اس قسم کی قومیت کا فطری اِقتضا یہ ہے کہ وہ انسان میں جاہلانہ عصبیت پیدا کرے۔ وہ ایک قوم کو دوسری قوم سے مخالفت اور نفرت برتنے پر صرف اس لیے آمادہ کرتی ہے کہ وہ دوسری قوم کیوں ہے؟ اسے حق، صداقت، دیانت سے کوئی سروکار نہیں ہوتا۔ صرف یہ بات کہ ایک شخص کالا ہے، گورے کی نظر میں اسے حقیر بنادیتی ہے۔ صرف اتنی سی بات کہ ایک انسان ایشیائی ہے، فرنگی کی نفرتوں اور جابرانہ دراز دستیوں اور حق تلفیوں کو اس کے لیے وقف کردیتی ہے۔ آئن سٹائن جیسے فاضل کا اسرائیلی ہونا اس کے لیے کافی ہے کہ جرمن اس سے نفرت کرے۔ تشکیدی{ یہ بیچوانا لینڈ کے بامنگ واٹو قبیلہ کا سردار ہے جس کو حال ہی میں ایک یورپین پر سزائے تازیانہ جاری کرنے کے جرم میں سلطنت ِ برطانیہ نے حقوقِ ریاست سے محروم کر دیا تھا۔ حالانکہ دیسی باشندوں کے ساتھ اس فرنگی شخص کے افسوس ناک برتائو کا خود برٹش ہائی کمشنر کو بھی اعتراف تھا۔ بعد میں غریب تشکیدی کو صرف اس وقت بحال کیا گیا جب کہ اس نے ہمیشہ کے لیے یہ عہد کرلیا کہ وہ کبھی کسی ایسے مقدمہ کا فیصلہ نہ کرے گا جس کا تعلق کسی یورپین سے ہو۔ مگر ایسی کوئی شرط اس عہدنامہ میں نہ رکھی گئی کہ یورپین حضرات بھی دیسی باشندوں کی جان و مال اور عزت و آبرو سے تعرض نہ فرمائیں گے۔
} کا محض سیاہ فام حبشی ہونا، اس کو جائز کردیتی ہے کہ یورپین کو سزا دینے کے جرم میں اس کی ریاست چھین لی جائے۔ امریکہ کے مہذب باشندوں کے لیے یہ قطعاً جائز ہے کہ وہ حبشیوں کو پکڑ کر زندہ جلادیں کیونکہ وہ حبشی ہیں۔ جرمن کا جرمن ہونا اور فرانسیسی کا فرانسیسی ہونا اس بات کے لیے کافی ہے کہ دونوں ایک دوسرے سے نفرت کریں اور دونوں کو ایک دوسرے کے محاسن یکسر معائب نظر آئیں۔ سرحد کےآزاد افغانیوں کا افغانی ہونا اور دمشق کے باشندوں کا عرب ہونا، انگریز اور فرانسیسی کو اس کا پورا حق بخش دیتا ہے کہ وہ ان کے سروں پر طیاروں سے بم برسائیں اور ان کی آبادیوں کا قتلِ عام کریں، خواہ یورپ کے مہذب شہریوں پر اس قسم کی گولہ باری کتنی ہی وحشیانہ حرکت سمجھی جاتی ہو۔ غرض یہ جنسی امتیاز وہ چیز ہے جو انسان کو حق اور انصاف کی طرف سے اندھا بنادیتی ہے ، اور اس کی وجہ سے عالمگیر اصولِ اخلاق و شرافت بھی قومیتوں کے قالب میںڈھل کر کہیں ظلم اور کہیں عدل، کہیں سچ اور کہیں جھوٹ، کہیں کمینگی اور کہیں شرافت بن جاتے ہیں۔
کیا انسان کے لیے اس سے زیادہ غیرمعقول ذہنیت اور کوئی ہوسکتی ہے کہ وہ نالائق، بدکار اور شریر آدمی کو ایک لائق، صالح اور نیک نفس آدمی پر صرف اس لیے ترجیح دے کہ پہلا ایک نسل میں پیدا ہوا ہے اور دوسرا کسی اور نسل میں؟ پہلا سپید ہے اور دوسرا سیاہ؟ پہلا ایک پہاڑ کے مغرب میں پیدا ہوا ہے اور دوسرا اس کے مشرق میں؟ پہلا ایک زبان بولتا ہے اور دوسرا کوئی اور زبان؟ پہلا ایک سلطنت کی رعایا ہے اور دوسرا کسی اور سلطنت کی؟ کیا جِلد کے رنگ کو رُوح کی صفائی و کدورت میں بھی کوئی دخل ہے؟ کیا عقل اس کو باور کرتی ہے کہ اَخلاق و اوصافِ انسانی کے صلاح و فساد سے پہاڑوں اور دریائوں کا کوئی تعلق ہے؟ کیا کوئی صحیح الدماغ انسان یہ تسلیم کرسکتا ہے کہ مشرق میں جو چیز حق ہو وہ مغرب میں باطل ہوجائے؟ کیا کسی قلب ِ سلیم میں اس چیز کے تصور کی گنجایش نکل سکتی ہے کہ نیکی، شرافت جو ہرانسانیت کو رگوں کے خون، زبان کی بولی ، مولد و مسکن کی خاک کے معیار پر جانچا جائے؟ یقینًا عقل ان سوالات کا جواب نفی میں دے گی، مگر نسلیت، وطنیت اور اس کے بہن بھائی نہایت بے باکی کے ساتھ کہتے ہیں کہ ہاں ایسا ہی ہے۔