یہ تو ہے حقیقت کے خلاف اس تصور کی بغاوت۔ اب ذرا اس کی فتنہ انگیزی کا اندازہ کیجیے۔ آج جس چیز کو آپ اسلامی نظام حیات اور اسلامی تہذیب و تمدن کہتے ہیں، جس کے اصولوں اور عملی مظاہر کی یکسانی نے دنیا بھر کے مسلمانوں کو ایک ملت بنا رکھا ہے۔ جس کی یک رنگی نے مسلم کو مسلم سے جوڑا اور کافر سے توڑا ہے، جس کی امتیازی خصوصیات نے مسلمانوں کو ساری دنیا میں غیر مسلموں سے ممیز کیا اور سب سے الگ ایک مستقل امت بنایا ہے، اس کا تجزیہ کرکے آپ دیکھیں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ اس کا کم از کم ۱۰ /۹ حصہ وہ ہے جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اقتدار رسالت سے مسلمانوں میں رائج کیا ہے اور بمشکل ۱۰ /۱ حصہ ایسا ہے جس کی سند قرآن میں ملتی ہے۔ پھر اس۱۰/ ۱ کا حال بھی یہ ہے کہ اگر اس پر عمل در آمد کی صورت شریعت میں واجب الاتباع نہ ہو جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مقرر کی ہے تو دنیا میں مختلف مسلمان …… افراد بھی اور گروہ بھی اور ریاستیں بھی۔ اس پر عمل درآمد کی اتنی مختلف شکلیں تجویز کرلیں کہ ان کے درمیان کوئی وحدت یک رنگی باقی نہ رہے۔ اب خود اندازہ کر لیجیے کہ اگر وہ سب کچھ ساقط کر دیا جائے جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے رواج دینے سے مسلمانوں میں رائج ہے تو اسلام میں باقی کیا رہ جائے گا جسے ہم اسلامی تہذیب و تمدن کہ سکیں اور جس پر دنیا بھر کے مسلمان مجتمع رہ سکیں۔