سوال : علم غیب اگر خداوند تعالیٰ کی مخصوص صفت ہے تو یہ کسی بھی مخلوق میں نہ ہونی چاہیے۔لیکن قرآن وحدیث اس امر پر دلالت کرتے ہیں کہ انبیا ورسل کو علم غیب ہوتا ہے۔ پھر کسی مخلوق میں یا کسی فرد میں اس صفت کو ہم تسلیم کریں تو مرتکب شرک کیوں ہوتے ہیں؟ اور اگر کوئی یہ عقیدہ رکھتا ہے کہ آںحضرت ﷺ کو اﷲ تعالیٰ نے قیامت تک کا علم دے رکھا تھا تو آخر اسے مشرک کیوں کہا جائے؟جن لوگوں کے خلاف اسی بِنا پر شرک کے ارتکاب کا فتویٰ لگایا جاتا ہے،وہ لوگ آںحضرت ﷺ کی صفت علم غیب کو ذاتی یا نفسی نہیں کہتے بلکہ خدا کی دین قرار دیتے ہیں۔ ان کا اور دوسرے علما کا اگر اختلاف ہے تو صرف کم یا زیادہ پر ہے۔جب مسئلہ کم وبیش کا ہی ہے تو پھر فتویٰ شرک کیوں؟
جواب: علم غیب کے مسئلے میں یہ بات سب مانتے ہیں کہ کلی وذاتی علم غیب اﷲ کے لیے مخصوص ہے، اور اس بات سے کوئی بھی انکار نہیں کرتا کہ اپنے علم غیب کا جو حصہ اور جتنا حصہ اﷲ تعالیٰ جس کو چاہے،دے سکتا ہے۔یہ جزوی اور عطائی علم غیب اپنی نوعیت میں اس کلی وذاتی علم غیب سے مختلف چیز ہے جو اﷲ تعالیٰ کی مخصوص صفت ہے۔ اور کسی بندے کے حق میں اس دوسری نوعیت کے علم غیب کا عقیدہ رکھنا کسی کے نزدیک بھی شرک نہیں ہے۔ دراصل خرابی جس مقام سے شروع ہوتی ہے، وہ یہ ہے کہ لوگ عقیدت میں غلو کرکے دو ایسی باتیں ایجاد کرلیتے ہیں جو اصل اسلامی عقیدے سے متصادم ہوتی ہیں۔
اوّل یہ کہ وہ اس عطائی علم غیب کو جزوی نہیں بلکہ کلی بنادیتے ہیں اور کسی بندے کے حق میں یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ اس کو اﷲ تعالیٰ نے اسی طرح جَمِیْعُ مَاکَانَ وَمَا یَکُوْنُ { FR 6779 } کا عالم بنا دیا تھا جیسا کہ اﷲ تعالیٰ خود ہے۔بظاہر یہاں جزوی وکلی کا فرق دور ہوجانے کے باوجود ذاتی اور عطائی کا فرق نظر آتا ہے جس کی بِنا پر یہ کہا جاسکتاہے کہ ایسا عقیدہ رکھنا شرک نہیں ہے۔لیکن تھوڑا سا بھی آپ غور کریں تو آپ کو محسوس ہوجائے گا کہ اس طرح کا عقیدہ رکھنے میںکتنا عظیم خطرہ مضمر ہے۔ بالفرض اگر یہ جائز ہو کہ اﷲ اپنی عطا سے کسی بندے کو اپنے ہی جیسا عَالِمُ الْغَیْبِ وَالشَّھَادَۃِ بنادے، تو آخریہ کیوں نہ جائز ہو کہ وہ اسے اپنی ہی طرح قادر مطلق اور حی وقیوم اور خالق وربّ بھی بنادے؟ اس کے بعد خدا کی عطا سے کسی بندے کے خدا بن جانے میں آخر کیا رکاوٹ باقی رہ جاتی ہے؟ پھر کیا دو مساوی صفات واختیارات رکھنے والے خدائوں کے درمیان صرف ذاتی اور عطائی کا فرق شرک سے بچانے کے لیے کافی ہوگا؟
دوسری زیادتی غالی حضرات یہ کرتے ہیں کہ اﷲ کے عطیے کو خود بانٹنے کے مختار بن جاتے ہیں۔ یہ بتانا کہ عطا فرمانے والے نے کسی کو کیا عطا کیا ہے اور کیا نہیں کیا ہے،درحقیقت خود عطا فرمانے والے ہی کا کام ہے۔ دوسرے کسی شخص کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ مُعطی کے اپنے بیان کے بغیر وہ بطور خود یہ فیصلہ کردے کہ دینے والے نے کیا کچھ کسی کو عطا فرمایا ہے۔ اب اگر اﷲ تعالیٰ نے اپنی کتاب پاک میں کہیں یہ فرمایا ہو کہ میں نے اپنے فلاں بندے کو جَمِیْعُ مَا کَانَ وَمَا یَکُوْنُ کا عالم بنادیا ہے، یا اﷲ کے رسولؐ نے کسی صحیح حدیث میں اس کی صراحت کی ہو، تو اس کا حوالہ دے دیا جائے،ساری بحث ختم ہوجاتی ہے ۔لیکن اگر نہ کوئی آیت اس کی تصریح کرتی ہے نہ کوئی حدیث صحیح،تو ہمیں معلوم ہونا چاہیے کہ اﷲ کے اس عطیے کی خبر لوگوں تک آخر کس ذریعے سے پہنچی ہے؟
اس مسئلے میں یہ بات خوب سمجھ لیجیے کہ عقیدے اور خصوصاً عقیدۂ توحیدکا معاملہ بڑا ہی نازک ہے۔ یہ وہ چیز ہے جس پر کفر وایمان اور فلاح وخسران کا مدار ہے۔ اس معاملے میں یہ طرزِ عمل صحیح نہیں ہے کہ مختلف احتمالات رکھنے والی آیات اور احادیث میں سے ایک مطلب نچوڑ کر کوئی عقید ہ بنا لیا جائے اور اسے داخل ایمانیات کردیا جائے۔ عقیدہ تو صاف اور صریح محکمات سے اخذہونا چاہیے، جن میں اﷲ اور اس کے رسولؐ نے ایک بات ماننے کی دعوت دی ہو اور یہ ثابت ہو کہ نبیؐ اس کی تبلیغ فرماتے تھے، اور صحابہ کرامؓ وتابعین وتبع تابعین اور ائمۂ مجتہدین اس پر اعتقادرکھتے تھے۔ کیا کوئی شخص بتا سکتا ہے کہ نبیﷺ کے ﴿ عَالِمُ الْغَیْبِ وَالشَّھَادَۃِ ﴾ ہونے یا جَمِیْعُ مَا کَانَ وَمَا یَکُوْنُ کے عالم ہونے کا عقیدہ یہ نوعیت رکھتا ہے؟اگر یہ ثابت نہیں کیا جاسکتا تو آخر آپ اپنے آپ کو اس خطرے میں کیوں ڈالیں؟
(ترجمان القرآن، مارچ 1962ء)