آگے بڑھنے سے پہلے ہم اس طرح کی تاویلات کرنے والے حضرات کو ایک سوال پر غور کرنے کی دعوت دیتے ہیں۔ قرآن مجید کی جن آیات پر وہ کلام فرما رہے ہیں ان کو نازل ہوئے ۱۳۸۰ سال گزر چکے ہیں۔ اس پوری مدت میں مسلم معاشرہ دنیا کے ایک بڑے حصے میں مسلسل موجود رہا ہے۔ آج کسی ایسی معاشی یا تمدنی یا سیاسی حالت کی نشان دہی نہیں کی جاسکتی جو پہلے کسی دَور میں بھی مسلم معاشرے کو پیش نہ آئی ہو۔ لیکن آخر کیا وجہ ہے کہ پچھلی صدی کے اواخر سے پہلے پوری دنیائے اسلام میں کبھی یہ تخیل پیدا نہ ہوا کہ تعددِ ازواج کو روکنے یا اس پر سخت پابندیاں لگانے کی ضرورت ہے؟ کیا اس کی کوئی معقول توجیہ اس کے سوا کی جاسکتی ہے کہ اب ہمارے ہاں یہ تخیل اُن مغربی قوموں کے غلبے کی وجہ سے پیدا ہوا ہے جو ایک سے زائد بیوی رکھنے کو ایک قبیح و شنیع فعل، اور خارج از نکاح تعلقات کو (بشرطِ تراضیِ طرفین) حلال و طیب یا کم از کم قابل درگزر سمجھتی ہیں، جن کے ہاں بیوی کی موجودگی میں داشتہ رکھنا تو جرم نہیں ہے مگر اسی داشتہ سے نکاح کرلینا جرم ہے۔ اگر صداقت کے ساتھ فی الواقع اس کے سوا اس تخیل کے پیدا ہونے کی کوئی توجیہ نہیں کی جاسکتی توہم پوچھتے ہیں کہ اس طرح خارجی اثرات سے متاثر ہو کر قرآنی آیات کی تعبیریں کرنا کیا کوئی صحیح طریق اجتہاد ہے؟ اور کیا عام مسلمانوں کے ضمیر کو ایسے اجتہاد پر مطمئن کیا جاسکتا ہے؟