ایک اعتراض جو پہلے بھی بار بار سن چکا ہوں اور آج بھی وہ میرے پاس تحریری شکل میں آیا ہے، یہ ہے کہ ایسے بڑے بڑے علماء اور پیشوایانِ دین (جن کے کچھ نام بھی گنائے گئے ہیں)کیا دین سے اس قدر نا واقف تھے کہ نہ صرف یہ کہ خود انہوں نے دین کے ان تقاضوں کو جوتم بیان کرتے ہو نہیں سمجھا اور پورا کرنے کی طرف توجہ نہیں کی بلکہ تمہارے بیان کرنے کے بعد بھی انہوں نے اسے تسلیم نہیں کیا اور نہ تمہارے ساتھ تعاون کرنا قبول کیا؟کیا یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ سب دین سے ناواقف ہیں ؟یا اس بات کا کہ تم نے خود دین کے نام سے ایک ایسی چیز پیش کی ہے جو مقتضیاتِ دین میں سے نہیں ہے‘‘؟اس سوال کا بہت مختصر جواب میرے پاس یہ ہے کہ میں نے دین کو حال یا ماضی کے اشخاص سے سمجھنے کے بجائے ہمیشہ قرآن اورسنت ہی سے سمجھنے کی کوشش کی ہے اس لیے میں کبھی یہ معلوم کرنے کے لیے کہ خدا کا دین مجھ سے اور ہر مومن سے کیا چاہتا ہے، یہ دیکھنے کی کوشش نہیں کرتا کہ فلاں اور فلاں بزرگ کیا کہتے ہیں بندہ صرف یہ دیکھنے کی کوشش کرتا ہو کہ قرآن مجید کیا کہتا ہے؟اور رسول ﷺنے کیا کیا؟اسی ذریعہ معلوما ت کی طرف میں آپ لوگوں کو بھی توجہ دلانا چاہتا ہوں۔آپ یہ دیکھیے کہ جس چیز کی طرف میں آپ کو دعوت دے رہا ہوں اورجو طریق کا ر اس کے لیے پیش کررہا ہوں آیا قرآن کی دعوت وہی ہے اور انبیائہ علیہم السلام کا طریق کا ر وہی رہا ہے یا نہیں۔اگر قرآن وسنت سے یہ بات ثابت ہوجائے اور آپ کے نزدیک قرآن وسنت ہی اصل ذریعہ ہدایت ہوں تو میری بات مانئے اور میر ے ساتھ آجائیے اور اگر اس دعوت اور اس طریق کار میں کوئی چیز قرآن وسنت سے ہٹی ہوئی ہوتو بے تکلّف اسے ظاہر کر دیجئے ،جس وقت مجھ پر اور میرے رفقاء پر یہ منکشف ہو گا کہ ہم کہیں بال برابر بھی قرآن اور سنت سے ہٹے ہیں تو آپ انشاء اللہ دیکھ لیں گے کہ ہم حق کی طرف رجوع کرنے میں ایک لمحے کے لیے بھی تامّل کرنے والے نہیں ہیں لیکن اگر آپ حق وباطل کا فیصلہ خدا کی کتا ب اور اس کے رسول ﷺکی سنت کی بجائے اشخاص پررکھنا چاہتے ہیں تو آپ کو پورا اختیار ہے کہ آپ اپنے آپ کو اور مستقبل کو اشخاص ہی کے حوالے کر دیجیے اور خدا کے ہاں بھی یہی جواب دیجیے گا کہ ہم نے اپنا دین تیری کتا ب اور تیرے رسولﷺکی سنت کے بجائے فلاں اورفلاںلوگوں کے حوالے کردیا تھا۔ یہ جواب دہی اگر آپ کو خداکے ہاں بچاسکتی ہے تو اسی پراطمینان سے کام کرتے رہیے۔