم کے) دل کو اپنے دین پر جما دے‘‘
ربنا لا تزع قلوبنا بعد اذھدیتنا وھب لنا من لدنک رحمۃ انک انت الوھاب۔ (آل عمران: ۸)
’’اے پروردگار! ہمیں راہ ہدایت دکھانے کے بعد ہمارے دلوں کو کجی میں مبتلا نہ ہونے دے‘ ہمیں اپنی رحمت سے نواز‘ تو ہی فیاض حقیقی ہے‘‘