سوال: آپ کی تصنیف’’تفہیم القرآن‘‘ جلدا وّل، سورۃ بقرہ ،صفحہ176 میں لکھا ہوا ہے کہ ’’خلع کی صورت میں عدت صرف ایک حیض ہے۔دراصل یہ عدت ہے ہی نہیں بلکہ یہ حکم محض استبرائے رحم کے لیے دیا گیا ہے۔‘‘
اب قابل دریافت امر یہ ہے کہ آپ نے اس مسئلے کی سند وغیرہ نہیں لکھی۔ حالاں کہ یہ قول مفہوم الآیہ اور اقوا لِ محققین اور قول النبیؐ کے بھی خلاف ہے۔
1۔ رَوٰی عبدُالرَّزاقِ مَرْ فُوْعًا: اَلْخُلْعُ تَطْلِیْقَۃٌ { [خلع ایک طلاق ہے] اَلْمُصَنَّفْ،کتاب الخلع و الطلاق، باب الخلع طلاق بائن، حدیث 2640 }
2۔ وروی الدارقطنی أَنَّ النبیﷺ جَعَلَ الْخُلْعَ تَطْلِیْقَۃٌ { [نبیﷺ نے خلع کو ایک طلاق قرار دیا] سنن الدارقطنی، کتاب الطلاق و الخلع و الایلاء وغیرہ، حدیث 4025 }
3۔ وروی مالک عن ابن عمرؓ عِدَّۃُ الْمُخْتَلِعَۃِ مِثْلُ عِدَّۃُ الْمُطَلَّقَۃِ {[ابن عمرؓ سے مروی ہے کہ خلع یافتہ عورت کی عدت طلاق یافتہ عورت کی طرح ہے] موطأ مالک، کتاب الطلاق، باب طلاق المختلعۃ، حدیث 2088 }
ایک ابودائود کی روایت ہے کہ عِدَّتُھَا حَیْضَۃٌ ،{ [اس کی عدت ایک حیض ہے] سنن أبی داود، کتاب الطلاق، باب طلاق المختلعۃ، حدیث 2229} لیکن یہ قول تصرف من الرواۃ پرمحمول کیا گیا ہے اور نص کے بھی خلاف ہے کہ نص میں ہے: ﴿وَالْمُطَلَّقٰتُ یَتَرَبَّصْنَ بِاَنْفُسِھِنَّ ثَلٰثَۃَ قُرُوْٓئٍ ﴾{[جن عورتوں کوطلاق دی گئی ہو، وہ تین مرتبہ ایام ماہ واری آنے تک اپنے آپ کو روکے رکھیں] } (البقرہ 228:2)
مہربانی فرما کر احادیث نبویہ میں تطبیق دیتے ہوئے، نص کو اپنے اطلاق پر رکھتے ہوئے اور محدثین کے اقوال کو دیکھتے ہوئے مسئلے کی پوری تحقیق مدلل بحوالۂ کتب معتبرہ تحریر فرمائیں تاکہ باعث اطمینان ہوسکے۔
جواب: مختلعہ کی عدت کے مسئلے میں اختلاف ہے۔ فقہا کی ایک کثیر جماعت اسے مطلقہ کی عدت کے مانند قرار دیتی ہے، اور ایک معتدبہ جماعت اسے ایک حیض تک محدود رکھتی ہے۔ اس دوسرے مسلک کی تائید میں متعدد احادیث ہیں۔ نسائی اور طبرانی نے رُبیع بنت معوذ کی یہ روایت نقل کی ہے کہ ثابتؓ بن قیس کی بیوی کے مقدمۂ خلع میں حضور ﷺ نے حکم دیا کہ:
اَنْ تَتَرَبَّصَ حَیْضَۃً واحِدَۃً وَتَلْحَقَ بِاَھْلِھَا { ]یہ کہ وہ ایک حیض تک انتظار کرے اور پھر اپنے اہل کے پاس جائے[ سنن النسائی، کتاب الطلاق، باب عدۃ المختلعۃ، حدیث 3497 }
ابودائود اور ترمذی نے ابن عباسؓ کی روایت نقل کی ہے کہ انھی زوجۂ ثابت بن قیس کو حضورﷺ نے حکم دیاکہ
أَنْ تَعْتَدَّ بِحَیْضَۃٍ { [وہ ایک حیض تک عدت گزارے] سنن الترمذی، أبواب الطلاق و اللعان، باب ما جاءَ فی الخلع، حدیث 1185 }
نیز ترمذی، نسائی اور ابن ماجہ نے رُبیع بنت معوذ کی ایک اور روایت بھی اسی مضمون کی نقل کی ہے۔ابن ابی شیبہ نے ابن عمرؓ کے حوالے سے حضرت عثمانؓ کا بھی ایک فیصلہ اسی مضمون پر مشتمل نقل کیا ہے اور ساتھ ہی یہ بھی لکھا ہے کہ پہلے ابن عمر ؓ مختلعہ کی عدت کے معاملے میں تین حیض کے قائل تھے، حضرت عثمانؓ کے اس فیصلے کے بعد انھوں نے اپنی راے بدل دی اور ایک حیض کا فتویٰ دینے لگے۔{ مصنف ابن ابی شیبۃ، کتاب الطلاق، باب من قال عدتھا حیضۃ، حدیث 18462} اسی طرح ابن ابی شیبہ نے ابن عباسؓ کا یہ فتویٰ نقل کیا ہے کہ عِدَّتَھا حَیْضَۃٌ { [اس کی عدت ایک حیض ہے] ایضاً، حدیث 18464 } ابن ماجہ نے رُبیع بنت معوّذ بن عفراء کے حوالے سے حضرت عثمانؓ کے مذکورہ بالا فیصلے کی جو روایت نقل کی ہے، اس میں حضرت ] ربیعؓ[ کا یہ قول بھی موجود ہے کہ
اِنَّمَا تَبِعَ فِیْ ذٰ لِکَ قَضَاءَ رَسُوْلِ اللّٰہِ ﷺ {]یہ فیصلہ رسول اللہﷺ کے فیصلے کی متابعت میں ہے[ سنن ابن ماجہ، کتاب الطلاق، باب عدۃ المختلعۃ، حدیث 2058 }
اُمید ہے کہ ان حوالوں سے آپ کا اطمینان ہوجائے گا۔
(ترجمان القرآن، اکتوبر1956ء)