Search
Close this search box.

فہرست موضوعات

دیباچۂ طبع اوّل
دیباچۂ طبع ششم
عقل کا فیصلہ
کوتہ نظری
ہدایت و ضلالت کا راز
اسلام ایک علمی و عقلی مذہب
اسلام میں عبادت کا تصور
جہاد فی سبیل اللہ
آزادی کا اسلامی تصوُّر
رواداری
اسلامی قومیت کا حقیقی مفہوم
استدراک
امربالمعروف و نہی عن المنکر
نُزولِ عذاب الٰہی کا قانون
ایک مسیحی بزرگ کے چند اعتراضات
کیا نجات کے لیے صرف کلمۂ توحید کافی ہے؟
کیا رسالت پر ایمان لانا ضروری ہے؟
ایمان بالرّسالت
قرآن پر سب سے بڈا بہتان
نبوت محمدی کا عقلی ثبوت
اتباع اور اطاعت رسول
رسول کی حیثیت شخصی وحیثیت نبوی
رسالت اور اس کے احکام
حدیث اور قرآن
مسلکِ اعتدال
استدراک
حدیث کے متعلق چند سوالات
قرآن اور سنت رسولؐ
ایک حدیث پر اعتراض اور اس کا جواب

تفہیمات (حصہ اول)

اس ویب سائٹ پر آپ کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ اب آپ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی رحمتہ اللہ علیہ کی کتابوں کو ’’پی ڈی ایف ‘‘ کے ساتھ ساتھ ’’یونی کوڈ ورژن‘‘ میں بھی پڑھ سکتے ہیں۔کتابوں کی دستیابی کے حوالے سے ہم ’’اسلامک پبلی کیشنز(پرائیوٹ) لمیٹڈ، لاہور‘‘، کے شکر گزار ہیں کہ اُنھوں نے اس کارِ خیر تک رسائی دی۔ اس صفحے پر آپ متعلقہ کتاب PDF اور Unicode میں ملاحظہ کیجیے۔

عقل کا فیصلہ

بڑے بڑے شہروں میں ہم دیکھتے ہیں کہ سینکڑوں کارخانے بجلی کی قوت سے چل رہے ہیں۔ ریلیں اور ٹرام گاڑیاں رواں دواں ہیں۔ شام کے وقت دفعتاً ہزارو ں قمقمے روشن ہو جاتے ہیں۔ گرمی کے زمانے میں گھر گھر پنکھے چلتے ہیں۔ مگر ان واقعات سے نہ تو ہمارے اندر حیرت و استعجاب کی کوئی کیفیت پیدا ہوتی ہے اور نہ ان چیزوں کے روشن یا متحرک ہونے کی علت میں کسی قسم کا اختلاف ہمارے درمیان واقع ہوتا ہے۔ یہ کیوں؟ اس لیے کہ ان قمقموں کا تعلق جن تاروں سے ہے ان کو ہم اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہیں۔ ان تاروں کا تعلق جس بجلی گھر سے ہے اس کا حال بھی ہم کو معلوم ہے۔ اس بجلی گھر میں جو لوگ کام کرتے ہیں ان کے وجود کا بھی ہم کو علم ہے۔ ان کام کرنے والوں پر جو انجینئر نگرانی کر رہا ہے اس کو بھی ہم جانتے ہیں۔ ہم کو یہ بھی معلوم ہے کہ وہ انجینئر بجلی بنانے کے کام سے واقف ہے، اس کے پاس بہت سی کلیں ہیں اور ان کلوں کو حرکت دے کر وہ اس قوت کو پیدا کر رہا ہے جس کے جلوے ہم کو قمقموں کی روشنی، پنکھوں کی گردش، ریلوں اور ٹرام گاڑیوں کی سیر، چکیوں اور کارخانوں میں نظر آتے ہیں۔ پس بجلی کے آثار کو دیکھ کر اس کے اسباب کے متعلق ہمارے درمیان اختلاف رائے واقع نہ ہونے کی وجہ صرف یہ ہے کہ ان اسباب کا پورا سلسلہ ہمارے محسوسات میں داخل ہے اور ہم اس کا مشاہدہ کر چکے ہیں۔
فرض کیجیے کہ یہی قمقمے روشن ہوتے، اسی طرح پنکھے گردش کرتے، یونہی ریلیں اور ٹرام گاڑیاں چلتیں، چکیاں اور مشینیں حرکت کرتیں، مگر وہ تارجن سے بجلی ان میں پہنچتی ہے ہماری نظروں سے پوشیدہ ہوتے، بجلی گھر بھی ہمارے محسوسات کے دائرے سے خارج ہوتا، بجلی گھر میں کام کرنے والوں کا بھی ہم کو کچھ علم نہ ہوتا اور یہ بھی معلوم نہ ہوتا کہ اس کارخانے کا کوئی انجینئر ہے جو اپنے علم اور اپنی قدرت سے اس کو چلا رہا ہے، کیا اس وقت بھی بجلی کے ان آثار کو دیکھ کر ہمارے دل ایسے ہی مطمئن ہوتے؟ کیا اس وقت بھی ہم اس طرح ان مظاہر کی علتوں میں اختلاف نہ کرتے؟ ظاہر ہے کہ آپ اس کاجواب نفی میں دیں گے۔ کیوں؟ اس لیے کہ جب آثار کے اسباب پوشیدہ ہوں اور مظاہر کی علتیں غیر معلوم ہوں تو دلوں میں حیرت کے ساتھ بے اطمینانی کا پیدا ہونا، دماغوں کا اس راز سربستہ کی جستجو میں لگ جانا، اور اس راز کے متعلق قیاسات و آراء کا مختلف ہونا ایک فطری بات ہے۔
اب ذرااسی مفروضے پر سلسلۂ کلام کو آگے بڑھائیے۔ مان لیجیے کہ یہ جو کچھ فرض کیا گیا ہے درحقیقت عالم واقعہ میں موجود ہے۔ ہزاروں لاکھوں قمقمے روشن ہیں، لاکھوں پنکھے چل رہے ہیں، گاڑیاں دوڑ رہی ہیں، کارخانے حرکت کر رہے ہیں اور ہمارے پاس یہ معلوم کرنے کا کوئی ذریعہ نہیں ہے کہ ان میں کون سی قوت کام کر رہی ہے اور وہ کہاں سے آتی ہے۔ لوگ ان مظاہر و آثار کو دیکھ کر حیران و ششدر ہیں۔ ہر شخص ان کے اسباب کی جستجو میں عقل کے گھوڑے دوڑا رہا ہے۔ کوئی کہتا ہے کہ یہ سب چیزیں آپ سے آپ روشن یا متحرک ہیں، ان کے اپنے وجود سے خارج کوئی ایسی چیز نہیں ہے جو انھیں روشنی یا حرکت بخشنے والی ہو۔ کوئی کہتا ہے کہ یہ چیزیں جن مادوں سے بنی ہوئی ہیں انھی کی ترکیب نے ان کے اندر روشنی اور حرکت کی کیفیتیں پیدا کر دی ہیں۔ کوئی کہتا ہے کہ اس عالم مادہ سے ماوراء چند دیوتا ہیں جن میں سے کوئی قمقمے روشن کرتا ہے، کوئی ٹرام اور ریلیں چلاتا ہے، کوئی پنکھوں کو گردش دیتا ہے اور کوئی کارخانوں اور چکیوں کا محرک ہے۔ بعض لوگ ایسے ہیں جو سوچتے سوچتے تھک گئے ہیں اور آخر میں عاجز ہو کر کہنے لگے ہیں کہ ہماری عقل اس طلسم کی کنہ تک نہیں پہنچ سکتی، ہم صرف اتنا ہی جانتے ہیں جتنا دیکھتے اور محسوس کرتے ہیں، اس سے زیادہ کچھ ہماری سمجھ میں نہیں آتا اور جو کچھ ہماری سمجھ میں نہ آئے اس کی نہ ہم تصدیق کر سکتے ہیں اور نہ تکذیب۔
یہ سب گروہ ایک دوسرے سے لڑ رہے ہیں۔مگر اپنے خیال کی تائید اور دوسرے خیالات کی تکذیب کے لیے ان میں سے کسی کے پاس بھی قیاس اورظن و تخمین کے سوا کوئی ذریعۂ علم نہیں ہے۔
اس دوران میں کہ یہ اختلافات برپا ہیں، ایک شخص آتا ہے اور کہتا ہے کہ بھائیو، میرے پاس علم کا ایک ایسا ذریعہ ہے جو تمھارے پاس نہیں ہے۔ اس ذریعے سے مجھے معلوم ہوا ہے کہ ان سب قمقموں، پنکھوں، گاڑیوں، کارخانوں اور چکیوں کا تعلق چند مخفی تاروں سے ہے جن کو تم محسوس نہیں کرتے۔ ان تاروں میں ایک بہت بڑے بجلی گھر سے وہ قوت آتی ہے جس کا ظہور روشنی اور حرکت کی شکل میں ہوتا ہے۔ اس بجلی گھر میں بڑی بڑ ی عظیم الشان کلیں ہیں جنھیں بے شمار اشخاص چلا رہے ہیں۔ یہ سب اشخاص ایک بڑے انجینئر کے تابع ہیں، اوروہی انجینئر ہے جس کے علم اور قدرت نے اس پورے نظام کو قائم کیا ہے۔ اسی کی ہدایت اور نگرانی میں یہ سب کام ہو رہے ہیں۔
یہ شخص پوری قوت سے اپنے اس دعوے کو پیش کرتا ہے۔ لوگ اس کو جھٹلاتے ہیں، سب گروہ مل کر اس کی مخالفت کرتے ہیں، اسے دیوانہ قرار دیتے ہیں، اس کو مارتے ہیں، تکلیفیں دیتے ہیں، گھر سے نکال دیتے ہیں، مگر وہ ان سب روحانی اور جسمانی مصیبتوں کے باوجود اپنے دعوے پر قائم رہتا ہے۔ کسی خوف یا لالچ سے اپنے قول میں ذرّہ برابر ترمیم نہیں کرتا۔ کسی مصیبت سے اس کے دعوے میں کمزوری نہیں آتی۔ اس کی ہر ہر بات سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس کو اپنے قول کی صداقت پر کامل یقین ہے۔
اس کے بعد ایک دوسرا شخص آتا ہے اور وہ بجنسہٖ یہی قول اسی دعوے کے ساتھ پیش کرتا ہے، پھر تیسرا، چوتھا، پانچواں آتا ہے اور وہی بات کہتا ہے جو اس کے پیشرووں نے کہی تھی۔ اس کے بعد آنے والوں کا ایک تانتا بندھ جاتا ہے۔ یہاں تک کہ ان کی تعداد سینکڑوں اور ہزاروں سے متجاوز ہو جاتی ہے، اور یہ سب اسی ایک قول کو اسی ایک دعوے کے ساتھ پیش کرتے ہیں۔ زمان و مکان اور حالات کے اختلاف کے باوجود ان کے قول میں کوئی اختلاف نہیں ہوتا۔ سب کہتے ہیں کہ ہمارے پاس علم کا ایک ایسا ذریعہ ہے جو عام لوگوں کے پاس نہیں ہے۔ سب کو دیوانہ قرار دیا جاتا ہے، ہر طرح کے ظلم و ستم کا نشانہ بنایا جاتا ہے، ہر طریقے سے ان کو مجبور کیا جاتا ہے کہ اپنے قول سے باز آجائیں، مگر سب کے سب اپنی بات پر قائم رہتے ہیں اور دنیا کی کوئی قوت ان کو اپنے مقام سے ایک انچ نہیں ہٹا سکتی۔ اس عزم و استقامت کے ساتھ ان لوگوں کی نمایاں خصوصیات یہ ہیں کہ ان میں سے کوئی جھوٹا، چور، خائن، بدکار، ظالم اور حرام خور نہیں ہے، ان کے دشمنوں اور مخالفوں کو بھی اس کا اعتراف ہے۔ ان سب کے اخلاق پاکیزہ ہیں، سیرتیں انتہا درجے کی نیک ہیں، اور حسن خلق میں یہ اپنے دوسرے ابنائے نوع سے ممتاز ہیں۔ پھر ان کے اندر جنوں کا بھی کوئی اثر نہیں پایا جاتا۔ بلکہ اس کے برعکس وہ تہذیب اخلاق، تزکیہ نفس، اور دنیوی معاملات کی اصلاح کے لیے ایسی ایسی تعلیمات پیش کرتے اور ایسے ایسے قوانین بناتے ہیں جن کے مثل بنانا تو درکنار بڑے بڑے علما و عقلا کو ان کی باریکیاں سمجھنے میں پوری پوری عمریں صرف کر دینی پڑتی ہیں۔
ایک طرف وہ مختلف الخیال مکذبین ہیں، اور دوسری طرف یہ متحد الخیال مدعی دونوں کا معاملہ عقلِ سلیم کی عدالت میں پیش ہوتا ہے۔ جج کی حیثیت سے عقل کا فرض ہے کہ پہلے اپنی پوزیشن کو خوب سمجھ لے، پھر فریقین کی پوزیشن کو سمجھے، اور دونوں کا موازنہ کرنے کے بعد فیصلہ کرے کہ کس کی بات قابل ترجیح ہے۔
جج کی اپنی پوزیشن یہ ہے کہ خود اس کے پاس امر واقعی کو معلوم کرنے کا کوئی ذریعہ نہیں ہے۔ وہ خود حقیقت کا علم نہیں رکھتا۔ اس کے سامنے صرف فریقین کے بیانات، ان کے دلائل، ان کے ذاتی حالات اور خارجی آثار و قرائن ہیں۔ انھی پر تحقیق کی نظر ڈال کر اسے فیصلہ کرنا ہے کہ کس کا برحق ہونا اغلب ہے۔ مگر اغلبیت سے بڑھ کر بھی وہ کوئی حکم نہیں لگا سکتا، کیونکہ مِسل پر جو کچھ مواد ہے اس کی بنا پر یہ کہنا اس کے لیے مشکل ہے کہ امر واقعی کیا ہے۔ وہ فریقین میں سے ایک کو ترجیح دے سکتا ہے، لیکن قطعیت اور یقین کے ساتھ کسی کی تصدیق یا تکذیب نہیں کرسکتا۔
مکذبین کی پوزیشن یہ ہے:
۱۔ حقیقت کے متعلق ان کے نظریے مختلف ہیں۔ اور کسی ایک نکتے میں بھی ان کے درمیان اتفاق نہیں ہے حتیٰ کہ ایک ہی گروہ کے افراد میں بسا اوقات اختلاف پایا گیا ہے۔
۲۔ وہ خود اقرار کرتے ہیں کہ ان کے پاس علم کا کوئی ایسا ذریعہ نہیں ہے جو دوسروں کے پاس نہ ہو۔ ان میں سے کوئی گروہ اس سے زیادہ کسی چیز کا مدعی نہیں ہے کہ ہمارے قیاسات دوسروں کے مقابلے میں زیادہ وزنی ہیں۔ مگر اپنے قیاسات کا قیاسات ہونا سب کو تسلیم ہے۔
۳۔ اپنے قیاسات پر ان کا اعتقاد، ایمان و یقین اور غیر متزلزل وثوق کی حد تک نہیں پہنچا ہے۔ ان میں تبدیلی رائے کی مثالیں بکثرت ملتی ہیں۔ بارہا دیکھا گیا ہے کہ ان میں کا ایک شخص کل تک جس نظریے کو پورے زور کے ساتھ پیش کر رہا ہے، آج خود اسی نے اپنے پچھلے نظریے کی تردید کردی اور ایک دوسرا نظریہ پیش کر دیا۔ عمر، عقل، علم اور تجربے کی ترقی کے ساتھ ساتھ اکثر ان کے نظریات بدلتے رہتے ہیں۔
۴۔ مدعیوں کی تکذیب کے لیے ان کے پاس بجز اس کے اور کوئی دلیل نہیں ہے کہ انھوں نے اپنی صداقت کا کوئی یقینی ثبوت نہیں پیش کیا، انھوں نے وہ مخفی تارہم کو نہیں دکھائے جن کے متعلق وہ کہتے ہیں کہ قمقموں اور پنکھوں وغیرہ کا تعلق انھی سے ہے، نہ انھوں نے بجلی کا وجود تجربے اور مشاہدے سے ثابت کیا، نہ بجلی گھر کی ہمیں سیر کرائی، نہ اس کی کلوں اور مشینوں کا معاینہ کرایا، نہ اس کے کارندوں میں سے کسی سے ہماری ملاقات کرائی، نہ کبھی انجینئر سے ہم کو ملایا، پھر ہم یہ کیسے مان لیں کہ یہ سب کچھ حقائق ہیں؟
مدعیوں کی پوزیشن یہ ہے:
۱۔ وہ سب آپس میں متفق القول ہیں۔ دعوے کے جتنے بنیادی نکات ہیں ان سب میں ان کے درمیان کامل اتفاق ہے۔
۲۔ ان سب کا متفقہ دعویٰ یہ ہے کہ ہمارے پاس علم کا ایک ایسا ذریعہ ہے جو عام لوگوں کے پاس نہیں ہے۔
۳۔ ان میں سے کسی نے نہیں کہا کہ ہم اپنے قیاس یا گمان کی بنا پر ایسا کہتے ہیں۔ بلکہ سب نے بالاتفاق کہا ہے کہ انجینئر سے ہمارے خاص تعلقات ہیں۔ اس کے کارندے ہمارے پاس آتے ہیں، اس نے اپنے کارخانے کی سیر بھی ہم کو کرائی ہے اور ہم جو کچھ کہتے ہیں علم و یقین کی بنا پر کہتے ہیں۔ ظن و تخمین کی بنا پر نہیں کہتے۔
۴۔ ان میں ایک مثال بھی ایسی نہیں ملتی کہ کسی نے اپنے بیان میں ذرّہ برابر بھی تغیر و تبدل کیا ہو۔ ایک ہی بات ہے جو ان میں کا ہر شخص دعوے کے آغاز سے زندگی کے آخری سانس تک کہتا رہا ہے۔
۵۔ ان کی سیرتیں انتہا درجے کی پاکیزہ ہیں۔ جھوٹ، فریب، مکاری، دغا بازی کا کہیں شائبہ تک نہیں ہے۔ اور کوئی وجہ نظر نہیں آتی کہ جو لوگ زندگی کے تمام معاملات میں سچے اور کھرے ہوں، وہ خاص اسی معاملے میں بالاتفاق کیوں جھوٹ بولیں۔
۶۔ اس کا بھی کوئی ثبوت نہیں ہے کہ یہ دعویٰ پیش کرنے سے ان کے پیش نظر کوئی ذاتی فائدہ تھا۔ برعکس اس کے یہ ثابت ہے کہ ان میں سے اکثر و بیشتر نے اس دعوے کی خاطر انتہائی درجے کے مصائب برداشت کیے ہیں، جسمانی تکلیفیں سہیں، قید کیے گئے، مارے اور پیٹے گئے، جلاوطن کیے گئے۔ بعض قتل کر دیئے گئے۔ حتیٰ کہ بعض کو آرے سے چیر ڈالا گیا، اور چند کے سوا کسی کو بھی خوش حالی و فارغ البالی کی زندگی میسر نہ ہوئی۔ لہٰذا کسی ذاتی غرض کا الزام ان پر نہیں لگایا جاسکتا۔ بلکہ ان کا ایسے حالات میں اپنے دعوے پر قائم رہنا یہ ظاہر کرتا ہے کہ ان کو اپنی صداقت پر انتہا درجے کا یقین تھا، ایسا یقین کہ اپنی جان بچانے کے لیے بھی ان میں سے کوئی اپنے دعوے سے باز نہ آیا۔
۷۔ ان کے متعلق مجنون یا فاتر العقل ہونے کا بھی کوئی ثبوت نہیں ہے۔ زندگی کے تمام معاملات میں وہ سب کے سب غایت درجے کے دانشمند اور سلیم العقل پائے گئے ہیں۔ ان کے مخالفین نے بھی اکثر ان کی دانشمندی کا لوہا مانا ہے۔ پھر یہ کیسے باورکیا جاسکتا ہے کہ ان سب کو اسی خاص معاملے میں جنون لاحق ہوگیا ہو؟ اور وہ معاملہ بھی کیسا؟ جو ان کے لیے زندگی اور موت کا سوال بن گیا ہو۔ جس کے لیے انھوں نے دنیا بھر کا مقابلہ کیا ہو۔ جس کی خاطر وہ سالہا سال دنیا سے لڑتے رہے ہوں۔ جو ان کی ساری عاقلانہ تعلیمات کا (جن کے عاقلانہ ہونے کا بہت سے مکذبین کو بھی اعتراف ہے) اصل الاصول ہو۔
۸۔ انھوں نے خود بھی یہ نہیں کہا کہ ہم انجینئر یا اس کے کارندوں سے تمھاری ملاقات کراسکتے ہیں یا اس کا مخفی کارخانہ تمھیں دکھا سکتے ہیں یا تجربے اور مشاہدے سے اپنے دعوے کو ثابت کرسکتے ہیں۔ وہ خود ان تمام امور کو ’’غیب‘‘ سے تعبیر کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ تم ہم پر اعتماد کرو اور جو کچھ ہم بتاتے ہیں اسے مان لو۔
فریقین کی پوزیشن اور ان کے بیانات پر غور کرنے کے بعد اب عقل کی عدالت اپنا فیصلہ صادر کرتی ہے۔
وہ کہتی ہے کہ چند مظاہر و آثار کو دیکھ کر ان کے باطنی اسباب و علل کی جستجو دونوں فریقوں نے کی ہے اور ہر ایک نے اپنے اپنے نظریات پیش کیے ہیں۔ بادی النظر میں سب کے نظریات اس لحاظ سے یکساں ہیں کہ اوّلاً ان میں سے کسی میں استحالۂ عقلی نہیں ہے، یعنی قوانین عقلی کے لحاظ سے کسی نظریے کے متعلق نہیں کہا جاسکتا کہ اس کا صحیح ہونا غیر ممکن ہے۔ ثانیاً ان میں سے کسی کی صحت تجربے یا مشاہدے سے ثابت نہیں کی جاسکتی۔ نہ فریق اوّل میں سے کوئی گروہ اپنے نظریات کا ایسا سائنٹفک ثبوت دے سکتا ہے جو ہر شخص کو یقین کرنے پر مجبور کر دے۔ اور نہ فریق ثانی اس پر قادر یا اس کا مدعی ہے۔ لیکن مزید غور و تحقیق کے بعد چند امور ایسے نظر آتے ہیں جن کی بنا پر تمام نظریات میں سے فریق ثانی کا نظریہ قابل ترجیح قرار پاتا ہے۔
اوّلا، کسی دوسرے نظریے کی تائید اتنے کثیر التعداد عاقل، پاک سیرت، صادق القول آدمیوں نے متفق ہو کر اتنی قوت اور اتنے یقین و ایمان کے ساتھ نہیں کی ہے۔
ثانیاً، ایسے پاکیزہ کیرکٹر اور اتنے کثیر التعداد لوگوں کا مختلف زمانوں اور مختلف مقامات میں اس دعوے پر متفق ہو جانا کہ ان سب کے پاس ایک غیر معمولی ذریعۂ علم ہے، اور ان سب نے اس ذریعے سے خارجی مظاہر کے باطنی اسباب کو معلوم کرلیا ہے، ہم کو اس دعوے کی تصدیق پر مائل کر دیتا ہے، خصوصاً اس وجہ سے کہ اپنی معلومات کے متعلق ان کے بیانات میں کوئی اختلاف نہیں ہے، جو معلومات انھوں نے بیان کی ہیں ان میں کوئی استحالۂ عقلی بھی نہیں ہے اور نہ یہ بات قوانین عقلی کی بنا پر محال قرار دی جاسکتی ہے کہ بعض انسانوں میں کچھ ایسی غیر معمولی قوتیں ہوں جو عام طور پر دوسرے انسانوں میں نہ پائی جاتی ہوں۔
ثالثاً، خارجی مظاہر کی حالت پر غور کرنے سے بھی اغلب یہی معلوم ہوتا ہے کہ فریق ثانی کا نظریہ صحیح ہو۔ اس لیے کہ قمقمے، پنکھے، گاڑیاں، کارخانے وغیرہ نہ تو آپ سے آپ روشن اور متحرک ہیں، کیونکہ اگر ایسا ہوتا تو ان کا روشن اور متحرک ہونا ان کے اپنے اختیار میں ہوتا، حالانکہ ایسا نہیں ہے۔ نہ ان کی روشنی و حرکت ان کے مادۂ جسمی کی ترکیب کا نتیجہ ہے، کیونکہ جب وہ محترک اور روشن نہیں ہوتے اس وقت بھی یہی ترکیب جسمی موجود رہتی ہے۔ نہ ان کا الگ الگ قوتوں کے زیر اثر ہونا صحیح معلوم ہوتا ہے، کیونکہ بسا اوقات جب قمقموں میں روشنی نہیں ہوتی تو پنکھے بھی بند ہوتے ہیں، ٹرام کاریں بھی موقوف ہو جاتی ہیں اور کارخانے بھی نہیں چلتے۔ لہٰذا خارجی مظاہر کی توجیہ میں فرق اوّل کی طرف سے جتنے نظریات پیش کیے گئے ہیں وہ سب بعید از عقل و قیاس ہیں۔ زیادہ صحیح یہی بات معلوم ہوتی ہے کہ ان تمام مظاہر میں کوئی ایک قوت کار فرما ہو اور اس کا سر رشتہ کسی ایسے حکیم و توانا کے ہاتھ میں ہو جو ایک مقررہ نظام کے تحت اس قوت کو مختلف مظاہر میں صرف کر رہا ہو۔
باقی رہا مشککین کا یہ قول کہ یہ بات ہماری سمجھ میں نہیں آتی، اور جو بات ہماری سمجھ میں نہ آئے اس کی تصدیق یا تکذیب ہم نہیں کرسکتے، تو حاکم عقل اس کو بھی درست نہیں سمجھتا کیونکہ کسی واقعہ کا واقعہ ہونا اس کا محتاج نہیں ہے کہ وہ سننے والوں کی سمجھ میں بھی آجائے۔ اس کے وقوع کو تسلیم کرنے کے لیے معتبر اور متواتر شہادت کافی ہے۔ اگر ہم سے چند معتبر آدمی آکر کہیں کہ ہم نے زمین مغرب میں آدمیوں کو لوہے کی گاڑیوں میں بیٹھ کر ہوا پر اڑتے دیکھا ہے، اور ہم اپنے کانوں سے لندن میں بیٹھ کر امریکہ کا گانا سن آئے ہیں، تو ہم صرف یہ دیکھیں گے کہ یہ لوگ جھوٹے اور مسخرے تو نہیں ہیں؟ ایسا بیان کرنے میں ان کی کوئی ذاتی غرض تو نہیں ہے؟ ان کے دماغ میں کوئی فتور تو نہیں ہے؟ اگر ثابت ہوگیا کہ وہ نہ جھوٹے ہیں نہ مسخرے، نہ دیوانے، نہ ان کا کوئی مفاد اس روایت سے وابستہ ہے، اور اگر ہم نے دیکھا کہ اس کو بلا اختلاف بہت سے سچے اور عقلمند لوگ سنجیدگی کے ساتھ بیان کر رہے ہیں تو ہم یقیناً اس کو تسلیم کرلیں گے، خواہ لوہے کی گاڑیوں کا ہوا پر اڑنا اور کسی مادی واسطے کے بغیر ایک جگہ کا گانا کئی ہزار میل کے فاصلے پر سنائی دینا کسی طرح ہماری سمجھ میں نہ آتا ہو۔
یہ اس معاملے میں عقل کا فیصلہ ہے۔ مگر تصدیق و یقین کی کیفیت جس کا نام ’’ایمان‘‘ ہے اس سے پیدا نہیں ہوتی۔ اس کے لیے وجدان کی ضرورت ہے۔ اس کے لیے ضرورت ہے کہ اندر سے ایک آواز آئے جو تکذیب، شک اور تذبذب کی تمام کیفیتوں کا خاتمہ کر دے اور صاف کہہ دے کہ لوگوں کی قیاس آرائیاں باطل ہیں، سچ وہی ہے جو سچے لوگوں نے قیاس سے نہیں بلکہ علم و بصیرت کی رُو سے بیان کیا ہے۔
(ترجمان القرآن۔ رجب ۱۳۵۲ھ۔ دسمبر ۱۹۳۳ئ)

شیئر کریں