Search
Close this search box.

فہرست موضوعات

اسلام میں قانون سازی کا دائرہ عمل اور اس میں اجتہاد کا مقام
ایک منکر حدیث کے اعتراضات اور ان کا جواب
مسئلہ اجتہاد کے بارے میں چند شبہات
اجتہاد اور اُس کے تقاضے
مسئلہ اجتہاد میں الفاظ اور رُوح کی حیثیت
قانون سازی، شوریٰ اور اجماع
نظامِ اسلامی میں نزاعی امور کے فیصلے کا صحیح طریقہ
سنت ِرسول بحیثیت ِماخذ قانون
اسلام میں ضرورت و مصلحت کا لحاظ اور اس کے اصول و قواعد
دین میں حکمت ِ عملی کا مقام
غیبت کی حقیقت اور اس کے احکام
غیبت کے مسئلے میں ایک دو ٹوک بات
غیبت کے مسئلے میں بحث کا ایک اور رُخ
دو اہم مبحث:
اسلام اور عدل اجتماعی
یتیم پوتے کی وراثت کا مسئلہ
عائلی قوانین کے کمیشن کا سوالنامہ اور اُس کا جواب
اہلِ کتاب کے ذبیحہ کی حِلّت و حُرمت
انسان کے بنیادی حقوق
مسئلہ خلافت میں امام ابوحنیفہؒ کا مسلک حاکمیت
شہادتِ حسین ؑ کا حقیقی مقصد ۱؎
اقوامِ مغرب کا عبرت ناک انجام
دنیائے اِسلام میں اسلامی تحریکات کے لیے طریق کار

تفہیمات (حصہ سوم)

اس ویب سائٹ پر آپ کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ اب آپ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی رحمتہ اللہ علیہ کی کتابوں کو ’’پی ڈی ایف ‘‘ کے ساتھ ساتھ ’’یونی کوڈ ورژن‘‘ میں بھی پڑھ سکتے ہیں۔کتابوں کی دستیابی کے حوالے سے ہم ’’اسلامک پبلی کیشنز(پرائیوٹ) لمیٹڈ، لاہور‘‘، کے شکر گزار ہیں کہ اُنھوں نے اس کارِ خیر تک رسائی دی۔ اس صفحے پر آپ متعلقہ کتاب PDF اور Unicode میں ملاحظہ کیجیے۔

غیبت کے مسئلے میں بحث کا ایک اور رُخ

اسی مسئلے سے متعلق ایک اور صاحب نے لکھا۔
’’آپ نے ماہ جون ۱۹۵۹ئکے ترجمان میں غیبت کے مسئلے پر بحث کرتے ہوئے خطیب بغدادی کی کتاب الکفایہ فی علم الروایہ سے بعض ائمہ جرح و تعدیل کے جو اقوال نقل کئے ہیں ان کے سلسلے میں ایک بزرگ نے آپ پر بددیانتی کا الزام لگایا ہے۔ انھوں نے خطیب کی کتاب کے اسی باب کی عبارتیں نقل کرکے بتایا ہے کہ خطیب کا نقطۂ نظر تو آپ کی رائے کے بالکل خلاف ہے مگر آپ نے ان کی وہ ساری عبارات چھوڑ کر اس میں سے صرف اپنے مطلب کے بعض اقوال نکال لیے۔ اس معاملے میں آپ اپنی پوزیشن واضح کر دیں۔‘‘
میرے جس مضمون کا آپ حوالہ دے رہے ہیں اسے پھر پڑھ کر دیکھ لیجیے۔ اس میں میں نے کہیں بھی خطیب بغدادی کی آراء سے کوئی استناد نہیں کیا ہے اور نہ ان کو اپنا ہم خیال ظاہر کیا ہے۔ مجھے جب ایک مسئلے کا حکم صاف صاف حدیث میں ملتا ہو تو اس میں خطیب بغدادی یا ان سے بھی بڑے کسی شخص کی رائے کو آخر میں کیا وزن دے سکتا ہوں۔ میں نے صرف ایک راوی کی حیثیت سے بعض ائمۂ جرح و تعدیل کے اقوال ان کی کتاب سے نقل کئے ہیں۔ ان کی اپنی رائے کو میں سند کے طور پر پیش کرتا تو البتہ یہ بددیانتی ہوتی۔
مگر جو بزرگ دوسروں پر بددیانتی کا الزام عائد فرماتے ہیں ان کی اپنی دیانت کے صرف دو نمونے ملاحظہ ہوں۔ یہ دونوں نمونے اسی مضمون میں موجود ہیں جس کا حوالہ آپ دے رہے ہیں۔
انھوں نے علاّمہ ابن حجرؒ کے متعلق لکھا ہے کہ وہ ’’اس کے (یعنی غیبت کے) ایک اور پہلو کو کھولتے ہیں وہ یہ کہ:-
وہو ان یذکرہ فی غیبتہٖ بما فیہ مما یسوء ہ قاصداً بذالک الافساد۔
یعنی اس برائی کے ذکر سے مقصود درحقیقت فساد ڈلوانا ہو۔ دوسرے الفاظ میں اس کو یوں سمجھ سکتے ہیں کہ حافظ ابن حجر غیبت کے غیبت ہونے کے لیے یہ بھی ضروری سمجھتے ہیں کہ اس کا محرک فاسد ہو۔‘‘
اب ذرا فتح الباری جلد دہم صفحہ ۳۶۱ ملاحظہ فرمایئے۔ اس میں علاّمہ ابن حجرؒ کی اصل عبارت یوں ہے:
الغیبۃ قد توجد فی بعض صور النمیمۃ وہو ان یذکرہ فی غیبۃ بما فیہ مما یسوء قاصدا بذالک الافساد
یعنی غیبت نمیمہ (چغلی) کی بھی بعض صورتوں میں پائی جاتی ہے اور وہ یہ ہے کہ آدمی دوسرے کے پیٹھ پیچھے اس کا کوئی واقعی عیب فساد ڈلوانے کی نیت سے بیان کرے جسے اگر وہ سنے تو اسے ناگوار ہو۔
اس عبارت میں علاّمہ موصوف غیبت کی نہیں چغلی کی تعریف بیان کر رہے ہیں اور یہ بتانا چاہتے ہیں کہ اگر آدمی کے پیٹھ پیچھے محض برائی کے ساتھ ذکر کیا جائے تو یہ غیبت ہے اور اگر فساد ڈلوانے کے ارادے سے ایسا کیا جائے تو یہ چغلی ہے۔
اس سے بھی زیادہ عجیب نمونۂ دیانت وہ ہے جو انھوں نے ماعز بن مالک اسلمی کے قصے میں پیش فرمایا ہے۔ وہ خود فرماتے ہیں کہ ماعز کا قصہ مسلم کے جس باب (یعنی باب من اعترف علٰی نفسہٖ بالزنا) میں آیا ہے اس کی ساری احادیث انھوں نے ملاحظہ فرمائی ہیں۔ اور ان تمام احادیث کے ملاحظہ سے جو کچھ انھیں معلوم ہوا ہے وہ یہ ہے کہ واقعۂ رجم کے بہت پہلے سے ان کی شہرت بڑی خراب تھی اور وہ اپنی بعض شدید قسم کی کمزوریوں کے باعث نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کی نگاہوں سے بالکل گر چکے تھے۔ لیکن بدکاری کی سزا اسلام میں چونکہ بڑی ہی سخت ہے اس وجہ سے جب تک یہ صاف طور پر قانون کی گرفت میں نہ آ گئے اس وقت تک ان کے خلاف نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی کارروائی نہیں کی۔
اب ذرا مسلم کے اسی باب کو نکال کر دیکھیے جس کا حوالہ دیا جا رہا ہے۔ اس میں ابوسعید خدریؒ روایت کرتے ہیں کہ جب ماعز نے حضورؐ کے سامنے چار مرتبہ زنا کا اقرار کیا تو آپ نے ان کی قوم سے پوچھا کہ یہ کیسا آدمی ہے۔ انھوں نے کہا :
مَا نَعْلَمُ بِہٖ بَاْسًا اِلاَّ اَنَّہٗ اَصَابَ شَیْئًا یَرَیٰ اَنَّہٗ لاَ یُخْرِجُہٗ مِنْہُ اِلَّا اَنْ یُّقَامَ فِیْہِ الْحَدَّ
اس کے اندر کوئی خرابی ہمارے علم میں نہیں ہے۔ بس اس سے کوئی ایسا فعل سرزد ہو گیا ہے جس کے متعلق اس کا خیال یہ ہے کہ وہ اس کے وبال سے نہیں نکل سکتا جب تک کہ اس پر حد جاری نہ ہو جائے۔
اسی معاملے کے متعلق عبداللہ بن بُریدہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ماعز کی قوم کے لوگوں سے ان کے بارے میں دریافت کیا تو انھوں نے جواب دیا: مَا نَعْلَمُہٗ اِلَّا وَفَّی الْعقل مِنْ صَالِحِیْنَا فِیْمَا نَرٰی (ہم اس کے سوا کچھ نہیں جانتے کہ اس کی عقل بالکل درست ہے اور جہاں تک ہمیں معلوم ہے یہ ہمارے صالح لوگوں میں سے ہے) دوسری مرتبہ پھر آپ نے ان سے دریافت کیا تو انھوں نے عرض کیا: لَا بَاْسَ بِہٖ وَلاَ بِعَقْلِہٖ (نہ اس میں کوئی خرابی ہے اور نہ اس کی عقل میں) سوال یہ ہے کہ آخر مسلم کی کس روایت سے صاحب ِموصوف کو یہ معلوم ہوا کہ ماعز بن مالک کی شہرت پہلے سے بڑی خراب تھی، اور وہ حضور کی اور صحابہ کی نگاہوں سے بالکل گر چکے تھے اور آپؐ انھیں سزا دینے کے لیے صرف اس بات کے منتظر تھے کہ یہ پوری طرح قانون کی گرفت میں آ جائیں؟
یہ پوری عمارت جس بنیاد پر کھڑی کی گئی ہے وہ صرف یہ ہے ’’اس سزا کے فوراً بعد حضورؐ نے ایک خطبہ دیا جس میں ان کے خراب کردار کی طرف ان الفاظ میں اشارہ فرمایا اَوَکُلَّمَا اِنْطَلَقْنَا غُزَاۃً فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ تَخَلَّفَ رَجُلٌ فِیْ عَیَالِنَا لَہٗ نَبِیْبٌ النَّبِیْبُ التَّیْسُ … کم و بیش اسی مضمون کی چار روایتیں امام مسلم نے نقل کی ہیں جن سے اندازہ ہوتا ہے کہ ماعز کے اخلاق و کردار کے متعلق صحابہ رضی اللہ عنہم اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے علم میں کیا باتیں موجود تھیں۔‘‘
اوّل تو یہ بات ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت اور مزاج کے خلاف ہے کہ کسی مسلمان کو موت کی سزا دے چکنے کے بعد فوراً ہی اٹھ کر مجمع عام میں اس کی مذمّت فرماتے۔ اس لیے سیرتِ پاک پر معمولی نظر رکھنے والا آدمی بھی حضورؐ کی تقریر کا وہ مطلب نہیں لے سکتا جو صاحب ِموصوف نے لیا ہے۔ پھر حدیث کے الفاظ بھی اس معاملے میں واضح نہیں ہیں کہ اس کلام سے مقصود ماعز کی مذمت تھی۔ مسلم کی جن چار روایتوں کا حوالہ دیا گیا ہے ان سب کو پڑھ کر دیکھ لیا جائے۔ ان میں سے کسی میں بھی اشارہ اس طرف نہیں ہے کہ ہر جہاد کے موقع پر ماعز بن مالک ہی وہ شخص تھے جو مجاہدین کے پیچھے ان کی عورتوں کو خراب کرنے کی فکر میں پھرتے رہتے تھے۔ بلکہ ان سے صرف یہ معلوم ہوتا ہے کہ زنا کے جرم میں رجم کی پہلی سزا دینے کے بعد حضورؐ نے اپنے خطبے میں مدینہ کے ان لوگوں کو متنبّہ کرنا چاہا تھا جو غزوات کے موقع پر مجاہدین کے چلے جانے کے بعد ان کے گھروں کے چکر کاٹا کرتے تھے۔ آپ نے اس نفسیاتی موقع پر جب کہ سارا مدینہ سنگ ساری کی اس ہولناک سزا پر لرز اٹھا تھا ان کو نوٹس دیا کہ اب یہاں یہ سخت فوجداری قانون نافذ ہو چکا ہے، آیندہ جو شخص بھی یہ حرکت کرے گا اسے وہی سزا دی جائے گی جو آج ماعز کو دی گئی ہے۔ صرف اتنی سی بات کہ حضورؐ نے تَحَلَّفَ رَجُلٌ کے الفاظ استعمال کیے تھے، یہ نتیجہ نکالنے کے لیے کافی نہیں ہے کہ اس رَجُلٌ (ایک شخص) سے مراد ماعز ہی تھے۔ دوسری روایات میں مِنْ اَحَدِہِمْ یا مِنْ اَحَدِکُمْ (تم میں سے یا ان لوگوں میں سے کوئی شخص) کے الفاظ آئے ہیں اور ما عز کے متعلق پورے ذخیرۂ حدیث و رجال میں کہیں بھی یہ مذکور نہیں ہے کہ وہ اس طرح کے اوباش لوگوں میں سے تھے۔ اس کے برعکس ان کے حق میں تو ان کی قوم کی مثبت شہادت یہ موجود تھی کہ وہ ایک صالح آدمی ہیں اور احیاناً ان سے ایک گناہ سرزد ہو گیا ہے۔ اسی بنا پر محدّثین نے ان کو صحابہ میں شمار کیا ہے اور ان کے سزا یافتہ ہونے کے باوجود عبداللہ بن ماعز کے واسطے سے ان کی روایت ِحدیث قبول کی ہے۔ ورنہ ظاہر ہے کہ اگر وہ ایک اوباش آدمی ہوتے اور مجاہدین کے پیچھے ان کی عورتوں کی عصمت کے در پے رہنے والے ہوتے تو انھیں صحابی ماننے اور ان کی روایت قبول کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہو سکتا تھا۔
آگے چل کر ارشاد ہوتا ہے ’’ماعز کے رجم کے بعد صحابہ رضی اللہ عنہم دو گروہوں میں بٹ گئے۔ ایک گروہ کی رائے یہ تھی کہ اس شخص کے گناہوں نے اس کو اس طرح اپنی لپیٹ میں لے لیا کہ آخرکار یہ شخص تباہ ہو کے رہا۔ ان لوگوں کے نزدیک ماعز کے اقرارِجرم اور ان کے اظہارِ توبہ کی کوئی اہمیّت نہ تھی۔ اُن چیزوں کو یہ لوگ آب از سر گزشت کے بعد کی بے سود باتیں سمجھتے تھے اور ماعز کے خلاف ان لوگوں کو جو غصّہ تھا اس پر وہ بدستور قائم تھے۔‘‘
اس عمارت کی بنیاد حدیث کی جس عبارت پر رکھی گئی ہے۔وہ صاحب موصوف نے خود نقل فرمائی ہے کہ قَائِلٌ یَّقُوْلُ لَقَدْ ہَلَکَ لَقَدْ اَحَاطَتْ بِہٖ خَطِیْئَتُہٗ اس کا صحیح ترجمہ تو یہ ہے کہ ’’کوئی کہتا تھا یہ شخص ہلاک ہو گیا۔ اس کو اس کے گناہ نے اپنی لپیٹ میں لے لیا۔‘‘ لیکن موصوف نے اس کا ترجمہ یہ فرمایا ہے ’’ایک گروہ کہتا تھا یہ شخص برباد ہو گیا۔ اس کو اس کے گناہوں نے اپنے گرداب میں لے لیا۔‘‘ خَطِیْئہٗ کا ترجمہ ’’گناہ‘‘ کیا جاتا تو یہ نظر یہ ٹھیر نہ سکتا تھا کہ ماعز پہلے سے سخت بدکار آدمی تھے اور صحابہ ان کے خلاف غصّے میں بھرے بیٹھے تھے اس لیے اس کو خطایا فرض کرکے ترجمہ ’’گناہوں‘‘ کر دیا گیا تاکہ اس جرم زنا کے بجائے بہت سے اس طرح کے جرائم اس صحابی کے ذمے ڈالے جائیں جس کے مغفور اور جنتی ہونے کی خبر خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دی ہے اور جس غریب کو دنیا سے رخصت ہوئے آج پونے چودہ سو برس گزر چکے ہیں۔
اس کے بعد جن لوگوں نے ماعز کے بارے میں یہ رائے زنی کی تھی کہ ’’اس شخص کو دیکھو۔ اللہ نے اس کا پردہ ڈھانک دیا تھا مگر اس کے نفس نے اس کا پیچھا اس وقت تک نہ چھوڑا جب تک یہ کتے کی موت نہ مار دیا گیا۔‘‘ ان کے بارے میں فرمایا جاتا ہے۔ ’’ان کی رائے زنی کی نوعیت ہمدردانہ اظہار افسوس کی نہیں تھی بلکہ یہ لوگ جیسا کہ عرض کر چکا ہوں، ماعز کی پچھلی خراب شہرت کی بنا پر ان کے بارے میں نہایت سخت رائے رکھتے تھے اور ان کے اعترافِ جرم کے معاملے کو کوئی اہمیّت نہ دیتے تھے۔ اس وجہ سے زیر بحث رائے زنی میں صرف تحقیر و تذلیل ہی کا جذبہ نہیں بلکہ نہایت شدید قسم کی نفرت و بیزاری کا جذبہ بھی موجود ہے۔‘‘
اُس زیر بحث رائے زنی کے الفاظ آپ کے سامنے موجود ہیں۔ کیا ان سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ وہ ماعز کی خراب شہرت کی بنا پر ان کے بارے میں نہایت سخت رائے رکھتے تھے اور ان سے سخت متنفر اور بیزار تھے، اور یہ سمجھتے تھے کہ ایسے برے آدمی کا یہی انجام ہونا چاہیے تھا؟ اگر ان کے جذبات یہی ہوتے تو انھیں یہ کہنے کی کیا ضرورت تھی کہ اس شخص کا پردہ اللہ نے ڈھانک دیا تھا مگر یہ نہ مانا؟ ان الفاظ کا مطلب آخر اس کے سوا اور کیا ہے کہ وہ چاہتے تھے کہ جب اللہ نے اس کا پردہ ڈھانک دیا تھا اور کوئی شہادت اس کے خلاف موجود نہ تھی تو یہ اس پردے کو ڈھکا رہنے دیتا اور خواہ مخواہ بار بار اعترافِ جرم کرکے سزا نہ پاتا۔ کیا اس شخص کے سزا سے بچ جانے کی یہ خواہش جو ان کے الفاظ سے ظاہر ہو رہی ہے ان لوگوں کے دل میں اس لیے تھی کہ وہ ماعز کی پچھلی بدکاریوں کے باعث ان سے سخت بیزار تھے اور مطمئن تھے کہ یہ شخص ٹھیک کیفر کردار کو پہنچ گیا؟
میں اس کارنامے پر کوئی تبصرہ نہیں کرنا چاہتا۔ آپ خود دیکھ سکتے ہیں کہ محض اپنے ایک نظریے کو سہارا دینے کے لیے کس طرح ایک پوری داستان گھڑد ی گئی ہے اور صحیح مسلم کو آلۂ کار بنا کر ایک صحابی تک کو بدترین الزامات کا ہدف بنا دینے میں تامل نہیں کیا گیا ہے۔ اس کے بعد تو ہر اس الزام پر آدمی کو صبر کرنا ہی چاہیے جو صاحب موصوف کی طرف سے اس پر لگایا جائے۔
(ترجمان القرآن۔ اکتوبر ۱۹۵۹ء)
٭…٭…٭…٭…٭

شیئر کریں