یہ عطائے زمین کا طریقہ محض شاہانہ بخشش و انعام کی نوعیت نہ رکھتا تھا بلکہ اس کے چند قواعد تھے جو ہم کو احادیث و آثار میں ملتے ہیں۔
۱۔ پہلا قاعدہ یہ تھا کہ جو شخص زمین لے کر تین سال تک اس پر کچھ کام نہ کرے اس کا عطیہ منسوخ سمجھا جائے گا۔ اس کی نظیر میں امام ابو یوسفؒ یہ روایت لاتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قبیلہ مزنیہ اور جہینہ کے لوگوں کو کچھ زمین دی تھی، مگر انہوں نے وہ بیکار رکھ چھوڑی۔ پھر کچھ اور لوگ آئے اور انہوں نے اسے آباد کرلیا۔ اس پر مزنیہ اور جہینہ کے لوگ حضرت عمرؓ کے زمانۂ خلافت میں دعویٰ لے کر آئے۔ حضرت عمرؓ نے جواب دیااگر یہ میرا یا ابوبکرؓ کا عطیہ ہوتا تو میں اسے منسوخ کر دیتا۔ لیکن یہ عطیہ تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ہے، اس لیے میں مجبور ہوں۔ البتہ قانون یہی ہے کہ مَنْ کَانَتْ لَہٗ اَرْضٌ ثُمَّ تَرَکَھَا ثَلٰثَ سِنِیْنَ فَلَمْ یُعَمِّرْھَا فَعَمَّرَھَا قَوْمٌ اٰخَرُوْنَ فَھْمُ اَحَقُّ بِھَا ’’جس کے پاس ایک زمین ہو اور وہ اس کو تین برس تک بیکار ڈال رکھے اور آباد نہ کرے، پھر کچھ دوسرے لوگ آکر اسے آباد کرلیں تو وہی اس زمین کے زیادہ حق دار ہیں۔‘‘
۲۔ دوسرا قاعدہ یہ تھا کہ جو عطیہ صحیح طور پر استعمال میں نہ آ رہا ہو اس پر نظرثانی کی جاسکتی ہے۔ اس کی نظیر میں ابو عبید نے کتاب الاموال میں اور یحییٰ بن آدم نے الخراج میں یہ واقعہ نقل کیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بلال بن حارث مزنی کو پوری وادیِ عقیق دے دی تھی۔ مگر وہ اس کے بڑے حصے کو آباد نہ کرسکے۔ یہ دیکھ کر حضرت عمرؓ نے اپنے زمانۂ خلافت میں ان سے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ زمین تم کو اس لیے نہیں دی تھی کہ تم نہ خود اس کو استعمال کرو اور نہ دوسروں کو استعمال کرنے دو۔ اب تم اس میں سے بس اتنی رکھ لو جسے استعمال کرسکو۔ باقی ہمیں واپس کرو تا کہ ہم اس کو مسلمانوں میں تقسیم کر دیں۔ بلال بن حارث نے اس سے انکار کیا۔ حضرت عمرؓ نے پھر اصرار کیا۔ آخر کار جتنا رقبہ ان کے زیر استعمال تھا اسے چھوڑ کر باقی پوری زمین آپ نے ان سے واپس لے لی اور دوسرے مسلمانوں میں اس کے قطعات بانٹ دیے۔
۳۔ تیسرا قاعدہ یہ تھا کہ حکومت صرف اراضی موات اور اراضی خالصہ ہی میں سے زمینیں عطا کرنے کی مجاز ہے۔ یہ حق اس کو نہیں ہے کہ ایک شخص کی زمین چھین کر دوسرے کو دے دے۔ یا اصل مالکانِ اراضی کے سر پر خواہ مخوا ہ ایک شخص کو جاگیردار یا زمین دار بنا کر مسلط کر دے اور اس کو مالکانہ حقوق عطا کر کے اصل مالکوں کی حیثیت اس کے ماتحت کاشت کاروں کی سی بنا دے۔
۴۔ چوتھا قاعدہ یہ تھا کہ حکومت زمینیں انھی لوگوں کو دے گی جنھوں نے فی الحقیقت اجتماعی مفاد کے لیے کوئی قابلِ قدر خدمت انجام دی ہو، یا جن سے اب اس نوعیت کی کوئی خدمت متعلق ہو، یا جن کو عطیہ دینا کسی نہ کسی طور پر اجتماعی مفاد کے لیے مناسب ہو۔ رہیں شاہانہ غلط بخشیاں جن سے ڈوم ڈھاڑیوں اور خوشامدی لوگوں کو نوازا گیا ہو، یا وہ عطیے جو ظالموں اور جابروں نے اجتماعی مفاد کے برعکس خدمات انجام دینے والوں کو دیے ہوں، تو وہ کسی طرح جائز عطا یا کی تعریف میں نہیں آتے۔