یہیں سے یہ نکتہ بھی حل ہو جاتا ہے کہ حقیقی عدل کرنے والا بجز خدا کے اور کوئی نہیں ہو سکتا، اس لیے کہ وہ حدود جن کے دائرے میں انسان کو اختیار حاصل ہے۔ خدا کی ہی قائم کی ہوئی ہیں اور خدا ہی اس حقیقت کا جاننے والا ہے کہ انسان کے اعمال میں اس کے اپنے اختیار کا حصہ کتنا ہے۔ اس نے جن حدود سے انسان کے اختیار کو محدود کیا ہے۔ ان کی بھی دو قسمیں ہیں: ایک قسم کے حدود وہ ہیں جو تمام نوعِ بشری کے لیے من حیث المجموع قائم کیے گئے ہیں اور دوسری قسم کے حدود وہ ہیں جو ہر شخص کے لیے فرداً فرداً مختلف طور پر مقرر ہیں۔ پہلی قسم کے حدود نوعی حیثیت سے تمام اولاد آدم کے اختیار کو محدود کر دیتے ہیں اور دوسری قسم کے حدود ہر شخص کے حالات کے لحاظ سے مختلف ہیں۔ اس لیے ان کے اعتبار سے ہر شخص کی زندگی میں اس کے اختیار اور اس کی مجبوری کی مقداریں جدا جدا ہیں۔ اپنے اعمال کے لیے انسان کا ذمہ دار ہونا اور اس کی ذمہ داری کے لحاظ سے جزا و سزا کا مترتب ہونا اسی مقدار پر موقوف ہے جس کو ہر شخص نے اپنے افعال میں استعمال کیا ہے، اور یہ وہ چیز ہے جس کو تولنا، جانچنا اور ایسا ٹھیک ٹھیک حساب لگانا کہ ایک ذرّہ بھر بھی کمی بیشی نہ ہو۔ دنیا کے کسی حج اور کسی مجسٹریٹ کے بس کا کام نہیں ہے۔ یہ محاسبہ و موازنہ صرف فاطر السمٰوٰت والارض ہی کر سکتا ہے اور وہی قیامت کے دن اپنی عدالت کا اجلاس کرے گا۔ یہی بات ہے جس کی طرف کلام اللہ میں جگہ جگہ اشارہ کیا گیا ہے:
وَالْوَزْنُ يَوْمَىِٕذِۨ الْحَقُّ۰ۚ فَمَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِيْنُہٗ فَاُولٰۗىِٕكَ ہُمُ الْمُفْلِحُوْنَo وَمَنْ خَفَّتْ مَوَازِيْنُہٗ فَاُولٰۗىِٕكَ الَّذِيْنَ خَسِرُوْٓا اَنْفُسَہُمْ بِمَا كَانُوْا بِاٰيٰتِنَا يَظْلِمُوْنَo الاعراف7:8-9
اس روز وزن بالکل ٹھیک ٹھیک ہو گا، جن کے اعمال خیر کے پلڑے بھاری ہوں گے وہی فلاح پائیں گے اور جن کے پلڑے ہلکے ہوں گے وہی وہ لوگ ہوں گے جنھوں نے ہماری آیات کے ساتھ ظلم کر کے اپنے آپ کو خود نقصان پہنچایا ہے۔
اِنَّ اِلَيْنَآ اِيَابَہُمْo ثُمَّ اِنَّ عَلَيْنَا حِسَابَہُمْo غاشیہ88:25-26
ان کو ہماری ہی طرف آنا ہے اور ان کا حساب ہمارے ہی ذمے ہے۔
فَمَنْ يَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ خَيْرًا يَّرَہٗoۭ وَمَنْ يَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ شَرًّا يَّرَہٗo زلزال99:7-8
جو ذرّہ برابر نیک عمل کرے گا وہ اس کا نتیجہ دیکھ لے گا اور جو ذرّہ برابر برا عمل کرے گا وہ اس کا نتیجہ دیکھ لے گا۔
قرآنِ مجید میں مسئلہ جبر و قدر پر بس اسی حد تک روشنی پڑتی ہے اور اس سے وہ گتھیاں سلجھ جاتی ہیں کو علوم طبیعیہ اور علم الاخلاق کے مباحث میں بیان کی گئی ہیں۔ رہے وہ مابعد الطبیعی مسائل جن میں فلاسفہ اور متکلمین الجھے ہوئے ہیں یعنی یہ کہ اللہ کے علم اور اس کی معلومات، اس کی قدرت اور اس کے مقدورات، اس کے ارادے اور اس کے مرادات میں کس نوع کا تعلق ہے اور اس کے علم سابق، ارادۂ ازلی اور قوت مطلقہ کے ہوتے ہوئے انسان کس طرح بااختیار اور اپنے ارادے میں آزاد ہو سکتا ہے، تو ان مسائل سے قرآن نے کوئی بحث نہیں کی، اس لیے کہ انسان ان کو سمجھ نہیں سکتا۔
٭…٭…٭…٭…٭