رہی عدلیہ (Judiciary) جو ہماری قدیم اصطلاح ’’قضا‘‘ کی ہم معنی ہے اور اس کا دائرہِ عمل بھی خدا کی قانونی حاکمیّت کا اصول آپ سے آپ معین کر دیتا ہے۔ اسلام جب کبھی اپنے اصولوں پر ریاست قائم کرتا ہے، اس کے اولین جج ہوتے ہیں! اور ان کا کام یہ ہوتا ہے کہ لوگوں کے معاملات کا فیصلہ قانون الٰہی کے مطابق کریں۔ پھر جو لوگ انبیاؑء کے بعد اس کرسی پر بیٹھیں ان کے لیے بھی اس کے سِوا کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے کہ اپنے فیصلوں کی بنیاد اس قانون پر رکھیں جو اللہ اور اس کے رسولؐ سے ان کو ملا ہے۔ قرآن مجید میں سورۂ مائدہ کے دو رکوع خاص اسی موضوع پر ہیں، ان میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم نے توراۃ نازل کی جس میں ہدایت اور روشنی تھی۔اور بنی اسرائیل کے سارے نبی، اور ربّانی اور احبار اسی کے مطابق یہودیوں کے معاملات کا فیصلہ کرتے تھے، پھر ہم نے ان کے بعد عیسیٰ ابن مریم کو بھیجا اور ان کوانجیل عطا کی جس میں ہدایت اور روشنی تھی۔ اہل انجیل کو چاہیے کہ وہ بھی اس ہدایت پر فیصلے کریں جو اللہ نے انجیل میں نازل کیے ہیں۔ اس تاریخ کو بیان کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو خطاب کرکے فرماتا ہے کہ ہم نے یہ کتاب (قرآن) تمہاری طرف ٹھیک ٹھیک حق کے ساتھ نازل کی ہے۔
فَاَحْکُمْ بَیْنَھُمْ بِمَا اَنزَلَ اللّٰہُ وَلَا تَتَّبِعْ اَھْوَائَ ھُمْ عَمَّا جَائَ کَ مِنَ الْحَقِّ۔ (المائدہ)
پس تم لوگوں کے درمیان اللہ کے نازل کردہ قانون کے مطابق فیصلے کرو اور اس حق کو چھوڑ کر جو تمہارے پاس آیا ہے، لوگوں کی خواہشات کی پیروی نہ کرو۔
آگے چل کر اللہ تعالیٰ اس تقریر کو اس فقرے پر ختم فرماتا ہے کہ:
اَفَحُکْمَ الْجَاھِلِیَّۃِ یَبْغُوْنَ وَمَنْ اَحْسَنُ مِنَ اللّٰہِ حُکْماً لِّقَوْمِ یُّوْقِنُونَ۔ (المائدہ)
پھر کیا لوگ جاہلیت کے فیصلے چاہتے ہیں؟ یقین رکھنے والوں کے لیے اللہ سے بہتر فیصلہ کرنے والا اور کون ہو سکتا ہے؟
اس تقریر کے دوران میں اللہ تعالیٰ تین مرتبہ فرماتا ہے کہ جو لوگ اللہ کے نازل کردہ قانون پر فیصلہ نہ کریں وہی کافر ہیں، وہی ظالم ہیں، وہی فاسق ہیں۔ اس کے بعد یہ کہنے کی ضرورت باقی نہیں رہتی کہ ایک اسلامی ریاست کی عدالتیں قانونِ الٰہی کو نافذ کرنے کے لیے بنتی ہیں نہ کہ اس کے خلاف فیصلے کرنے کے لیے۔رہی عدلیہ (Judiciary) جو ہماری قدیم اصطلاح ’’قضا‘‘ کی ہم معنی ہے اور اس کا دائرہِ عمل بھی خدا کی قانونی حاکمیّت کا اصول آپ سے آپ معین کر دیتا ہے۔ اسلام جب کبھی اپنے اصولوں پر ریاست قائم کرتا ہے، اس کے اولین جج ہوتے ہیں! اور ان کا کام یہ ہوتا ہے کہ لوگوں کے معاملات کا فیصلہ قانون الٰہی کے مطابق کریں۔ پھر جو لوگ انبیاؑء کے بعد اس کرسی پر بیٹھیں ان کے لیے بھی اس کے سِوا کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے کہ اپنے فیصلوں کی بنیاد اس قانون پر رکھیں جو اللہ اور اس کے رسولؐ سے ان کو ملا ہے۔ قرآن مجید میں سورۂ مائدہ کے دو رکوع خاص اسی موضوع پر ہیں، ان میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم نے توراۃ نازل کی جس میں ہدایت اور روشنی تھی۔اور بنی اسرائیل کے سارے نبی، اور ربّانی اور احبار اسی کے مطابق یہودیوں کے معاملات کا فیصلہ کرتے تھے، پھر ہم نے ان کے بعد عیسیٰ ابن مریم کو بھیجا اور ان کوانجیل عطا کی جس میں ہدایت اور روشنی تھی۔ اہل انجیل کو چاہیے کہ وہ بھی اس ہدایت پر فیصلے کریں جو اللہ نے انجیل میں نازل کیے ہیں۔ اس تاریخ کو بیان کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو خطاب کرکے فرماتا ہے کہ ہم نے یہ کتاب (قرآن) تمہاری طرف ٹھیک ٹھیک حق کے ساتھ نازل کی ہے۔
فَاَحْکُمْ بَیْنَھُمْ بِمَا اَنزَلَ اللّٰہُ وَلَا تَتَّبِعْ اَھْوَائَ ھُمْ عَمَّا جَائَ کَ مِنَ الْحَقِّ۔ (المائدہ)
پس تم لوگوں کے درمیان اللہ کے نازل کردہ قانون کے مطابق فیصلے کرو اور اس حق کو چھوڑ کر جو تمہارے پاس آیا ہے، لوگوں کی خواہشات کی پیروی نہ کرو۔
آگے چل کر اللہ تعالیٰ اس تقریر کو اس فقرے پر ختم فرماتا ہے کہ:
اَفَحُکْمَ الْجَاھِلِیَّۃِ یَبْغُوْنَ وَمَنْ اَحْسَنُ مِنَ اللّٰہِ حُکْماً لِّقَوْمِ یُّوْقِنُونَ۔ (المائدہ)
پھر کیا لوگ جاہلیت کے فیصلے چاہتے ہیں؟ یقین رکھنے والوں کے لیے اللہ سے بہتر فیصلہ کرنے والا اور کون ہو سکتا ہے؟
اس تقریر کے دوران میں اللہ تعالیٰ تین مرتبہ فرماتا ہے کہ جو لوگ اللہ کے نازل کردہ قانون پر فیصلہ نہ کریں وہی کافر ہیں، وہی ظالم ہیں، وہی فاسق ہیں۔ اس کے بعد یہ کہنے کی ضرورت باقی نہیں رہتی کہ ایک اسلامی ریاست کی عدالتیں قانونِ الٰہی کو نافذ کرنے کے لیے بنتی ہیں نہ کہ اس کے خلاف فیصلے کرنے کے لیے۔