Search
Close this search box.

فہرست موضوعات

دیباچہ
مقدمہ
باب اول:
دین و سیاست
۱۔مذہب کا اسلامی تصور
۲۔ اسلامی ریاست کیوں؟
۳۔ اسلام اور اقتدار
۴۔ دین و سیاست کی تفریق کا باطل نظریہ اورقصۂ یوسف ؑ سے غلط استدلال
۵۔ تفریق دین و سیاست کا دفاع اور اس کا جائزہ
باب ٢
اسلام کا سیاسی نظریہ
۱۔بنیادی مُقدّمات
۲۔ نظریۂ سیاسی کے اوّلین اصول
۳۔ اسلامی ریاست کی نوعیت
۴۔ اسلامی ریاست کی خصوصیات
۵۔ نظریۂ خلافت اور اس کے سیاسی مضمرات
باب۳ قرآن کا فلسفہ ٔ سیاست
۱۔علم سیاست کے بنیادی سوال
۲۔ چند بنیادی حقیقتیں
۳۔اسلامی تصورِ حیات
۴۔ دین اور قانونِ حق
۵۔حکومت کی ضرورت اور اہمیت
۶۔ تصور حاکمیت و خلافت
۷۔ اصول اطاعت ووفاداری
باب ۴
معنی ٔ خلافت
باب ۵
۱۔اسلامی تصور قومیت
۲۔ اسلامی قومیت کا حقیقی مفہوم
باب۶
اسلام کے دستوری قانون کے مآخذ
ا۔قرآن مجید
۲۔ سنتِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ۸۴؎
۳۔خلافتِ راشدہ کا تعامل
۴۔ مجتہدینِ امت کے فیصلے
ضمیمہ باب ۶: سنت ِرسولؐ اللہ بحیثیت ِ مآ خذ ِقانون
باب۷
اسلامی ریاست کی بنیادیں
۱۔حاکمیت کس کی ہے؟
۲۔ ریاست کے حدودِ عمل
۳۔ اعضائے ریاست کے حدودِ عمل اور ان کا باہمی تعلق
۴۔ ریاست کا مقصدِ وجود
۵۔حکومت کی تشکیل کیسے ہو؟
۶۔اولی الامر کے اوصاف
۷۔ شہریت اور اس کی بنیادیں
۸۔ حقوقِ شہریت
۹۔شہریوں پر حکومت کے حقوق
باب ۸
اسلامی دستور کی بنیادیں
۱۔حاکمیت الٰہی
۲۔ مقامِ رسالت
۳۔ تصورِ خلافت
۴۔ اصولِ مشاورت
۵۔اصولِ انتخاب
۶۔عورتوں کے مناصب
۷۔ حکومت کا مقصد
۸۔ اولی الامر اور اصولِ اطاعت
۹۔ بنیادی حقوق اور اجتماعی عدل
۱۰۔فلاحِ عامہ
باب ۹
۱۔ دورِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم
۲۔ خلافتِ راشدہ
باب ۱۰
۱۔ اسلام میں قانون سازی کا دائرۂ عمل اور اس میں اجتہاد کا مقام
۲۔قانون سازی‘ شوریٰ اور اجماع
۳۔نظام اسلامی میں نزاعی امور کے فیصلے کا صحیح طریقہ
باب۱۱
۱۔ اسلامی ریاست کے چند پہلو
۲۔خلافت و حاکمیت۲۰۳؎
۳۔ ملکی سیاست میں عورتوں کا حصہ
۴۔ذمیوں کے حقوق۲۱۱؎
(۵) ذمیوں کے حقوق۲۱۶؎
۶۔چند متفرق مسائل
باب ۱۲
انسان کے بنیادی حقوق
باب۱۳
غیر مسلموں کے حقوق
باب۱۴
اسلام اور عدلِ اجتماعی
باب ۱۵
اسلامی ریاست کے رہنما اُصول
باب۱۶
۱۔اسلامی انقلاب کی راہ
ضمیمہ نمبر ۱
ضمیمہ نمبر ۲

اسلامی ریاست

اسلام ایک کامل دین اور مکمل دستور حیات ہے اسلام جہاں انفرادی زندگی میں فردکی اصلاح پر زور دیتا ہے وہیں اجتماعی زندگی کے زرین اُصول وضع کرتا ہے جوزندگی کے تمام شعبوں میں انسانیت کی راہ نمائی کرتا ہے اسلام کا نظامِ سیاست وحکمرانی موجودہ جمہوری نظام سے مختلف اوراس کے نقائص ومفاسد سے بالکلیہ پاک ہے۔ اسلامی نظامِ حیات میں جہاں عبادت کی اہمیت ہے وہیں معاملات ومعاشرت اور اخلاقیات کو بھی اولین درجہ حاصل ہے۔ اسلام کا جس طرح اپنا نظامِ معیشت ہے اور اپنے اقتصادی اصول ہیں اسی طرح اسلام کا اپنا نظامِ سیاست وحکومت ہےاسلامی نظام میں ریاست اور دین مذہب اور سلطنت دونوں ساتھ ساتھ چلتے ہیں، دونوں ایک دوسرے کی تکمیل کرتے ہیں دونوں ایک دوسرے کے مددگار ہیں، دونوں کے تقاضے ایک دوسرے سے پورے ہوتے ہیں، چنانچہ ماوردی کہتے ہیں کہ جب دین کمزور پڑتا ہے تو حکومت بھی کمزور پڑ جاتی ہے اورجب دین کی پشت پناہ حکومت ختم ہوتی ہے تو دین بھی کمزور پڑ جاتا ہے، اس کے نشانات مٹنے لگتے ہیں۔ اسلام نے اپنی پوری تاریخ میں ریاست کی اہمیت کوکبھی بھی نظر انداز نہیں کیا۔انبیاء کرامؑ وقت کی اجتماعی قوت کواسلام کےتابع کرنے کی جدوجہد کرتے رہے۔ ان کی دعوت کا مرکزی تخیل ہی یہ تھا کہ اقتدار صرف اللہ تعالیٰ کےلیے خالص ہو جائے اور شرک اپنی ہر جلی اور خفی شکل میں ختم کردیا جائے ۔قرآن کےمطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت یوسف ،حضرت موسی، حضرت داؤد، اور نبی کریم ﷺ نے باقاعدہ اسلامی ریاست قائم بھی کی اور اسے معیاری شکل میں چلایا بھی۔اسلامی فکر میں دین اورسیاست کی دوری کاکوئی تصور نہیں پایا جاتا اور کا اسی کانتیجہ ہے کہ مسلمان ہمیشہ اپنی ریاست کواسلامی اصولوں پر قائم کرنے کی جدوجہد کرتے رہے۔ یہ جدوجہد ان کے دین وایمان کاتقاضا ہے۔قرآن پاک اور احادیث نبویہ میں جس طرح اخلاق اور حسنِ کردار کی تعلیمات موجود ہیں۔اسی طرح معاشرت،تمدن اور سیاست کے بارے میں واضح احکامات بھی موجود ہیں۔ زیر نظر کتاب’’اسلامی ریاست‘‘مفکرِ اسلام مولا نا سید ابو الاعلیٰ مودودی کی کی تصنیف ہے ۔جس میں انھوں نے بیک وقت ان دونوں ضرورتوں کو پورا کرنے کی کما حقہ کوشش کی ہے ۔ ایک طرف انھوں نے اسلام کےپورے نظام حیات کودینی اور عقلی دلائل کےساتھ اسلام کی اصل تعلیمات کودورحاضر کی زبان میں پیش کیاہے ۔ ان کی تحریرات کےمطالعہ سے قاری کوزندگی کے بارے میں اسلام کے نقظہ نظر کا کلی علم حاصل ہوتا ہے اوروہ پوری تصویر کو بیک نظر دیکھ سکتا ہے۔انھوں نےہر مرعوبیت سے بالا تر ہوکر دورحاضرکے ہر فتنہ کا مقابلہ کیا اور اسلام کے نظام زندگی کی برتری اورفوقیت کوثابت کیا ہے۔پھر یہ بھی بتایا ہےکہ اس نظام کودور حاضر میں کیسے قائم کیا جاسکتا ہے اور آج کے اداروں کوکس طرح اسلام کے سانچوں میں ڈھالا جاسکتاہے ۔انھوں نے اسلامی ریاست کے ہمہ پہلوؤں کی وضاحت کرتے ہوئےدور جدید کے تقاضوں کوسامنے رکھ کر اسلامی ریاست کا مکمل نقشہ پیش کیاہے ۔کتاب ہذا دراصل مولانامودودی کے منتشر رسائل ومضامین کامجموعہ ہے جسے پروفیسر خورشید احمد صاحب (مدیر ماہنامہ ترجمان القرآن)نے بڑے حسن ترتیب سے مرتب کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ مصنف ومرتب کی اشاعتِ اسلام کےلیے کی جانے والی تمام کاوشوں کو قبول فرماے۔آمین

غیر مسلموں کے حقوق

اسلامی حکومت میں غیر مسلموں کے حقوق پر بحث کرنے سے پہلے یہ ذہن نشین کرلینا ضروری ہے کہ اسلام کی حکومت دراصل ایک اصولی (ideological)حکومت ہے اور اس کی نوعیت ایک قومی جمہوری (national democratic)حکومت سے قطعاً مختلف ہے۔ دونوں قسم کی مختلف ریاستوں کے اس نوعی فرق کا مسئلۂ زیر بحث پر کیا اثر پڑتا ہے، اس کو حسب ذیل نکات سے اچھی طرح سمجھا جاسکتا ہے:
۱۔اسلامی حکومت اپنے حدود میں رہنے والے لوگوں کو اس لحاظ سے تقسیم کرتی ہے کہ کون ان اصولوں کو مانتے ہیں جن پر اسلامی حکومت کی بنا رکھی گئی ہے اور کون انھیں نہیں مانتے‘ یعنی مسلم اور غیر مسلم۔
۱۔قومی حکومت انھیں اس لحاظ سے تقسیم کرتی ہے کہ کون لوگ اس قوم سے تعلق رکھتے ہیں جو دراصل ریاست کو بنانے اور چلانے والی ہے اور کون لوگ اس سے تعلق نہیں رکھتے‘ آج کل کی اصطلاح میں اس کے لیے اکثریت اور اقلیت کے الفاظ استعمال کیے جاتے ہیں۔
۲۔اسلامی حکومت کو چلانا دراصل ان لوگوں کا کام ہوتا ہے جو اس کے اصولوں کو مانتے ہوں۔ وہ اپنے انتظام میں غیر مسلموں کی خدمات تو ضروراستعمال کرسکتی ہے، مگر رہنمائی اور کارفرمائی کے مناصب انھیں نہیں دے سکتی۔
۲۔قومی حکومت اپنی رہنمائی و کار فرمائی کے لیے صرف اپنے افراد قوم ہی پر اعتماد کرتی ہے اور دوسری قلیل التعداد قومیں جو اس کے شہریوں میں شامل ہوں‘ اس اعتماد کی مستحق نہیں ہوتیں۔ یہ بات چاہے صاف صاف کہی نہ جاتی ہو‘ مگر عملاً ہوتا اسی طرح ہے، اور اگر اقلیت کے کسی فرد کو کبھی کوئی کلیدی منصب دیا بھی جاتا ہے تو یہ محض ایک نمائشی حرکت ہوتی ہے۔ پالیسیوں کی تشکیل میں فی الحقیقت اس کا کوئی دخل نہیں ہوتا۔
۳۔اسلامی حکومت عین اپنی نوعیت ہی کے لحاظ سے اس بات پر مجبور ہے کہ مسلموں اور غیر مسلموں کے درمیان واضح امتیاز قائم کرے اور صاف صاف بتا دے کہ وہ غیرمسلموں کو کیا حقوق دے سکتی ہے اور کیا نہیں دے سکتی۔
۳۔قومی حکومت کے لیے یہ منافقانہ چال بازی آسان ہے کہ وہ ملک کے تمام باشندوں کو نظریے کے اعتبار سے ایک قوم قرار دے کر کاغذ پر سب کو مساوی حقوق دے دے‘ مگر عملاً اکثریت اور اقلیت کا پورا امتیاز قائم رکھے اور زمین پر اقلیتوں کو کسی قسم کے حقوق نہ دے۔
۴۔اسلامی حکومت کو اپنے نظام میں غیر مسلم عناصر کی موجودگی سے جو پیچیدگی پیش آتی ہے اسے وہ اس طرح حل کرتی ہے کہ انھیں متعین حقوق کا ذمہ (guarantee) دے کر مطمئن کر دیتی ہے‘ اپنے اصولی نظام کے حل و عقد میں ان کی مداخلت روک دیتی ہے اور ان کے لیے ہر وقت یہ دروازہ کھلا رکھتی ہے کہ اگر اسلام کے اصول انھیں پسند آجائیں تو وہ انھیں قبول کرکے حکمران جماعت میں شامل ہو جائیں۔
۴۔قومی حکومت کو اپنے نظام میں غیر قومی عناصر کی شمولیت سے جو پیچیدگی پیش آتی ہے اسے حل کرنے کے لیے وہ تین مختلف تدبیریں اختیار کرتی ہے۔ ایک یہ کہ: ان کی انفرادیت کو بتدریج مٹا کر اپنے اندر جذب کرلے۔ دوسرے یہ کہ: ان کی ہستی کو محو کرنے کے لیے قتل و غارت اور اخراج کے ظالمانہ طریقے اختیار کرے۔ تیسرے یہ کہ: ان کو اپنے اندر اچھوت بنا کر رکھ دے۔ یہ تینوں تدبیریں دنیا کی قومی جمہوری ریاستوں میں بکثرت اختیار کی گئی ہیں‘ اب تک کی جارہی ہیں اور آج ہندستان میں خود مسلمانوں کو ان کا تلخ تجربہ ہو رہا ہے۔
۵۔اسلامی حکومت ذمی غیر مسلموں کو وہ تمام حقوق دینے پر مجبور ہے جو شریعت نے ان کے لیے مقرر کیے ہیں۔ ان حقوق کو سلب کرنے یا ان میں کمی کرنے کا اختیار کسی کو نہیں ہے، البتہ مسلمانوں کو یہ اختیار ضرور حاصل ہے کہ وہ ان حقوق کے علاوہ کچھ مزید حقوق انھیں عطا کر دیں‘ بشرطیکہ یہ اضافہ اسلام کے اصولوں سے متصادم نہ ہوتا ہو۔
۵۔قومی جمہوری حکومت میں اقلیتوں کو جو حقوق بھی دیے جاتے ہیں وہ اکثریت کے عطا کردہ ہوتے ہیں اور اکثریت جس طرح انھیں عطا کرنے کا حق رکھتی ہے اسی طرح وہ ان میں کمی بیشی کرنے اور بالکل سلب کر لینے کا بھی حق رکھتی ہے۔ پس درحقیقت اس نظام میں اقلیتیں سراسر اکثریت کے رحم پر جیتی ہیں اور ان کے لیے ابتدائی انسانی حقوق تک کی کوئی پایدار ضمانت نہیں ہوتی۔
یہ بنیادی اختلافات ہیں جو ذمیوں کے ساتھ اسلام کے سلوک اوراقلیتوں کے ساتھ قومی جمہوریتوں کے سلوک کو ایک دوسرے سے بالکل ممتاز کر دیتے ہیں۔ جب تک انھیں پیش نظر نہ رکھا جائے‘ انسان خلط مبحث سے نہیں بچ سکتا اور نہ اس غلط فہمی سے محفوظ رہ سکتا ہے کہ موجودہ زمانے کی قومی جمہوریتیں تو اپنے دستوروں میں اقلیتوں کو بالکل مساویانہ حقوق دیتی ہیں، مگر اسلام اس معاملے میں تنگ نظری سے کام لیتا ہے۔
ان ضروری توضیحات کے بعد اب ہم اپنے اصل موضوع کی طرف رجوع کرتے ہیں:
۱۔غیر مسلم رعایا کی اقسام
اسلامی قانون اپنی غیر مسلم رعایا کو تین اقسام پر تقسیم کرتا ہے:
٭ ایک وہ جو کسی صلح نامے یا معاہدے کے ذریعے سے اسلامی حکومت کے تحت آئے ہوں۔
٭ دوسرے وہ جو لڑنے کے بعد شکست کھا کر مغلوب ہوئے ہوں۔
٭ تیسرے وہ جو جنگ اورصلح دونوں کے سوا کسی اور صورت سے اسلامی ریاست میں شامل ہوئے ہوں۔
یہ تینوں اگرچہ ذمیوں کے عام حقوق میں یکساں شریک ہیں‘ لیکن پہلے دونوں گروہوں کے احکام میں تھوڑا سا فرق بھی ہے، اس لیے اہل الذمہ کے حقوق کی تفصیلات بیان کرنے سے پہلے ہم ان مخصوص گروہوں کے جدا جدا احکام بیان کریں گے:
معاہدین
جو لوگ جنگ کے بغیر، یا دوران جنگ میں اطاعت قبول کرنے پر راضی ہو جائیں اور حکومت اسلامی سے مخصوص شرائط طے کرلیں، ان کے لیے اسلام کا قانون یہ ہے کہ ان کے ساتھ تمام معاملات ان شرائط صلح کے تابع ہوں گے جو ان سے طے ہوئی ہوں۔ دشمن کو اطاعت پر آمادہ کرنے کے لیے چند فیاضانہ شرائط طے کرلینا اورپھر جب وہ پوری طرح قابو میں آجائے تو اس کے ساتھ مختلف برتائو کرنا آج کل کی مہذب قوموں کے سیاسی معمولات میں سے ہے‘ مگر اسلام اس کو ناجائز بلکہ حرام اور گناہ عظیم قرار دیتا ہے۔ اس کے نزدیک یہ ضروری ہے کہ جب کسی قوم کے ساتھ کچھ شرائط طے ہو جائیں (خواہ وہ مرغوب ہوں‘ یا نہ ہوں) تو اس کے بعد ان شرائط سے یک سر مُو تجاوز نہ کیا جائے‘ بلالحاظ اس کے کہ فریقین کی اعتباری حیثیت اور طاقت و قوت (relative position)میں کتنا ہی فرق آ جائے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:
لَعَلَّکُمْ تُقَاتِلُوْنَ قَوْمًا فَتَظْھَرُوْنَ عَلَیْھِمْ فَیَتَّقُوْنَکُمْ بِاَمْوَالِھِمْ دُوْنَ اَنْفُسِھِمْ وَاَبْنَائِھِمْ قَالَ سَعِیْدٌ فِیْ حَدِیْثِہٖ فَیُصَالِحُوْنَکُمْ عَلٰی صُلْحٍ فَلاَ تُصِیْبُوْا مِنْھُمْ فَوْقَ ذٰلِکَ فَاِنَّہ‘ لَایَصْلُحُ لَکُمْ۔ (ابودائود‘ حدیث ۳۰۲۷)
اگر تم کسی قوم سے لڑو اور اس پر غالب آجائو اور وہ قوم اپنی اور اپنی اولاد کی جان بچانے کے لیے تم کو خراج دینا منظور کر لے (ایک اور حدیث میں ہے کہ تم سے صلح نامہ طے کرلے) تو پھر بعد میں اس مقررہ خراج سے ایک حبہ (دانہ)بھی زائد نہ لینا کیونکہ وہ تمھارے لیے ناجائز ہوگا۔
ایک اور حدیث میں ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
اَلاَ مَنْ ظَلَمَ مُعَاھِدًا اَوِ انْتَقَصَہ‘ اَوْکَلَّفَہ‘ فَوْقَ طَاقَتِہٖ اَوْ اَخَذَ مِنْہُ شَیْئًا بِغَیْرِ طِیْبِ نَفْسٍ فَاَنَا حَجِیْجُہ‘ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ۔ (ابودائود، حدیث ۳۰۲۸)
خبردار! جو شخص کسی معاہد پر ظلم کرے گا، یا اس کے حقوق میں کمی کرے گا، یا اس کی طاقت سے زیادہ اس پر بار ڈالے گا‘ یا اس سے کوئی چیز اس کی مرضی کے خلاف وصول کرے گا‘ اس کے خلاف قیامت کے دن میں خود مستغیث بنوں گا۔
ان دونوں حدیثوں کے الفاظ عام ہیں اور ان سے یہ قاعدہ کلیہ مستنبط ہوتا ہے کہ معاہد ذمیوں کے ساتھ صلح نامے میں جو شرائط طے ہو جائیں اُن میں کسی قسم کی کمی یا زیادتی کرنا ہرگزجائز نہیں ہے۔ نہ ان پر خراج بڑھایا جاسکتا ہے‘ نہ ان کی زمینوں پر قبضہ کیا جاسکتا ہے‘ نہ ان کی عمارتیں چھینی جاسکتی ہیں‘ نہ ان پر سخت فوج داری قوانین نافذ کیے جاسکتے ہیں‘ نہ ان کے مذہب میں دخل دیا جاسکتا ہے‘ نہ ان کی عزت و آبرو پر حملہ کیا جاسکتا ہے اور نہ کوئی ایسا فعل کیا جاسکتا ہے جو ظلم یا انتقاص‘ یا تکلیف مَالاَیطاق‘ یا اخذ بغیر طیب نفس کی حدود میں آتا ہو۔ انھی احکام کی بنا پر فقہائے اسلام نے صلحًا فتح ہونے والی قوموں کے متعلق کسی قسم کے قوانین مدوّن نہیں کیے ہیں اور صرف یہ عام قاعدہ وضع کرکے چھوڑ دیا ہے کہ ان کے ساتھ ہمارا معاملہ بالکل شرائط صلح کے مطابق ہوگا۔ امام ابویوسفؒ لکھتے ہیں:
یُؤْخَذُ مِنْھُمْ مَاصُوْلِحُوْا عَلَیْہِ وَیُوَ فّٰی لَھُمْ وَلَایُزَادُ عَلَیْھِمْ۔ (کتاب الخراج،ص۳۵)
ان سے وہی لیا جائے گا جس پر ان کے ساتھ صلح ہوئی ہے‘ ان کے حق میں صلح کی شرائط پوری کی جائیں گی‘ اور ان پر کچھ اضافہ نہ کیا جائے گا۔
مفتوحین
دوسری قسم میں وہ لوگ شامل ہیں جو آخر وقت تک مسلمانوں سے لڑتے رہے ہوں اور جنھوں نے اس وقت ہتھیارڈالے ہوں، جب اسلامی فوجیں ان کے استحکامات کو توڑ کر ان کی بستیوں میں فاتحانہ داخل ہو چکی ہوں۔ اس قسم کے مفتوحین کو جب ذمی بنایا جاتا ہے تو ان کو چند خاص حقوق دیے جاتے ہیں۔ جن کی تفصیلات فقہی کتابوں میں موجود ہیں۔ ذیل میں ان احکام کا خلاصہ دیا جاتا ہے جن سے ذمیوں کی اس جماعت کی آئینی حیثیت واضح ہو تی ہے:
۱۔ جب امام ان سے جزیہ قبول کرلے تو وہ ہمیشہ کے لیے عقد ذمہ قائم ہو جائے گا‘ اور ان کی جان ومال کی حفاظت کرنا مسلمانوں پر فرض ہوگا‘ کیونکہ قبولِ جزیہ کے ساتھ ہی عصمت نفس و مال ثابت ہو جاتی ہے۔۲۳۵؎ اس کے بعد امام کو یا مسلمانوں کو یہ حق باقی نہیں رہتا کہ ان کی املاک پر قبضہ کریں یا انھیں غلام بنالیں۔ حضرت عمرؓ نے حضرت عبیدہؓ کو صاف لکھا تھا کہ:
فَاِذَا اَخَذْتَ مِنْھُمُ الْجِزْیَۃَ فَلاَ شَیْئَ لَکَ عَلَیْھِمْ وَلَاسَبِیْلَ۔ (کتاب الخراج، ص ۸۲)
جب تم ان سے جزیہ قبول کرلو تو پھر تم کو ان پر دست درازی کا کوئی حق باقی نہیں رہتا۔
۲۔ عقد ذمہ قائم ہو جانے کے بعد اپنی زمینوں کے مالک وہی ہوں گے۔ ان کی ملکیت ان کے ورثا کو منتقل ہوگی‘ اور ان کو اپنے املاک میں بیع‘ ہبہ‘ رہن وغیرہ کے جملہ حقوق حاصل ہوں گے۔ اسلامی حکومت کو انھیں بے دخل کرنے کا حق نہ ہوگا۔ (فتح القدیر، ج۴،ص ۳۵۹)
۳۔ جزیے کی مقدار ان کی مالی حالت کے لحاظ سے مقرر کی جائے گی۔ جو مال دار ہیں ان سے زیادہ، جو متوسط الحال ہیں ان سے کم‘ اور جو غریب ہیں ان سے بہت کم لیا جائے گا، اور جو کوئی ذریعۂ آمدنی نہیں رکھتے‘ یاجن کی زندگی کا انحصار دوسروں کی بخشش پر ہے‘ ان کو جزیہ معاف کردیا جائے گا۔ اگرچہ جزیے کے لیے کوئی خاص رقم مقرر نہیں ہے‘ لیکن اس کی تعیین میں یہ امر مدنظر رکھنا ضروری ہے کہ ایسی رقم مقرر کی جائے جس کا ادا کرنا ان کے لیے آسان ہو۔ حضرت عمرؓ نے مال داروں پر ایک روپیہ ماہانہ‘ متوسط الحال لوگوں پرآٹھ آنے مہینہ اور غریب محنت پیشہ لوگوں پر چار آنے مہینہ جزیہ مقرر کیا تھا۔ (کتاب الخراج، ص۳۶)
۴۔ جزیہ صرف ان لوگوں پر لگایا جائے گا جو اہلِ قتال (combatants)ہیں۔ غیراہلِ قتال‘ مثلاً: بچے، عورتیں‘ دیوانے‘ اندھے‘ اپاہج‘ عبادت گاہوں کے خادم‘ راہب‘ سنیاسی، ازکار رفتہ بوڑھے‘ ایسے بیمار جن کی بیماری سال کے ایک بڑے حصے تک ممتد ہو جائے‘ اورلونڈی‘ غلام وغیرہ جزیے سے مستثنیٰ ہیں۔۲۳۶؎
۵۔ بزور شمشیر فتح ہونے والے شہر کے معابد پر مسلمانوں کو قبضہ کرلینے کا حق ہے۔ لیکن اس حق سے استفادہ نہ کرنا اور بہ طریق احسان ان کو علیٰ حالہ قائم رہنے دینا اولیٰ اور افضل ہے۔ حضرت عمرؓ کے زمانے میں جتنے ممالک فتح ہوئے ان میں کوئی معبد نہ توڑا گیا اور نہ اس سے کسی قسم کا تعرض کیا گیا۔ امام ابو یوسفؒ لکھتے ہیں:
تُرِکَتْ عَلٰی حَالِھاَ وَلَمْ تُدْھَمْ وَلَمْ یُتَعَرَّضْ لَھَا۔۲۳۷؎
ان کو ان کے حال پر چھوڑ دیا گیا‘ نہ مسمار کیا گیا اور نہ ان سے کسی قسم کا تعرض کیا گیا۔
قدیم معابد کو مسمار کرنا بہرحال ناجائز ہے۔۲۳۸؎
۲۔ذمیوں کے عام حقوق
اب ہم ذمیوں کے وہ حقوق بیان کریں گے جن میں تینوں اقسام کے اہل الذمہ شریک ہیں:
حفاظتِ جان
ذمی کے خون کی قیمت مسلمان کے خون کے برابر ہے۔ اگر کوئی مسلمان ذمی کو قتل کرے گا تو اس کا قصاص اسی طرح لیا جائے گا جس طرح مسلمان کو قتل کرنے کی صورت میں لیا جاتا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ایک مسلمان نے ایک ذمی کو قتل کیا تو آپ نے اس کے قتل کا حکم دیا اور فرمایا کہ:
اَنَا اَحَقُّ مَنْ وَفٰی بِذِمَّتِہٖ ۔۲۳۹؎
اپنے ذمہ کو وفا کرنے کا سب سے زیادہ حق دار میں ہوں۔
حضرت عمرؓ کے زمانے میں قبیلہ بکر بن وائل کے ایک شخص نے حیرہ کے ایک ذمی کو قتل کردیا۔ اس پر آپ نے حکم دیا کہ قاتل کو مقتول کے ورثا کے حوالے کیا جائے۔ چنانچہ وہ مقتول کے وارثوں کو دے دیا گیا اور انھوں نے اس کو قتل کر دیا۔۲۴۰؎
حضرت عثمانؓ کے زمانے میں خود عبید اللہ بن عمرؓ کے قتل کا فتویٰ دے دیا گیا تھا کیونکہ انھوں نے ہرمزان اور ابو لئولو کی بیٹی کو اس شبہے میں قتل کر دیا تھا کہ شاید وہ حضرت عمرؓ کے قتل کی سازش میں شریک تھے۔
حضرت علیؓ کے زمانے میں ایک مسلمان، ایک ذمی کے قتل میں ماخوذ ہوا۔ ثبوت مکمل ہونے کے بعد آپ نے قصاص کا حکم دے دیا۔ مقتول کے بھائی نے آکر عرض کیا: میں نے خون معاف کیا، مگر آپ مطمئن نہ ہوئے اور فرمایا:
لَعَلَّھُمْ فَزَعُوْکَ اَوْھَدَّدُوْکَ۔
شاید ان لوگوں نے تجھے ڈرایا دھمکایا ہے۔
اس نے جواب دیا کہ: نہیں۔ مجھے خون بہا مل چکا ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ اس کے قتل سے میرا بھائی واپس نہیں آجائے گا۔
تب آپ نے قاتل کو رہا کیا اور فرمایا کہ:
مَنْ کَانَ لَہ‘ ذِمَّتُنَا فَدَمُہ‘کَدَمِنَا وَدِیَّتُہ‘ کَدِیَّتِنَا۔۲۴۱؎
جو کوئی ہمارا ذمی ہو، اس کا خون ہمارے خون کی طرح اور اس کی دیت ہماری دیت کی طرح ہے۔
ایک دوسری روایت کے مطابق حضرت علیؓ نے فرمایا:
اِنَّمَا قَبِلُوْا عُقْدَ الذِّمَّۃِ لِتَکُوْنَ اَمْوَالُھُمْ کَاَمْوَالِنَا وَدِمَاؤُھُمْ کَدِمَائِنَا۔
انھوں نے عقدِ ذمہ قبول ہی اس لیے کیا ہے کہ ان کے مال ہمارے مال کی طرح اور ان کے خون ہمارے خون کی طرح ہو جائیں۔
اسی بنا پر فقہا نے یہ جزئیہ نکالا ہے کہ اگر مسلمان کسی ذمی کو بلا ارادہ قتل کرے تو اس کی دیت بھی وہی ہوگی جو مسلمان کو خطاء ًا قتل کرنے سے لازم آتی ہے۔ (درالمختار، ج ۳،ص ۲۰۳)
فوج داری قانون
تعزیرات کا قانون ذمی اور مسلمانوں کے لیے یکساں ہے اور اس میں دونوں کا درجہ مساوی ہے۔ جرائم کی جو سزا مسلمان کو دی جائے گی وہی ذمی کو بھی دی جائے گی۔ ذمی کا مال مسلمان چرالے یا مسلمان کا مال ذمی چرالے‘ دونوں صورتوں میں سارق کا ہاتھ کاٹا جائے گا۔ ذمی کسی مرد یا عورت پر زنا کی تہمت لگائے یا مسلمان ایسا کرے‘ دونوں صورتوں میں ایک ہی حدقذف جاری ہوگی۔ اسی طرح زنا کی سزا بھی ذمی اور مسلمان کے لیے یکساں ہے، البتہ شراب کے معاملے میں ذمیوں کے لیے استثنا ہے۔۲۴۲؎
دیوانی قانون
دیوانی قانون بھی ذمی اور مسلمان کے لیے یکساں ہے اور دونوں کے درمیان کامل مساوات ہے۔ حضرت علیؓ کے ارشاد اَمْوَالُھُمْ کَاَمْوَالِنَا کے معنی ہی یہی ہیں کہ ان کے مال کی ویسی ہی حفاظت کی جائے گی جیسی مسلمان کے مال کی ہوتی ہے اور دیوانی حقوق ہمارے اور ان کے برابر ہوں گے۔ اس مساوات کا طبعی لازمہ یہ ہے کہ دیوانی قانون کی رُو سے جتنی پابندیاں مسلمان پر عائد ہوتی ہیں وہی سب ذمی پر بھی عائد ہوں۔
تجارت کے جو طریقے ہمارے لیے ممنوع ہیں‘ وہی ان کے لیے بھی ہیں۔ سود جس طرح ہمارے لیے حرام ہے اسی طرح ان کے لیے بھی ہے۔ البتہ ذمیوں کے لیے صرف شراب اور سور کا استثنا ہے۔ وہ شراب بنانے‘ پینے اور بیچنے کا حق رکھتے ہیں اور انھیں سور پالنے‘ کھانے اور فروخت کرنے کے بھی حقوق حاصل ہیں۔ (المبسوط، ج ۱۳، ص ۳۷۔ ۳۸۔)اگر کوئی مسلمان کسی ذمی کی شراب، یا اس کے سور کو تلف کر دے تو اس پر تاوان لازم آئے گا۔ درالمختار میں ہے:
وَیَضْمَنُ الْمُسْلِمُ قِیْمَۃَ خَمْرہٖ وَخِنْزِیْرِہٖ اِذَا اَتْلَفَہ‘۔ (درالمختار‘ ج۳‘ ص ۲۷۳)
مسلمان اس کی شراب اور اس کے سور کی قیمت ادا کرے گا اگر وہ اسے تلف کر دے۔
تحفظِ عزت
ذمی کو زبان ہاتھ پائوں سے تکلیف پہنچانا، اس کو گالی دینا‘ مارنا پیٹنا‘ یا اس کی غیبت کرنا، اسی طرح ناجائز ہے جس طرح مسلمان کے حق میں یہ افعال ناجائز ہیں۔ درالمختار میں ہے:
وَیَجِبُ کَفَّ الْاَذٰی عَنْہُ وَتَحْرِیْمِ غِیْبَتِہٖ کَالْمُسْلِمِ۔ (درالمختار،ج۳،ص۲۷۴۔۲۷۳)
اس کو تکلیف دینے سے باز رہنا واجب ہے اور اس کی غیبت اسی طرح حرام ہے جیسی مسلم کی غیبت حرام ہے۔
ذمے کی پایداری
عقد ذمہ مسلمانوں کی جانب ابدی لزوم رکھتا ہے‘ یعنی وہ اسے باندھنے کے بعد پھر اسے توڑ دینے کے مختار نہیں ہیں، لیکن دوسری جانب ذمیوں کو اختیار ہے کہ جب تک چاہیں اس پر قائم رہیں اورجب چاہیں توڑ دیں۔ بدائع میں ہے:
وَاَمَّاصِفَۃُ الْعَقْدِ فَھُوَ لَازِمٌ فِیْ حَقِّنَا لَایَمْلِکُ الْمُسْلِمُوْنَ نَقْضَہ‘ بِحَالٍ مِنَ الْاَحْوَالِ وَاَمَّافِیْ حَقِّھِمْ فَغَیْرُ لَازِمٍ۔ (در المختار‘ ج۷‘ ص۱۱۲)
عقد ذمہ ہمارے حق میں تو لازم ہے‘ یعنی ایک مرتبہ ذمی بنا لینے کے بعد ہم اس ذمہ کو کسی حال میں توڑ نہیں سکتے، لیکن ان کے لیے یہ لازم نہیں ہے۔ (یعنی اگر وہ ہمارے ذمہ سے خارج ہونا چاہیں تو ہو سکتے ہیں)
ذمی خواہ کیسے ہی بڑے جرم کا ارتکاب کرے‘ اس کا ذمہ نہیں ٹوٹتا۔ حتیٰ کہ جزیہ بند کر دینا‘ مسلمان کو قتل کرنا‘ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کرنا یا کسی مسلمان عورت کی آبروریزی کرنا بھی اس کے حق میں ناقضِ ذمہ نہیں ہے۔ ان افعال پر اسے مجرم کی حیثیت سے سزا دی جائے گی‘ لیکن باغی قرار دے کر ذمہ سے خارج نہیں کر دیا جائے گا، البتہ صرف دو صورتیں ایسی ہیں جن میں ایک ذمی خارج ازذمہ ہو جاتا ہے:
٭ ایک یہ کہ: دارالاسلام کو چھوڑ کر دشمنوں سے جاملے۔
٭ دوسرے یہ کہ: حکومت اسلامی کے خلاف صریح بغاوت کرکے فتنہ و فساد برپا کرے۔۲۴۳؎
شخصی معاملات
ذمیوں کے شخصی معاملات ان کی اپنی ملت کے قانون (personal law)کے مطابق طے کیے جائیں گے۔ اسلامی قانون ان پر نافذ نہیں کیا جائے گا۔ ہمارے لیے شخصی معاملات میں جو کچھ ناجائز ہے‘ وہ اگر ان کے مذہبی و قومی قانون میں جائز ہو تو اسلامی عدالت ان کے قانون ہی کے مطابق فیصلہ کرے گی۔ مثلاً: بغیر گواہوں کے نکاح‘ یا بلا مہر کے نکاح‘ یا زمانۂ عدت کے اندر نکاح ثانی‘ یا محرمات کے ساتھ نکاح، اگر وہ جائز رکھتے ہوں تو ان کے لیے یہ سب افعال جائز رکھے جائیں گے۔ خلفائے راشدین اور ان کے بعد کے تمام ادوار میں اسلامی حکومتوں کا اسی پر عمل رہا ہے۔ حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ نے اس معاملے میں حضرت حسن بصریؒ سے فتویٰ طلب کیا تھا کہ:
مَا بَالُ الْخُلَفَائِ الرَّاشِدِیْنَ تَرَکُوْا اَھْلَ الِذّمَّۃِ وَمَاھُمْ عَلَیْہِ مِنْ نِکَاحِ الْمَحَارِمِ وَاقْتِنَائِ الْخُمُوْرِ وَالْخَنَازِیْرِ۔
کیا بات ہے کہ خلفائے راشدین نے ذمیوں کو محرمات کے ساتھ نکاح اور شراب اور سور کے معاملے میں آزاد چھوڑ دیا؟
جواب میں حضرت حسنؒ نے لکھا:
اِنَّمَا بَذَلُوا الْجِزْیَۃَ لِیُتْرَکُوْا وَمَا یَعْتَقِدُوْنَ وَاِنَّمَا اَنْتَ مُتَّبِعٌ وَلَاَ مُبْتَدِعٌ۔
انھوں نے جزیہ دینا اسی لیے تو قبول کیا ہے کہ انھیں ان کے عقیدے کے مطابق زندگی بسر کرنے کی آزادی دی جائے۔ آپ کاکام پچھلے طریقے کی پیروی کرنا ہے نہ کہ نیا طریقہ ایجاد کرنا۔
البتہ اگر کسی مقدمے میں فریقین خود اسلامی عدالت سے درخواست کریں کہ شریعتِ اسلام کے مطابق ان کا فیصلہ کیا جائے‘ تو عدالت ان پر شریعت نافذ کرے گی۔ نیز اگر شخصی قانون سے تعلق رکھنے والے کسی معاملے میں ایک فریق مسلمان ہو تو پھر فیصلہ اسلامی شریعت کے مطابق ہوگا۔ مثلاً: کوئی عیسائی عورت کسی مسلمان کے نکاح میں تھی اور اس کا شوہر مرگیا، تو اس عورت کو شریعت کے مطابق پوری عدت وفات گزارنی ہوگی۔ عدت کے اندر وہ نکاح کرے گی تو ایسا نکاح باطل ہوگا۔ (المبسوط‘ ج۵‘ ص ۳۸۔۴۱)
مذہبی مراسم
مذہبی مراسم اور قومی شعائر کو پبلک میں اعلان و اظہار کے ساتھ ادا کرنے کے متعلق اسلامی قانون یہ ہے کہ اہل الذمہ خود اپنی بستیوں میں تو ان کو پوری آزادی کے ساتھ کرسکیں گے، البتہ خالص اسلامی آبادیوں۲۴۴؎ میں حکومت اسلامی کو اختیار ہوگا کہ انھیں اس کی آزادی دے،یا ان پر کسی قسم کی پابندیاں عاید کر دے۔بدائع میں ہے:
لَایُمْنَعُوْنَ مِنْ اِظْھَارِ شَیْئٍ مِمَّا ذَکَرْنَا مِنْ بَیْعِ الْخَمْرِ وَالْخِنْزِیْرِ وَالصَّلِیْبِ وَ ضَرْبِ النَّاقُوْسِ فِیْ قَرْیَۃٍ اَوْمَوْضِعٍ لَیْسَ مِنْ اَمْصَارِ الْمُسْلِمِیْنَ وَلَوْکَانَ فِیْہِ عَدَدٌ کَثِیْرٌ مِّنْ اَھْلِ الْاِسْلَامِ وَاِنَّمَا یَکْرَہُ ذَالِکَ فِیْ اَمْصَارِ الْمُسْلِمِیْنَ وَھِیَ الَّتِیْ یُقَامُ فِیْھَا الْجُمُعُ وَالْاَعْیَادُ الْحُدُوْدُ…… وَاِمَّا اِظْھَارُ فِسْقٍ یَعْتَقِدُوْنَ حُرْمَۃً کَالزِّنَا وَسَائِرِ الْفَوَاحِشِ الَّتِیْ حَرَامٌ فِیْ دِیْنِھِمْ فَاِنَّھْمْ یُمْنَعُوْنَ مِنْ ذَالِکَ سَوَائً کَانُوْا فِیْ اَمْصَارِ الْمُسْلِمِیْنَ اَوْفِی اَمْصَارِھِمْ۔ (بدائع، ج۷، ص۱۱۳)
جو بستیاں امصار المسلمین میں سے نہیں ہیں ان میں ذمیوں کو شراب و خنزیر بیچنے اور صلیب نکالنے اور ناقوس بجانے سے نہیں روکا جائے گا خواہ وہاں مسلمانوں کی کتنی ہی کثیر تعداد آباد ہو۔ البتہ یہ افعال امصار مسلمین میں ناپسندیدہ ہیں‘ یعنی ان شہروں میں جنھیں جمعہ و عیدین اور اقامت حدود کے لیے مخصوص کیا گیا ہو…… رہا وہ فسق جس کی حرمت کے خود وہ بھی قائل ہیں مثلاً: زنا اور دوسرے تمام فواحش جو اُن کے دین میں بھی حرام ہیں‘ تو اس کے علانیہ ارتکاب سے ان کو ہر حال میں روکا جائے گا خواہ وہ امصار مسلمین میں ہوں یا خود اُن کے اپنے امصار میں۔
لیکن امصار مسلمین میں بھی ان کو صرف صلیبوں اور مورتیوں کے جلوس نکالنے اور علانیہ ناقوس بجاتے ہوئے بازاروں میں نکلنے کی ممانعت کی گئی ہے، ورنہ اپنے قدیم معابد کے اندر رہ کر وہ تمام شعائر کا اظہار کرسکتے ہیں۔ حکومت اسلامیہ اس میں دخل نہ دے گی۔ (شرح السِّیَر الکبیر‘ ج۳‘ ص۵۱)
عبادت گاہیں
امصار مسلمین میں ذمیوں کے جو قدیم معابد ہوں ان سے تعرض نہیں کیا جا سکتا۔ اگر وہ ٹوٹ جائیں تو انھیں اسی جگہ دوبارہ بنا لینے کا حق ہے۔ لیکن نئے معابد بنانے کا حق نہیں ہے۔۲۴۵؎رہے وہ مقامات جو امصار مسلمین نہیں ہیں تو ان میں ذمیوں کو نئے معابد بنانے کی بھی عام اجازت ہے۔ اسی طرح جو مقامات اب مصر نہ رہے ہوں‘ یعنی امام نے ان کو ترک کرکے وہاں اقامت جمع و اعیاد ] جمعہ و عیدین[ اور اقامت حدود کا سلسلہ بند کر دیا ہو‘ ان میں بھی ذمیوں کو نئے معابد کی تعمیر اور اپنے شعائر کے اظہار کا حق حاصل ہے۔۲۴۶؎ابن عباسؓ کا فتویٰ یہ ہے:
اَمَّا مِصْرُ مَصَّرَتْہُ الْعَرَبُ فَلَیْسَ لَھُمْ اَنْ یُّحَدِّ ثُوْا فِیْہِ بِنَائً بَیْعَۃً وَلَا کَنِیْسَۃً وَلَا یَضْرِبُوْا فِیْہِ بِنَاقُوْسَ وَلَا یَظْھَرُوْا فِیْہِ خَمْرًا وَلَا یَتَّخِذُوْا فِیْہِ خِنْزِیْرًا وَکُلُّ مِصْرٍ کَانَتِ الْعَجَمُ مَصَّرَتْہُ فَفَتَحَہُ اللّٰہُ عَلَی الْعَرَبِ فَنَزَلُوْا عَلٰی حُکْمِھِمْ فَلِعَجْمِ مَا فِیْ عَھْدِ ھِمْ وَ عَلَی الْعَرَبِ اَنْ یُّوْفُوْا لَھُمْ بِذَالِکَ۔ (کتاب الخراج‘ ص۸۸)
جن شہروں کو مسلمانوں نے آباد کیا ہے ان میں ذمیوں کو یہ حق نہیں ہے کہ نئے معابد اور کنائس تعمیر کریں، یا ناقوس بجائیں، یا علانیہ شراب اور سور کا گوشت بیچیں۔ باقی رہے وہ شہر جو عجمیوں کے آباد کیے ہوئے ہیں اور جن کو اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کے ہاتھ پر فتح کیا اور انھوں نے مسلمانوں کے حکم کی اطاعت قبول کرلی تو عجم کے لیے وہی حقوق ہیں جو اُن کے معاہدے میں طے ہو جائیں اور مسلمانوں پر ان کا ادا کرنا لازم ہے۔
جزیہ و خراج کی تحصیل میں رعایات
جزیہ و خراج کے معاملے میں ذمیوں پر تشدد کرنا ممنوع ہے۔ ان کے ساتھ نرمی اور رِفق کی تاکید کی گئی ہے اور ان پر ایسا بار ڈالنے سے منع کیا گیا ہے جسے اٹھانے کی ان میں قدرت نہ ہو۔ حضرت عمرؓ نے حکم دیا تھا کہ لَا یُکَلَّفُوْا فَوْقَ طَاقَتِھِمْ (کتاب الخراج: ص ۸‘۸۲)
جتنا مال دینا ان کی طاقت سے باہر ہو اس کے ادا کرنے کی انھیں تکلیف نہ دی جائے۔
جزیے کے عوض ان کی املاک کا نیلام نہیں کیا جاسکتا۔ حضرت علیؓ نے اپنے ایک عامل کو فرمان بھیجا تھا کہ لَا تَبِیْعَنَّ لَھُمْ فِیْ خَرَاجِھِمْ حِمَارًا وَلَا بَقَرَۃً وَلَا کِسْوَۃً شَیْئًا وَلَاصَنْفًا۔(فتح البیان ج۴ص۹۳) خراج میں ان کا گدھا‘ ان کی گائے‘ ان کے کپڑے نہ بیچنا۔
ایک اور موقع پر اپنے عامل کو بھیجتے وقت حضرت علیؓ نے فرمایا:
ان کے جاڑے گرمی کے کپڑے اور ان کے کھانے کا سامان اور ان کے جانور جن سے وہ کھیتی باڑی کرتے ہیں‘ خراج وصول کرنے کی خاطر ہرگزنہ بیچنا‘ نہ کسی کو درہم وصول کرنے کے لیے کوڑے مارنا‘ نہ کسی کو کھڑا رکھنے کی سزا دینا‘ نہ خراج کے عوض کسی چیز کا نیلام کرنا، کیونکہ ہم جو اُن کے حاکم بنائے گئے ہیں تو ہمارا کام نرمی سے وصولی کرنا ہے۔ اگر تم نے میرے حکم کے خلاف کیا تو اللہ میرے بجائے تم کو پکڑے گا اور اگر مجھے تمھاری خلاف ورزی کی خبر پہنچی تو میں تمھیں معزول کردوں گا۔۲۴۷؎
جزیے کی تحصیل میں ان پر ہر قسم کی سختی کرنے سے منع کیا گیا ہے۔ حضرت عمرؓ نے شام کے گورنر حضرت ابو عبیدہؓ کو جو فرمان لکھا تھا اس میں منجملہ اور احکام کے ایک یہ بھی تھا کہ:
وَامْنَعِ الْمُسْلِمِیْنَ مِنْ ظُلْمِھِمْ وَالْاِضْرَارِبِھِمْ وَالْاَکْلِ اَمْوَالِھِمْ اِلاَّ بِحَلِّھَا۔۲۴۸؎
مسلمانوں کو ان پر ظلم کرنے‘ اور انھیں ستانے اور ناجائز طریقے سے ان کے مال کھانے سے منع کرو۔
شام کے سفر میں حضرت عمرؓ نے دیکھا کہ ان کے عامل جزیہ وصول کرنے کے لیے ذمیوں کو سزا دے رہے ہیں۔ اس پر آپ نے فرمایا کہ ان کو تکلیف نہ دو‘ اگر تم انھیں عذاب دوگے تو قیامت کے دن اللہ تعالیٰ تمھیں عذاب دے گا:
لَا تُعَذِّبِ النَّاسَ فَاِنَّ الَّذِیْنَ یُعَذِّبُوْنَ النَّاسَ فِی الدُّنْیَا یُعَذِّبُھُمُ اللہُ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ۔۲۴۹؎
ہشام بن حکم نے ایک سرکاری افسر کو دیکھا کہ وہ ایک قبطی کو جزیہ وصول کرنے کے لیے دھوپ میں کھڑا کر رہا ہے۔ اس پر انھوں نے ملامت کی اور فرمایا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا ہے کہ:
اِنَّ اللہُ عَزَّوَجَلَّ یُعَذِّبُ الَّذِیْنَ یُعَذِّبُوْنَ النَّاسَ فِی الدُّنْیَا۔۲۵۰؎
اللہ عزوجل ان لوگوں کو عذاب دے گا جو دنیا میں لوگوں کو عذاب دیتے ہیں۔
فقہائے اسلام نے نادہندوں کے حق میں صرف اتنی اجازت دی ہے کہ انھیں تادیباً قید بے مشقت کی سزا دی جاسکتی ہے۔ امام ابو یوسفؒ لکھتے ہیں:
وَلٰکِنْ یُرَفَّقُ بِھِمْ وَیُحْبَسُوْنَ حَتّٰی یُؤَدُّوْا مَا عَلَیْھِمْ۔۲۵۱؎
ٹیکس کی وصولی کے لیے اُن سے نرمی برتی جائے گی، البتہ (تادیبًا) قید کی سزا بھی دی جاسکتی ہے تاکہ وہ ٹیکس ادا کر دیں۔
جو ذمی محتاج اور فقیر ہو جائیں انھیں صرف جزیے سے معاف ہی نہیں کیا جائے گا، بلکہ ان کے لیے اسلامی خزانے سے وظائف بھی مقرر کیے جائیں گے۔
حضرت خالدؓ نے اہل حیرہ کو جو امان نامہ لکھ کر دیا تھا، اس میں وہ لکھتے ہیں:
وَجَعَلْتُ لَھُمْ اَیَّمَا شَیْخٍ ضَعُفَ عَنِ الْعَمَلِ اَوْاَصَابَتْہُ اٰفَۃٌ مِنْ الْاٰفَاتِ اَوْکَانَ غَنِیًّا فَافْتَقَرَوَصَارَ اَھْلُ دِیْنِہٖ یَتَصَدَّقُوْنَ عَلَیْہِ طُرِحَتْ جِزْیَۃٌ وَعِیْلَ مِنْ بَیْتِ مَالِ الْمُسْلِمِیْنَ ھُوَ وَعَیَالُہ‘۔ (کتاب الخراج‘ ص۸۵)
میں نے ان کے لیے یہ حق بھی رکھا ہے کہ جو شخص بڑھاپے کے سبب ازکار رفتہ ہو جائے، یا اس پر کوئی آفت نازل ہو جائے‘ یا وہ پہلے مال دار تھا پھر فقیر ہوگیا یہاں تک کہ اس کے ہم مذہب لوگ اس کو صدقہ و خیرات دینے لگے‘ تو اس کا جزیہ معاف کردیا جائے اور اسے اور اس کے بال بچوں کو مسلمانوں کے بیت المال سے مدد دی جائے۔
ایک دفعہ حضرت عمرؓ نے ایک ضعیف العمر آدمی کو بھیک مانگتے دیکھا اور اس سے اس ذلیل حرکت کا سبب دریافت کیا۔ اس نے کہا کہ جزیہ ادا کرنے کے لیے بھیک مانگتا ہوں۔ اس پر آپ نے اس کا جزیہ معاف کر دیا اور اس کے لیے وظیفہ مقرر کیا اور اپنے افسر خزانہ کو لکھا:
خدا کی قسم! یہ ہرگز انصاف نہیں ہے کہ ہم اس کی جوانی میں اس سے فائدہ اٹھائیں اور بڑھاپے میں اس کو رسوا کریں۔‘‘۲۵۲؎
دمشق کے سفر میں بھی حضرت عمرؓ نے اپنے معذور ذمیوں کے لیے امدادی وظائف مقرر کرنے کے احکام جاری کیے تھے۔۲۵۳؎
اگر کوئی ذمی مر جائے اور اس کے حساب میں جزیہ کا بقایا واجب الادا ہو تو وہ اس کے ترکہ سے وصول نہیں کیا جائے گا اور نہ اس کے وارثوں پر اس کا بار ڈالا جائے گا۔ امام ابو یوسفؒ لکھتے ہیں:
وَاِنْ وَجَبَتْ عَلَیْہِ الْجِزْیَۃُ فَمَاتَ قَبْلَ اَنْ تُؤْخَذَ مِنْہُ اَوْ اُخِذَ بَعْضُھَا وَبَقِیَ الْبَعْضُ لَمْ یُؤْخَذْ بِذٰلِکَ وَرَثَۃٌ وَلَمْ تُؤْخَذْ مِنْ تَرَکَتِہٖ۔۲۵۴؎
اگر کسی ذمی پر جزیہ واجب ہو اور وہ اس کو ادا کرنے سے پہلے مرگیا تو اس کے ورثا سے وہ وصول نہیں کیا جائے گا اور نہ اس کے ترکے سے لیا جائے گا۔
تجارتی ٹیکس
مسلمان تاجروں کی طرح ذمی تاجروں کے اموال تجارت پر بھی ٹیکس لیا جائے گا جب کہ اُن کا رأس المال (اصل سرمایہ) ۲۰۰ درہم تک پہنچ جائے، یا وہ ۲۰ مثقال سونے کے مالک ہو جائیں۔۲۵۵؎
اس میں شک نہیں ہے کہ فقہا نے ذمی تاجر پر تجارتی محصول ۵ فی صدی لگایا تھا اور مسلمان تاجر پر۲ ½ (اڑھائی) فی صدی‘ لیکن یہ فعل کسی نص پر مبنی نہ تھا، بلکہ اجتہاد پر مبنی تھا اور دراصل وقتی مصالح اس کے مقتضی تھے۔ اس زمانے میں مسلمان زیادہ تر ملک کی حفاظت میں مشغول تھے اور تمام تجارت ذمیوں کے ہاتھ میں آگئی تھی۔ اسی لیے مسلمان تاجروں کی ہمت افزائی اوران کی تجارت کے تحفظ کے لیے ان پر ٹیکس کم کر دیا گیا۔
فوجی خدمت سے استثنا
ذمی فوجی خدمت سے مستثنیٰ ہیں اور دشمن سے ملک کی حفاظت کرنا تنہا مسلمانوں کے فرائض میں داخل کیا گیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ایک اصول پر جو ریاست قائم ہو اس کی حفاظت کے لیے وہی لوگ لڑ سکتے ہیں اور انھی کو اس کے لیے لڑنا چاہیے جو اس اصول کو حق مانتے ہوں۔ پھر لڑائی میں اپنے اصول اور حدود کی پابندی بھی وہی کرسکتے ہیں۔ دوسرے لوگ اگر ریاست کی حفاظت کے لیے لڑیں گے تو محض کرائے کے سپاہیوں (mercenaries)کی حیثیت سے لڑیں گے اور اسلام کے مقرر کیے ہوئے اخلاقی حدود کی پابندی نہ کرسکیں گے۔ اسی لیے اسلام نے ذمیوں کو فوجی خدمت سے مستثنیٰ کرکے ان پر صرف یہ فرض عاید کیا ہے کہ وہ ملکی حفاظت کے مصارف میں اپنا حصہ ادا کریں۔ جزیے کی اصل حیثیت یہی ہے۔ وہ نہ صرف اطاعت کا نشان ہے‘ بلکہ فوجی خدمت سے استثنا کا بدل اور ملکی حفاظت کا معاوضہ بھی ہے۔ چنانچہ جزیہ صرف قابل جنگ مردوں ہی پر لگایا جاتا ہے‘ اور اگر مسلمان کسی وقت ذمیوں کی حفاظت سے قاصر ہوں تو جزیہ واپس کر دیا جاتا ہے۔۲۵۶؎
جنگ یرموک کے موقع پر جب رومیوں نے مسلمانوں کے مقابلے میں ایک زبردست فوج جمع کی اور مسلمانوں کو شام کے تمام مفتوحہ علاقوں کو چھوڑ کر ایک مرکز پر اپنی طاقت سمیٹنی پڑی تو حضرت ابو عبیدہؓ نے اپنے امرا کو لکھا کہ جو کچھ جزیہ و خراج تم نے ذمیوں سے وصول کیا ہے انھیں واپس کردو اور ان سے کہو کہ:اب ہم تمھاری حفاظت سے قاصر ہیں‘ اس لیے ہم نے جو مال تمھاری حفاظت کے معاوضے میں وصول کیا تھا اسے واپس کرتے ہیں۔۲۵۷؎ اس حکم کے مطابق تمام امرائے فوج نے جمع شدہ رقوم واپس کر دیں۔ بلاذری اس موقع پر غیر مسلم رعایا کے جذبات کا حال لکھتا ہے کہ جب مسلمانوں نے حمص میں جزیے کی رقم واپس کی تو وہاں کے باشندوں نے یک زبان ہوکر کہا کہ تمھاری حکومت اور انصاف پسندی ہم کو اس ظلم و ستم سے زیادہ محبوب ہے جس میں ہم مبتلا تھے۔ اب ہم ہرقل کے عامل کو اپنے شہر میں ہرگز گھسنے نہ دیں گے‘ تاوقتیکہ لڑ کر مغلوب نہ ہو جائیں۔‘‘ ۲۵۸؎
۳۔فقہائے اسلام کی حمایت
یہ ہیں اس قانون کی تفصیلات جو صدر اول میں غیر مسلم رعایا کے حقوق و فرائض سے متعلق بنایا گیا تھا۔ اب آگے بڑھنے سے پہلے ہم یہ بھی بتا دینا چاہتے ہیں کہ خلفائے راشدین کے بعد بادشاہی دور میں جب کبھی ذمیوں کے ساتھ بے انصافی کی گئی تو وہ فقہائے اسلام ہی کا گروہ تھا جو آگے بڑھ کر ان کی حمایت کے لیے کھڑا ہوگیا اور متفق ہو کر ان کا پشت پناہ بنا۔ تاریخ کا مشہور واقعہ ہے کہ ولید بن عبدالملک اموی نے دمشق کے کنیسۂ یوحنّا کو زبردستی عیسائیوں سے چھین کر مسجد میں شامل کر لیا تھا۔ جب حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ مسندِ خلافت پر متمکن ہوئے اور عیسائیوں نے ان سے اس ظلم کی شکایت کی تو انھوں نے اپنے عامل کو لکھا کہ مسجد کا جتنا حصہ گرجا کی زمین پر تعمیر کیا گیا ہے اسے منہدم کرکے عیسائیوں کے حوالے کر دو۔ (فتوح البلدان‘ مطبوعہ یورپ‘ ص ۱۳۲)
ولید بن یزید نے رومی حملے کے خوف سے قبرص کے ذمی باشندوں کو جلا وطن کرکے شام میں آباد کیا۔ فقہائے اسلام اور عام مسلمان اس پر سخت ناراض ہوئے اور انھوں نے اس کو گناہ عظیم سمجھا۔ پھر جب ولید بن یزید نے انھیں دوبارہ قبرص میں لے جاکر آباد کر دیا تو اس کی عام طور پر تحسین کی گئی اور کہا گیا کہ یہی انصاف کا تقاضا ہے۔ اسماعیل بن عیاش کا بیان ہے کہ:
فَاسْتَفْظَعَ ذٰلِکَ الْمُسْلِمُوْنَ وَاسْتَعْظَمَہُ الْفُقَھَائُ فَلَمَّا وَلِیَ یَزِیْدُ بْنُ وَلِیْدِ بْنِ عَبْدِ الْمَلِکِ رَدَّھُمْ اِلٰی قَبْرَصَ فَاسْتَحْسَنَ الْمُسْلِمُوْنَ ذٰلِکَ مِنْ فِعْلِہٖ وَرَأَوْہُ عَدْلاً۔ (فتوح البلدان،ص ۱۵۶)
مسلمانوں نے اس کی اس حرکت سے بیزاری ظاہر کی اور فقہا نے اس کو گناہ سمجھا۔ پھر جب یزید بن ولید خلیفہ ہوا، اور اس نے ان کو قبرص کی طرف پھر لوٹا دیا تو مسلمانوں نے اس کو پسند کیا اور اسے عدل و انصاف سمجھا۔
بلاذری کا بیان ہے کہ ایک مرتبہ جبل لبنان کے باشندوں میں سے ایک گروہ نے بغاوت کردی۔ اس پر صالح بن علی بن عبداللہ نے ان کی سرکوبی کے لیے ایک فوج بھیجی اور اس نے ان کے ہتھیار اٹھانے والے مردوں کو قتل کردیا اور باقی لوگوں میں سے ایک جماعت کو جلا وطن کر دیا اور ایک جماعت کو وہیں آباد رہنے دیا۔ امام اوزاعیؒ اس زمانے میں زندہ تھے۔ انھوں نے صالح کو اس ظلم پر سخت تنبیہہ کی اور ایک طویل خط لکھا جس کے چند فقرے یہ ہیں:
جبل لبنان کے اہل ذمّہ کی جلاوطنی کا حال تم کو معلوم ہے۔ ان میں بعض ایسے لوگ بھی تھے جنھوں نے بغاوت کرنے والوں کے ساتھ کوئی حصہ نہیں لیا تھا، مگر باوجود اس کے تم نے کچھ کو قتل کیا اور کچھ لوگوں کو ان کی بستیوں کی طرف واپس بھیج دیا۔ میں نہیں سمجھ سکتا کہ عام لوگوں کو بعض خاص لوگوں کے جرم کی سزا کیوں کر دی جاسکتی ہے اور کس بنا پر ان کے گھروں اور ان کی جایدادوں سے انھیں بے دخل کیا جاسکتا ہے‘ حالانکہ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ لَا تَزِرُ وَازِرَۃٌ وِّزْرَ اُخْرٰی الانعام 164:6 کوئی بوجھ اٹھانے والا دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھاتا، اور یہ ایک واجب التعمیل حکم ہے۔تمھارے لیے بہترین نصیحت یہ ہے کہ تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد کو یاد رکھو کہ جو کوئی کسی معاہد پر ظلم کرے گا اور اس کی طاقت سے زیادہ اس پر بار ڈالے گا اس کے خلاف میں خود مدعی بنوں گا۔(فتوح البلدان‘ ص۱۶۹)
یہ اور ایسی ہی بے شمار مثالیں تاریخ میں ملتی ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ علمائے اسلام نے ہمیشہ اہل ذمہ کے حقوق کی حمایت کی ہے اور کبھی کسی امیر یا بادشاہ نے ان پر جبر و ظلم کیا بھی ہے تو جو لوگ اس عہد میں اسلامی قانون کے پاسبان رہے ہیں وہ کبھی اس پر ملامت کرنے سے باز نہیں رہے۔
۴۔ زائد حقوق جو غیر مسلموں کو دیے جاسکتے ہیں
یہاں تک ہم نے اہل الذمہ کے ان حقوق کا ذکر کیا ہے جو شریعت میں ان کے لیے مقرر ہیں اور جنھیں لازماً ہر اسلامی دستور میں شامل ہونا چاہیے۔اب ہم مختصر طور پر بتائیں گے کہ موجودہ زمانے میں ایک اسلامی ریاست اپنے غیر مسلم شہریوں کو اصول اسلام کے مطابق مزید کیا حقوق دے سکتی ہے:
رئیسِ مملکت کا منصب
سب سے پہلے رئیس مملکت کے سوال کو لیجیے۔ اسلامی حکومت چونکہ ایک اصولی حکومت ہے اس لیے وہ ان فریب کاریوں سے کام نہیں لے سکتی جو بے دین قومی جمہوریتیں اقلیتوں کی رائے دہی کے معاملے میں برتتی ہیں۔ اسلام میں رئیسِ حکومت کا منصب یہ ہے کہ وہ اصول اسلام کے مطابق ریاست کا نظام چلائے‘ لہٰذا جو لوگ سرے سے اصول اسلام کو مانتے ہی نہ ہوں وہ رئیس مملکت کا منصب بہرحال نہیں سنبھال سکتے۔
مجلسِ شوریٰ یا پارلیمنٹ
اس کے بعد ہمارے سامنے مجلس شوریٰ یا پارلیمنٹ کا مسئلہ آتا ہے۔ جہاں تک ٹھیٹھ اسلامی نظریے کا تعلق ہے‘ اس کی رُو سے تو مجلس شوریٰ میں بھی غیر مسلموں کی نمائندگی صحیح نہیں ہے، لیکن موجودہ زمانے کے حالات میں اس کے لیے گنجائش نکالی جاسکتی ہے، بشرطیکہ ملک کے دستور میں اس بات کی واضح اور صریح ضمانت موجود ہو کہ:
۱۔ پارلیمنٹ قرآن و سنت کے خلاف کوئی قانون سازی کرنے کی مجاز نہ ہوگی اور ہر فیصلہ جو اس حد سے متجاوز ہو قانونی سند حاصل کرنے سے محروم رہے گا۔
ب۔ ملک کے قانون کا اولین ماخذ قرآن و سنت ہوں گے۔
ج۔ قوانین کی آخری توثیق کا اختیار جس شخص کو حاصل ہوگا وہ لازمًامسلمان ہوگا۔
ایک شکل یہ بھی اختیار کی جاسکتی ہے کہ غیر مسلموں کو ملک کی پارلیمنٹ میں شامل کرنے کے بجائے ان کے لیے ایک الگ نمائندہ مجلس یا اسمبلی بنا دی جائے، تاکہ وہ اپنی اجتماعی ضروریات بھی اس کے ذریعے سے پوری کریں‘ اور ملکی انتظام کے معاملے میں بھی اپنا نقطۂ نظر پیش کرسکیں۔ اس مجلس کی رکنیت اور رائے دہی غیر مسلموں کے لیے مخصوص ہو، اور اس میں ان کو اظہار رائے کی پوری آزادی دی جائے۔ اس مجلس کے ذریعے سے:
۱۔ وہ اپنے شخصی معاملات کی حد تک قوانین تجویز کرنے اور سابق قوانین میں اصلاح و ترمیم کرنے کے مجاز ہوں گے‘ اور اس طرح کی تمام تجاویز رئیس حکومت کی منظوری سے قانون بن سکیں گی۔
۲۔ وہ حکومت کے نظم و نسق اور مجلسِ شوریٰ کے فیصلوں کے متعلق اپنی شکایات‘ اعتراضات‘ مشورے اور تجاویز پوری آزادی کے ساتھ پیش کرسکیں گے اور حکومت انصاف کے ساتھ ان پر غور کرے گی۔
۳۔ وہ اپنے گروہ کے معاملات اور عام ملکی معاملات کے متعلق سوالات بھی کرسکیں گے‘ اور حکومت کا ایک نمائندہ ان کے جوابات دینے کے لیے موجود رہے گا۔
مذکورہ بالا تینوں صورتوں میں سے کسی صورت کو بھی حالات و ضروریات کے لحاظ سے اختیار کیا جاسکتا ہے۔
جہاں تک بلدیات اور مقامی مجالس (local bodies)کا تعلق ہے ان میں غیر مسلموں کو نمائندگی اور رائے دہی کے پورے حقوق دیے جاسکتے ہیں۔
آزادیِ تحریر و تقریر وغیرہ
غیر مسلموں کو اس ریاست میں تحریر و تقریر اور رائے و ضمیر اور اجتماع کی وہی آزادی حاصل ہوگی جو خود مسلمانوں کو حاصل ہوگی‘ اور اس معاملے میں جو قانونی پابندیاں مسلمانوں کے لیے ہوں گی وہی ان کے لیے بھی ہوں گی۔قانون کی حدود میں رہتے ہوئے وہ حکومت پر‘اُس کے حکام پر اور خود رئیس حکومت پر آزادانہ تنقید کرسکیں گے۔قانون کی حدود کے اندر غیر مسلموں کو بھی مذہبی بحث و مباحثے کی ویسی ہی آزادی ہوگی جیسی مسلمانوں کو ہے۔وہ اپنے مذہب کی خوبیاں بیان کرنے میں بھی پوری طرح آزاد ہوں گے اور اگر ایک غیر اسلامی مذہب کا پیرو کسی دوسرے غیر اسلامی مذہب کو قبول کرلے تو حکومت کو اس پر کوئی اعتراض نہ ہوگا، البتہ کوئی مسلمان اسلامی ریاست کے حدود میں رہتے ہوئے اپنا دین بدلنے کا مجاز نہ ہوگا۔ لیکن ارتداد کی صورت میں مؤاخذہ جو کچھ بھی ہوگا خود مرتد سے ہوگا، نہ کہ اس غیر مسلم سے جس کا اثر قبول کرکے وہ مرتد ہوا ہے۔
انھیں اپنے ضمیر کے خلاف کوئی عقیدہ یا عمل اختیار کرنے پر مجبور نہ کیا جائے گا‘ اور اپنے ضمیر کے مطابق وہ ایسے سب کام کرنے کے مجاز ہوں گے جو قانون ملکی سے متصادم نہ ہوتے ہوں۔
تعلیم
انھیں نظام تعلیم تو وہی قبول کرنا ہوگا جو ریاست پورے ملک کے لیے بنائے گی‘ لیکن جہاں تک اسلام کی مذہبی تعلیم کا تعلق ہے‘ اس کے پڑھنے پر وہ مجبورنہ کیے جائیں گے۔ انھیں پورا حق ہوگا کہ ملکی درس گاہوں میں‘ یا خود اپنی مخصوص درس گاہوں میں‘ اپنے مذہب کی تعلیم کا مستقل انتظام کریں۔

ملازمتیں
چند محفوظ مناصب کے سوا وہ تمام ملازمتوں میں داخل ہونے کے حق دار ہوں گے اور اس معاملے میں ان کے ساتھ کوئی تعصب نہ برتا جائے گا۔ مسلمان اور غیر مسلم‘ دونوں کے لیے اہلیت کا ایک ہی معیار ہوگا اور اہل آدمیوں کو بلا امتیاز انتخاب کیا جائے گا۔
محفوظ مناصب سے مراد ایسے مناصب ہیں جو اسلام کے اصولی نظام میں کلیدی حیثیت رکھتے ہیں۔ ان مناصب کی فہرست کافی غور و خوض کے بعد ماہرین کی ایک جماعت بنا سکتی ہے۔ ہم ایک قاعدے کلیے کے طور پر صرف یہ کہہ سکتے ہیں کہ جن خدمات کا تعلق پالیسیوں کی تشکیل اور محکموں کی رہنمائی سے ہے وہ سب کلیدی اہمیت رکھنے والی خدمات ہیں‘ اور ایک اصولی نظام میں ایسی خدمات صرف انھی لوگوں کودی جاسکتی ہیں جو اس کے اصولوں پر اعتقاد رکھتے ہوں۔ ان خدمات کو مستثنیٰ کرنے کے بعد باقی تمام نظم و نسق میں بڑے سے بڑے عہدوں پر بھی اہل الذمہ اپنی اہلیت کے لحاظ سے مقرر کیے جاسکتے ہیں۔ مثلاً: کوئی چیز ان میں سے کسی شخص کے اکائونٹنٹ جنرل‘ یا چیف انجینئر یا پوسٹ ماسٹر جنرل بنائے جانے میں مانع نہیں ہے۔
اسی طرح فوج میں بھی صرف جنگی خدمات محفوظ ملازمتوں میں شمار ہوں گی۔ باقی دوسرے فوجی شعبے جن کا تعلق براہ راست حرب و ضرب سے نہیں ہے‘ ذمیوں کے لیے کھلے ہوں گے۔
معاشی کاروبار اور پیشے
صنعت و حرفت‘ تجارت‘ زراعت اور دوسرے تمام پیشوں کے دروازے غیر مسلموں کے لیے بالکل کھلے رہیں گے۔ ان میں مسلمانوں کو ایسی کوئی رعایت حاصل نہ ہوگی جو غیر مسلموں کو نہ حاصل ہو‘ اور غیر مسلموں پر کوئی ایسی پابندی عاید نہ کی جاسکے گی جو مسلمانوں کے لیے نہ ہو۔ ہر شہری کو‘ خواہ وہ مسلم ہو یا غیر مسلم‘ معاشی میدان میں جدوجہد کا مساویانہ حق ہوگا۔
غیر مسلموں کے لیے تحفظ کی واحد صورت
آخر میں اس امر کی توضیح بھی ضروری ہے کہ ایک اسلامی حکومت اپنے غیر مسلم شہریوں کو جو حق بھی دے گی بلا اس لحاظ کے دے گی کہ کوئی ہمسایہ غیر مسلم حکومت اپنی مسلمان رعایا کو کیا حقوق دیتی ہے‘ بلکہ کچھ دیتی بھی ہے یا نہیں۔ ہم اس بات کے قائل نہیں ہیں کہ مسلمان، کافروں کو دیکھ دیکھ کر اپنا لائحۂ عمل بنائے‘ وہ انصاف کریں تو یہ بھی کرے‘ اور وہ ظلم کرنے لگیں تو یہ بھی ظلم پر اتر آئے۔ ہم مسلمان ہونے کی حیثیت سے ایک قطعی اور واضح اصول کے پیرو ہیں اور ہمیں بہرحال اپنے حدودِ اختیار میں اپنے اصولوں پر ہی عمل کرنا ہے۔ جو ہم دیں گے نیک نیتی کے ساتھ دیں گے‘ صرف کاغذ ہی پر نہیں، بلکہ زمین پر بھی دیں گے، اور اپنی لی ہوئی ذمے داریوں کو انصاف اور سچائی کے ساتھ ادا کریں گے۔
اس کے بعد یہ بیان کرنے کی حاجت نہیں رہتی کہ پاکستان میں غیر مسلموں کے لیے تحفظ‘ امن اور خوش حالی کی اس سے بڑھ کر‘ بلکہ درحقیقت اس کے سوا کوئی قابلِ اعتماد ضمانت نہیں ہوسکتی کہ یہاں ایک خالص اسلامی حکومت قائم ہو جائے۔ صرف اسی صورت میں ظلم اور جوابی ظلم کا وہ شیطانی چکر ٹوٹ سکتا ہے جو بدقسمتی سے برعظیم ہند میں چل رہا ہے۔ صرف اسی صورت میں پاکستان بھی انصاف کا گھر بن سکتا ہے اور انڈین یونین کو بھی انصاف کا راستہ نظر آسکتا ہے۔ افسوس ہے کہ غیر مسلم ایک مدت سے اسلام کی غلط تعبیریں سنتے اور دیکھتے چلے آرہے ہیں‘ اس لیے وہ اسلامی حکومت کا نام سن کر گھبراتے ہیں‘ اور ان میں سے بعض لوگ یہ شور مچانے لگتے ہیں کہ یہاں بھی انڈین یونین کی طرح بے دین جمہوریت قائم ہونی چاہیے، مگر ہم کو تعجب ہے کہ وہ خود ہی اصرار کرکے یہاں اس چیز کا تجربہ کرنا چاہتے ہیں جس کا مزہ آج انڈین یونین کے مسلمان چکھ رہے ہیں۔ کیا واقعی وہ کوئی خوش گوار حالت ہے جس کی تمنا کی جاسکتی ہو؟ کیا اس کے بجائے ایک ایسے نظام کا تجربہ کرنا زیادہ بہتر نہ ہوگا جس کی بنیاد اللہ کے خوف، دیانت اور مستقل اصولوں کی پیروی پر ہو۔

شیئر کریں