یہ وجوہ ہیں جن کی بنا پر اللہ تعالیٰ نے بیع کو حلال اور سود کو حرام کیا ہے۔ ان وجوہ کے علاوہ حرمتِ سود کی دوسری وجوہ بھی ہیں ۔ وہ بخل، خود غرضی، شقاوت، بے رحمی اور زرپرستی کی صفات پیدا کرتا ہے۔ وہ قوم اور قوم میں عداوت ڈالتا ہے۔ وہ افراد قوم کے درمیان ہمدردی اور امدادِ باہمی کے تعلقات کو قطع کرتا ہے ۔ وہ لوگوں میں روپیہ جمع کرنے اور صرف اپنے ذاتی مفاد کی ترقی پر لگانے کا میلان پیدا کرتا ہے۔ وہ سوسائٹی میں دولت کی آزادانہ گردش کو روکتا ہے، بلکہ دولت کی گردش کا رخ الٹ کر ناداروں سے مال داروں کی طرف پھیر دیتا ہے۔ اس کی وجہ سے جمہور کی دولت سمٹ کر ایک طبقے کے پاس اکٹھی ہوتی چلی جاتی ہے، اور یہ چیز آخرکار پوری سوسائٹی کے لیے بربادی کی موجب ہوتی ہے، جیسا کہ معاشیات میں بصیرت رکھنے والوں سے پوشیدہ نہیں ۔ سود کے یہ تمام اثرات، ناقابل انکار ہیں، اور جب یہ ناقابلِ انکار ہیں تو اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ اسلام جس نقشے پر انسان کی اخلاقی تربیت، تمدنی شیرازہ بندی اور معاشی تنظیم کرنا چاہتا ہے اس کے ہر ہر جز سے سود کلی منافات رکھتا ہے، اور سودی کاروبار کی ادنیٰ سے ادنیٰ اور بظاہر معصوم سے معصوم صورت بھی اس پورے نقشے کو خراب کر دیتی ہے، یہی وجہ ہے کہ قرآن مجید میں حق تعالیٰ نے اس قدر سخت الفاظ کے ساتھ سود کو بند کرنے کا حکم دیا کہ:
اتَّقُوا اللہَ وَذَرُوْا مَا بَقِيَ مِنَ الرِّبٰٓوا اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِيْنَo فَاِنْ لَّمْ تَفْعَلُوْا فَاْذَنُوْا بِحَرْبٍ مِّنَ اللہِ وَرَسُوْلِہٖ۰ۚ البقرہ 278,279:2
اللہ سے ڈرو اور جو سود تمہارا لوگوں پر باقی ہے اس کو چھوڑ دو اگر تم ایمان رکھتے ہو۔ اور اگر تم نے ایسا نہ کیا تو اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے جنگ کا اعلان قبول کرو۔