رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسلمانوں کی زندگی کے تمام معاملات میں یہی روح پھونکنے کی کوشش فرمایا کرتے تھے کیونکہ اس سے اخلاق پر خاص اثر پڑتا ہے۔ اگر لوگوں کے دلوں میں یہ چیز بیٹھ جائے تو بڑے بڑے تمدنی و سیاسی مسائل آپ سے آپ حل ہو جاتے ہیں، بلکہ پیدا ہی نہیں ہوتے۔ مثال کے طور پر دو حدیثیں ملاحظہ ہوں۔ حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
لَا یَحِلُّ لِأمْرَاۃٍ تَسْأَلَ طَلَاقُ اُخْتِھَا لِتَسْتَضْرِغُ صَحْفَتَھَا فَاِنَّمَا لَھَا مَا قُدِّرَلَھَا۔ (بخاری کتاب النکاح باب الشروط التی لاتحل فی النکاح۔ اِسی کے قریب قریب بیہقی اور ابو نعیم اصبہانی نے دوسرے طریقوں سے نقل کیا ہے۔ علامہ ابن عبدالبر لکھتے ہیں کہ اہل علم کے نزدیک یہ حدیث ان تمام احادیث میں سب سے بہتر ہے جو تقدیر کے مسئلے میں منقول ہیں۔ اس کا منشا یہ ہے کہ اگر شوہر عورت کی بات مان بھی لے اور اس بیوی کو طلاق بھی دے دے جس کے متعلق وہ عورت یہ گمان کرتی ہے کہ وہ اس کے رزق میں شریک ہو جائے گی تب بھی اس تدبیر سے اُس کو کچھ حاصل نہ ہو گا۔ اس کو صرف اتنا ہی حصہ ملے گا جتنا خدا نے اس کے لیے لکھ دیا ہے۔ خواہ شوہر اس کی شرط قبول کرے یا نہ کرے۔)
کسی عورت کے لیے یہ حلال نہیں ہے کہ وہ اپنی دوسری بہن (یعنی سوکن) کو طلاق دینے کا مطالبہ اس خیال سے کرے کہ اس کے تمتعات اور حظوظ میں کوئی دوسرا شریک نہ رہے اور رزق کا پیالا تنہا اس کے لیے خالی ہو جائے۔ اس لیے کہ بہرصورت اس کو وہی ملے گا جو اس کے لیے مقدر کر دیا گیا ہے۔
ایک دوسری حدیث میں ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک غزوے میں بہت سی لونڈیاں ہمارے ہاتھ آئیں اور ہم نے ان سے تمتع کیا، مگر اس خیال سے کہ اولاد نہ ہو۔ عزل(العزل النزع بعد ایلاج لینزل خارج الفرج
) کرنے لگے۔ پھر ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا حکم پوچھا: آپ ؐ نے سنتے ہی فرمایا:
اَوَ اِنَّکُمْ لَتَفْعَلُوْنَ؟ بخاری کتاب النکاح باب العزل
کیا واقعی تم ایسا کرتے ہو؟
یہی سوال آپؐ نے تین مرتبہ دہرایا، پھر فرمایا:
ما منْ نسمۃ کائنۃ الی یوم القیمۃ الّا ھی کائنۃ
قیامت کے دن تک جو بچے پیدا ہونے ہیں وہ تو ہو کر ہی رہیں گے۔
ان دونوں حدیثوں میں جن اصولوں کی طرف اشارہ فرمایا گیا ہے اگر ان کو وسعت کے ساتھ ہم اپنی زندگی کے معاملات میں استعمال کریں تو وہ معاشی کشمکش اور مزاحمت جس نے دنیا سے سکون و اطمینان چھین لیا ہے کس قدر جلد ختم ہو جائے نہ کوئی کسی کو اپنے رزق کا چھیننے والا سمجھے اور نہ اپنے رزق کی حفاظت کے لیے کسی کی مزاحمت کرے، نہ سرمایہ دار اور مزدور کا سوال پیدا ہو اور نہ کسان اور زمیندار کا، نہ کروگر اور بیسل زہاروف پیدا ہوں نہ لینن اور اسٹالن، نہ معاشی اور تمدنی مشکلات کو حل کرنے کے لیے اسقاط حمل اور منع حمل کی طرف رجوع کیا جائے اور نہ اللہ کے انتظام میں اصلاح کی کوشش کی جائے۔
یہ اور ایسے ہی بے شمار اخلاقی اور عملی فوائد ہیں جو قضا و قدر کی اسلامی تعلیم سے حاصل ہوتے ہیں اور انھی فوائد کا حصول اصلی مقصود بھی تھا۔ مگر ہماری بدقسمتی کہ ہم نے اس کے عملی اور اخلاقی پہلو کو نظر انداز کر کے اپنی ساری توجہات فلسفیانہ پہلو کی طرف پھیر دیں اور اپنے مذاقِ طبیعت کے مطابق کلام اللہ اور کلامِ رسولؐ سے ان مسائل فلسفہ کو حل کرنے لگے جو کلام الناس سے ہم نے اخذ کیے تھے حالانکہ نہ قرآنِ مجید ہم کو مابعد الطبیعیات کی تعلیم دینے کے لیے اتارا گیا تھا، نہ رسولِ عربی صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کا مقصد یہ تھا کہ آپ فلسفے کے پروفیسر کا کام سرانجام دیں اور نہ خدا اور رسول نے کبھی اس کو پسند کیا کہ ہم اپنی زندگی کے عملی معاملات کو چھوڑ کر ان مابعد الطبیعی مسائل میںالجھ جائیں جن سے دین و دنیا کا کوئی فائدہ حاصل ہونے والا نہیں ہے۔