Search
Close this search box.

فہرست موضوعات

عرضِ ناشر
اسلام کی ابتدا (بچوں کے پروگرام میں)
سرورِ عالم ﷺ
میلادُ النبیؐ
سرورِ عالم ﷺ کا اصلی کارنامہ
معراج کی رات
معراج کا پیغام
معراج کا سفرنامہ
شب برأت
روزہ اور ضبطِ نفس
عید قربان
قربانی
پاکستان کو ایک مذہبی ریاست ہونا چاہیے
زندگی بعد موت

نشری تقریریں

اس ویب سائٹ پر آپ کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ اب آپ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی رحمتہ اللہ علیہ کی کتابوں کو ’’پی ڈی ایف ‘‘ کے ساتھ ساتھ ’’یونی کوڈ ورژن‘‘ میں بھی پڑھ سکتے ہیں۔کتابوں کی دستیابی کے حوالے سے ہم ’’اسلامک پبلی کیشنز(پرائیوٹ) لمیٹڈ، لاہور‘‘، کے شکر گزار ہیں کہ اُنھوں نے اس کارِ خیر تک رسائی دی۔ اس صفحے پر آپ متعلقہ کتاب PDF اور Unicode میں ملاحظہ کیجیے۔

عید قربان

تہوار اور انسان کی سماجی زندگی میں چولی دامن کا ساتھ ہے۔ جب سے آدمی نے اس زمین پر سماجی زندگی بسر کرنی شروع کی ہے، غالبًا اسی وقت سے تہوار منانے کا سلسلہ بھی چلا آرہا ہے۔ دنیا میں کوئی قوم ایسی نہیں ہے، اور کبھی نہیں رہی جس نے سال میں دو چار یا دس پانچ دن اس غرض کے لیے مخصوص نہ کیے ہوں۔ یہ تہوار دراصل سماج کی جان ہیں۔ لوگوں کا ایک جگہ جمع ہونا، مشترک جذبات کا مظاہرہ کرنا، مل کر خوشیاں منانا، ایک ہی قسم کی مقرر رسمیں ادا کرنا، یہ اپنے اندر سریش کی سی خاصیت رکھتا ہے جس سے افراد آپس میں جڑ کر ایک مربوط سوسائٹی بنتے ہیں اور ان میں اجتماعی روح نہ صرف پیدا ہوتی ہے بلکہ تھوڑے تھوڑے وقفوں سے تازہ اور بیدار ہوتی رہتی ہے۔
عموماً جو تہوار دنیا کے مختلف ملکوں اور قوموں میں منائے جاتے ہیں ان کا جائزہ لینے سے معلوم ہوتا ہے کہ ہر تہوار یا تو کسی اہم تاریخی واقعہ کی یادگار میں منایا جاتا ہے، یا کسی بڑے شخص کی ذات سے منسوب ہوتا ہے، یا کسی خاص مذہبی تقریب سے تعلق رکھتا ہے۔ بہرحال تہوار کے لیے کوئی نہ کوئی ایسی تقریب ضروری ہے جو ایک قوم کے افراد یا ایک ملک کے باشندوں کے لیے مشترک دلچسپی کی چیز ہو اور جس سے ان کے گہرے جذبات وابستہ ہوں۔ اسی وجہ سے ایک قوم یا ملک کے تہواروں میں دوسری قوم یا ملک کے لوگ دلچسپی نہیں لیتے، اور کسی مصلحت سے بہ تکلف دلچسپی لینا چاہیں بھی تو نہیں لے سکتے، کیونکہ ایک قوم کا تہوار جن روایات سے تعلق رکھتا ہے وہ دوسری قوم کے جذبات و احساسات میں وہ حرکت پیدا نہیں کرتیں جو خود اس قوم میں پیدا کرتی ہیں۔
تہوار منانے کے طریقے بھی دنیا کی مختلف قوموں میں بے شمار ہیں۔ کہیں صرف کھیل کود اور راگ رنگ اور لطف و تفریح تک ہی تہوار محدود رہتا ہے۔ کہیں تفریحات تہذیب کی حد سے گزر کر فسق و فجور اور ناشائستگی کی حد تک پہنچ جاتی ہیں۔ کہیں تفریحات کے ساتھ کچھ سنجیدہ مراسم بھی ادا کیے جاتے ہیں۔ اور کہیں ان اجتماعی تقریبوں سے فائدہ اٹھا کر لوگوں میں اعلیٰ درجہ کی اخلاقی روح پھونکنے اور کسی بلند نصب العین کے ساتھ محبت اور گرویدگی پیدا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ غرض ایک قوم کے تہوار منانے کا طریقہ گویا ایک پیمانہ ہے جس سے آپ اس کے مزاج اور اس کے حوصلوں اور امنگوں کو علانیہ ناپ کر دیکھ سکتے ہیں۔ جتنی بلند اخلاقی روح کسی قوم میں ہوگی اتنے ہی اس کے تہوار مہذب اور پاکیزہ ہوں گے۔ اور اسی طرح اخلاقی اعتبار سے کوئی قوم جتنی پست ہوگی وہ اپنے تہواروں میں اتنے ہی مکروہ مناظر پیش کرے گی۔
اسلام چونکہ ایک عالمگیر اصلاحی تحریک ہے جو کسی خاص ملک یا قوم سے تعلق نہیں رکھتی بلکہ تمام دنیا کے انسانوں کو ایک خدا پرستانہ تہذیب کا پیرو بنانا چاہتی ہے، اس لیے اس نے جہاں زندگی کے ہر شعبہ کو اپنے خاص ڈھنگ پر ڈھالا ہے، اسی طرح تہواروں کو بھی ایک نئی شکل دی ہے جو دنیا بھر کے تہواروں سے مختلف ہے، سماجی زندگی میں تہوار کی جو اہمیت ہے، اور سماج میں اجتماعی تقریبات کے لیے جو ایک قدرتی پیاس پائی جاتی ہے، اس کو تو اسلام نے نظر اندازنہیں کیا ہے بلکہ اس سے فائدہ اٹھانے کی پوری کوشش کی ہے، مگر تہوار کی تقریب اور تہوار منانے کے طریقے اور تہوار کی اخلاقی روح میں بنیادی تغیر کر دیا ہے۔ جس کی تین اہم خصوصیات کی طرف میں آپ کی توجہ دلائوں گا۔
(۱) ایک عالمگیر تحریک قومی تہواروں کو پسندیدگی کی نظر سے نہیں دیکھ سکتی۔ جن تہواروں کی بنیاد الگ الگ قوموں کی روایات پر ہو، جن کے ساتھ ایک ہی قوم کے جذبات اور دلچسپیاں وابستہ ہوں، اور جن میں ایک قوم کے ساتھ دوسری قوم فطرتاً شریک نہ ہوسکتی ہو۔ وہ دراصل انسانیت کی قومی تقسیم و تفریق کو مضبوط کرنے والی طاقت ہیں۔ ایسے تہوار جس طرح ایک قوم کو اپنے اندر منظم ہونے میں مدد دیتے ہیں اسی طرح وہی ہر قوم کو دوسری قوم سے پھاڑنے اور الگ کرنے کی خدمت بھی انجام دیتے ہیں۔ لہٰذا کوئی ایسی تحریک جو قومیتوں سے بالاتر ہو، انسانیت سے بحث کرتی ہو اور تمام دنیا کے انسانوں کو ایک تہذیب کے رشتے میں پرونا چاہتی ہو، اس قسم کے تہواروں کو صرف یہی نہیں کہ قبول نہیں کرسکتی بلکہ گوارا بھی نہیں کرسکتی، کیونکہ وہ اس کے مقصد کی راہ میں بالفعل ایک رکاوٹ ہوتے ہیں۔ اس کے پیش نظر مقصد کا فطری اقتضا یہی ہے کہ جو قومیں اس کے زیر اثر آئیں ان سے وہ قومی تہوار چھڑوا دے اور ایسے تہوار مقرر کرے جن میں وہ سب شریک ہو سکتی ہوں، جو بیک وقت قومی بھی ہوں اور بین الاقوامی بھی، جن کی بنیاد قومی روایات و جذبات پر نہ ہو بلکہ انسانیت کے لیے مشترک اہمیت رکھنے والے جذبات و روایات پر ہو۔
(۲) پھر جو تحریک عالمگیر ہونے کے ساتھ خدا پرستانہ بھی ہو وہ ایسے تہواروں کو گوارا نہیں کرسکتی جن میں شرک اور مخلوق پرستی اور مشرکانہ توہمات کا کوئی ادنیٰ شائبہ بھی پایا جاتا ہو۔ وہ اپنے مشن کی عین فطرت کے لحاظ سے مجبور ہے کہ جن جن قوموں اور ملکوں میں اس کا اثر پھیلے ان کے پرانے مذہبی تہواروں کو اور ان سب تقریبات کو جو قدیم عقائد کی یادتازہ کرنے والی ہوں، بند کر دے اور ان کی جگہ ایسے تہوار مقرر کرے جو خدا پرستی کا گہرا رنگ لیے ہوئے ہوں۔
(۳) خدا پرستی کے ساتھ لازمی طور پر اخلاق کا بھی ایک بلند نصب العین پیدا ہوتا ہے اور اس کا تقاضا یہ ہے کہ ایک خدا پرستانہ تحریک اپنے پیروئوں کو ایسے تہوار دے جو فسق و فجور اور ناشائستگی سے بالکل خالی ہوں، جن میں لطف و تفریح تہذیب کے ساتھ اور اظہار مسرت سنجیدگی کے ساتھ ہو، جو محض کھیل کود ہی پر ختم نہ ہو جائیں بلکہ جماعتی زندگی میں تہوار سے جو ایک حرکت پیدا ہو جاتی ہے اس کو اعلیٰ درجہ کے اخلاقی مقاصد کے لیے پوری طرح استعمال کیا جائے۔
اسلام نے اپنے پیرئوں کے لیے جو تہوار مقرر کیے ہیں ان میں تینوں خصوصیتیں نمایاں نظر آتی ہیں۔ عرب، ایران، مصر، شام اور دوسرے ملکوں میں جن قوموں نے اسلام قبول کیا ان کے تمام مذہبی اور قومی تہوار اسلام نے چھڑوا دئیے، اور ان کی جگہ دو تہوار رائج کیے جنہیں آپ عید اور بقر عید کے نام سے جانتے ہیں۔ ان میں سے پہلا تہوار تو اس خوشی میں منایا جاتا ہے کہ خدا کے نام پر رمضان کے تیس روزے رکھنے کا جو حکم ہم کو دیا گیا تھا اس کی تعمیل کرنے میں ہم کامیاب ہوگئے۔ لہٰذا اس تعمیل فرمان سے فارغ ہو کر ہم اپنے مالک کا شکر بجالاتے ہیں۔ رہا دوسرا تہوار تو وہ اس بے نظیر قربانی کی یادگار ہے جو اب سے چار ہزار برس پہلے خدا کے ایک سچے فرمانبردار بندے نے اپنے مالک کے حضور پیش کی تھی۔ ان دونوں تہواروں میں آپ صریحاً دیکھ سکتے ہیں کہ کسی مخصوص قومیت یا وطنیت کا لگائو بالکل نہیں ہے بلکہ وہ ایسی چیزوں کو تہوار کی بنیاد بنایا گیا ہے جن سے دنیا کے سارے خدا پرست انسانوں کے جذبات یکساں وابستہ ہوسکتے ہیں۔ اسی طرح دونوں تہواروں میں خداوند عالم کی خالص بندگی کا گہرا رنگ پایا جاتا ہے۔ کسی قسم کی اکابر پرستی (heroworship) کا یا کسی مخلوق کی پرستاری کا ادنیٰ شائبہ بھی آپ ان میں نہیں پاسکتے۔ پھر ان تہواروں کے منانے کا طریقہ جو مقرر کیا گیا ہے وہ بھی اتنا پاکیزہ ہے کہ اس سے زیادہ نفیس، مہذب اور اخلاقی فائدوں سے لبریز تصور میں نہیں آسکتا۔ بعد کے مسلمانوں نے اسلامی عید کی اصلی شان کو کسی حد تک جاہلیت کے افعال سے داغدار کر دیا ہے، لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں جس طرح عید منائی جاتی تھی اس کا نقشہ میں آپ کے سامنے کھینچتا ہوں جس سے آپ اس تہوار کی پاکیزگی کا صحیح اندازہ کرسکیں گے۔
عید کے روز صبح کو تمام مسلمان، عورت، مرد، بچے غسل کرتے تھے اور اچھے سے اچھے کپڑے جو خدا نے ان کو دیئے ہوں پہن کر نکلتے تھے۔ رمضان کی عید میں نماز کے لیے جانے سے پہلے تمام خوش حال لوگ ایک مقرر مقدار میں کھانے کا سامان یا اس کی قیمت غریبوں کو دیتے تھے تاکہ کوئی شخص عید کے روز بھوکا نہ رہ جائے۔ بقر عید میں اس کے برعکس نماز کے بعد گھر واپس آکر قربانی کی جاتی تھی اور اس کا گوشت تقسیم کیا جاتا تھا۔ ذرا دن چڑھنے پر سب لوگ گھروں سے نکل کھڑے ہوتے تھے۔ حکم تھا کہ عورت، مرد، بچے سب نکلیں تاکہ مسلمانوں کی کثرت اور ان کی شان کا اظہار ہو، خدا سے مانگنے میں بھی سب شریک ہوں، اور اس اجتماعی مسرت میں بھی سب کو شرکت کا موقع مل جائے۔ عید کی نماز مسجد کے بجائے بستی کے باہر میدان میں ہوتی تھی تاکہ بڑا مجمع ہوسکے۔ نماز کے لیے وقت سارے مسلمان یہ تکبیر پڑھتے ہوئے چلتے تھے۔
اَللّٰہُ اَکْبَرُ اَللّٰہُ اَکْبَرُ لَااِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ وَاللّٰہُ اَکْبَرُ اَللّٰہُ اَکْبَرُولِلّٰہُ الْحَمْدُ۔
’’اللہ سب سے بڑا ہے۔ اللہ سب سے بڑا ہے۔ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں۔ اللہ ہی سب سے بڑا ہے اور اللہ ہی سب سے بڑا ہے، ساری تعریفیں اللہ ہی کے لیے ہیں۔‘‘
ہر گلی، ہر کوچے، ہر محلے، ہر بازار اور ہر سڑک پر یہی نعرے لگتے تھے جن سے ساری بستی گونج اٹھتی تھی۔
عید گاہ کے میدان میں جب سب لوگ جمع ہو جاتے تو صفیں باندھ کر سارا مجمع رسول خدا کی امامت میں پوری باقاعدگی کے ساتھ دو رکعت نماز ادا کرتا۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہو کر خطبہ دیتے۔ جمعہ کی نماز کے برعکس یہ خطبہ نماز کے بعد ہوتا تھا تاکہ زیادہ سے زیادہ آدمی اپنے لیڈر کی اس اہم تقریر کے وقت موجود رہیں جس کا موقع سال میں صرف دو ہی مرتبہ آتا ہے پہلے ایک تقریر مردوں کے سامنے ہوتی۔ پھر آپ میدان کے اس حصہ کی طرف تشریف لے جاتے جہاں عورتیں جمع ہوتی تھیں۔ اور وہاں بھی تقریر فرماتے تھے۔ ان تقریروں میں تعلیم و تلقین اور وعظ و نصیحت کے علاوہ اسلامی جماعت کے متعلق ان تمام اہم مسائل پر بھی روشنی ڈالی جاتی تھی جو اس وقت درپیش ہوتے تھے۔ کوئی فوجی یا سیاسی مہم اگر پیش نظر ہوتی تو اس کا انتظام بھی وہیں اسی مجمع میں کر دیا جاتا۔ جماعتی ضروریات کی طرف بھی لوگوں کو توجہ دلائی جاتی اور ہر شخص اپنی حیثیت کے مطابق ان کے پورا کرنے میں حصہ لیتا، حتیٰ کہ روایات میں آیا ہے کہ عورتیں اپنے زیور تک اتار اتار کر خدا کے دین اور جماعت مسلمین کی خدمت کے لیے پیش کر دیتی تھیں۔
پھر یہ مجمع عیدگاہ سے پلٹتا تھا اور حکم یہ تھا کہ جس راستہ سے آتے ہو اس کے خلاف دوسرے راستے سے گھروں کی طرف واپس جائو تاکہ بستی کا کوئی حصہ تمہاری چہل پہل سے اور تمہاری تکبیروں کی گونج سے خالی نہ رہ جائے۔
نماز سے فارغ ہو کر بقر عید کے روز تمام ذی استطاعت مسلمان قربانی کرتے تھے۔ اس قربانی کا مقصد اس واقعہ کی یاد ہی کو نہیں بلکہ ان جذبات کو بھی تازہ کرنا تھا جن کے ساتھ عراق کا رہنے والا ایک غریب الوطن بوڑھا انسان مکہ میں خدا کا اشارہ پاتے ہی خود اپنے بیٹے کو خدا کی محبت پر قربان کرنے کے لیے تیار ہوگیا تھا اور عین وقت پر خدا نے اپنے رحم و کرم سے اس کو بیٹے کے بدلے مینڈھے کی قربانی پیش کرنے کی اجازت دے دی تھی۔ ٹھیک اسی تاریخ کو اسی وقت تمام مسلمان وہی فعل عملاً کرکے اس جذبے کو تازہ کرتے ہیں کہ حضرت ابراہیم ؑ کی طرح وہ بھی خدا کے مسلم اور مطیع فرمان بندے ہیں، انہی کی طرح اپنی جان، مال، اولاد ہر چیز کو خدا کے حکم اور اس کی محبت پر قربان کرنے کے لیے تیار ہیں اور ان کا جینا اور مرنا سب کچھ خدا کے لیے ہے۔ اس نیت کا اظہار جانور کو ذبح کرنے کے فعل سے اور ان الفاظ سے ہوتا ہے جو ذبح کے وقت زبان سے ادا کیے جاتے ہیں۔
اِنِّىْ وَجَّہْتُ وَجْہِيَ لِلَّذِيْ فَطَرَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ عَلٰی مِلَّۃِ اِبْرَاھِیْمَ حَنِیْفًا وَمَا اَنَا مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ۔ اِنَّ صَلٰوتِیْ وَنُسُکِیْ وَ مَحْیَایَ ومَمَاتِیْ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ۔ لَاشَرِیْکَ لَہٗ وَبِذَالَکُ امِرْتُ وَاَنَا مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ۔ اَللّٰھُمَّ مِنْکَ وَلَکَ۔ بِسْمِ اللّٰہِ اَللّٰہُ اَکْبَرُ۔
’’میں نے اپنا رخ پھیر دیا اس ذات کی طرف جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا ہے۔ میں ٹھیک اسی طریقہ کا پیروں ہوں جو ابراہیمؑ کا طریقہ تھا۔ میں خدا کے ساتھ دوسروں کو شریک ٹھیرانے والوں میں سے نہیں ہوں۔ میری نماز اور میری قربانی، میری زندگی اور میری موت سب کچھ اللہ پروردگار عالم کے لیے ہے جس کا کوئی شریک نہیں۔اسی کا مجھے حکم دیا گیا ہے اور میں خدا کے فرماں بردار بندوں میں سے ہوں۔ خدایا! یہ تیرا ہی دیا ہوا مال ہے اور تیرے ہی لیے حاضر ہے، بسم اللہ اللہ اکبر۔‘‘
یہ الفاظ زبان سے ادا کرتے ہوئے جانور ذبح کیا جاتا تھا اور اس منظر کو گھر کی عورتیں اور بچے سب دیکھتے تھے تاکہ سب کے دلوں میں وہی قربانی اور خدا کی محبت و فرماں برداری کے جذبات تازہ ہو جائیں۔ پھر یہ گوشت غریبوں اور رشتہ داروں اور دوستوں میں تقسیم کر دیا جاتا تھا اور اس کا ایک حصہ گھر میں اپنے کھانے کے لیے بھی رکھ لیا جاتا تھا۔ جانور کی کھال یا اس کی قیمت غریب لوگوں کو دے دی جاتی تھی۔ اور اس کے علاوہ بھی دل کھول کر خیرات کی جاتی تھی تاکہ عید صرف خوش حال لوگوں ہی کا تہوار بن کر نہ رہ جائے۔
بس یہ عید تھی جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں منائی جاتی تھی۔ ان ’’سرکاری‘‘ مراسم کے علاوہ ’’غیر سرکاری‘‘ طور پر جو ان لوگ کچھ کھیل کود بھی لیتے تھے اور گھروں کی لڑکیاں بالیاں مل بیٹھ کر کچھ گیت بھی گا لیا کرتی تھیں۔ مگر یہ چیز بس ایک حد کے اندر ہی تھی، اس سے آگے قدم بڑھانے کی اجازت نہ تھی۔ بلکہ سوسائٹی کے لیڈرتو جوانوں کی ان جائز اور معصوم خوش فعلیوں میں بھی حصہ لینے سے اجتناب کرتے تھے تاکہ ان کی اتنی ہمت افزائی نہ ہو جس سے وہ ناروا مظاہرے کرنے کی جرأت کرنے لگیں۔
اس معاملہ میں لیڈروں کا جو طرز عمل تھا اس کا اندازہ اس واقعہ سے ہوسکتا ہے جو مستند روایات میں بیان ہوا ہے۔ ایک دفعہ عید کے روز نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے گھر میں داخل ہوئے تو دیکھا حضرت عائشہؓ کے پاس پڑوس کی دو لڑکیاں بیٹھی گیت گارہی ہیں۔ گیت کچھ عشق و عاشقی اورشراب و کباب کے مضمون کے نہ تھے بلکہ جنگ بعاث کے زمانہ کے گیت تھے۔ لڑکیاں بھی کوئی پیشہ ور فن کار و موسیقار نہ تھیں بلکہ گھروں کی بہو بیٹیاں تھیں جو کبھی دل بہلانے کو آپس میں بیٹھ کر معصومانہ گیت گالیا کرتی ہیں۔ رسول اللہؐ نے ان کی اس تفریح میں دخل نہ دیا اور خاموشی کے ساتھ ایک گوشہ میں جاکر چادر اوڑھ کر لیٹ گئے۔ تھوڑی دیر بعد حضرت ابوبکرؓ آئے اور انہوں نے اپنی صاحبزادی کو ڈانٹ پلائی کہ رسولؐ کے گھر میں یہ کیا شیطانی حرکت ہے۔ ان کی آواز سن کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے چہرے سے کپڑا ہٹایا اور فرمایا’’ رہنے دو، ہر قوم کی ایک عید ہوتی ہے، آج ہماری عید ہے۔‘‘ آنحضرتؐ کا یہ ارشاد سن کر حضرت ابوبکرؓ خاموش ہوگئے‘ مگر وہ سلسلہ جاری نہ رہ سکا۔ ان کے پیٹھ موڑتے ہی حضرت عائشہؓ نے لڑکیوں کو آنکھ کا اشارہ کیا اور وہ اپنے گھروں کو بھاگ گئیں۔ اس واقعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ جو ان لوگوں کے معصومانہ کھیل کود اور کچھ گا بجا لینے کو جائز تو رکھا جاتا تھا مگر بڑے لوگ خود ان دلچسپیوں میں حصہ لے کر ان کی ہمت نہیں بڑھاتے تھے۔ بعد میں سب بڑوں نے حدود کی نگہداشت چھوڑ دی تو رسی ڈھیلی ہی ہوتی چلی گئی حتیٰ کہ ناچ رنگ سے گزر کر معاملہ یہاں تک پہنچا کہ ؎
روز عید است لب خشک زمے ٓلود کنید
چارۂ کار خود اے تشنہ لباں زُود کنید
۲۹۔ دسمبر ۱۹۴۱ئ ؁

شیئر کریں