آخر یہ صورتِ حالات کیوں ہے؟ اس کی وجہ اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ ہماری مسلمان دنیا زیادہ تر نسلی مسلمانوں پر مشتمل ہے، جو صرف اس وجہ سے مسلمان ہیں کہ ان کے باپ دادا مسلمان تھے اور اتفاق سے یہ مسلمانوں کے گھر پیدا ہو گئے ہیں۔ آپ اگر سنجیدگی سے غور کریں تو یہ حقیقت آپ پر واضح ہو جائے گی کہ انسان کو پیدائش سے نسب مل سکتا ہے، نسلیت مل سکتی ہے، وطنیت مل سکتی ہے، لیکن کسی شخص کو محض پیدائش سے اسلام نہیں مل سکتا۔ آدمی پیدائشی طور پر جاٹ ہو سکتا ہے، راجپوت ہو سکتا ہے، ہندوستانی ہو سکتا ہے، انگریز اور جرمن ہو سکتا ہے، لیکن ماں کے پیٹ اور باپ کے نطفہ سے آدمی کو دین نہیں مل سکتا۔ دین تو صرف اس طرح حاصل ہو سکتا ہے کہ آدمی جان بوجھ کر اسے پسند کرے اور اپنے ارادے سے اس کو اختیار کرے۔ یہ وجہ ہے کہ ہم میں سے جو لوگ نسلی مسلمان ہیں اور محض باپ دادا کے گھر سے انہیں اسلام سے نسبت حاصل ہوئی ہے، ان کے پاس مسلمانوں کے سے نام تو ہیں لیکن وہ صفت ان میں مفقود ہے جس کا نام اسلام ہے، ان کے سامنے وہ طریقِ زندگی ہے ہی نہیں جو اسلام نے ان کے لیے تجویز کیا ہے۔ انہوں نے نہ کبھی اسے جاننے کی کوشش کی ہے، نہ اسے اپنے لیے پسند کیا ہے اور نہ اس پر چلنے کا ارادہ کیا ہے حالانکہ اسلام کی جو حقیقت ہے وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ میں یہ ہے کہ:
ذاق طعم الایمان من رضی باللّٰہ وباو بمحمدٍ رسولاً وبالاسلامِ دیناًo
’’یعنی ایمان کا مزا چکھا اس شخص نے جو راضی ہو گیا اس پر کہ اللہ ہی اس کا رب ہو، اسلام ہی اس کا طریق زندگی ہو، اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس کے رہنما ہوں۔‘‘
اس حدیث کی روشنی میں یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ جس شخص نے سوچ سمجھ کر اسلام کو برضا ورغبت قبول نہیں کیا وہ اسلام اور ایمان کے مزے تک سے ناآشنا ہے، اس نے دین کا ذائقہ چکھا ہی نہیں۔