امصارِ مسلمین میں ذمّیوں کے جو قدیم معاہد ہوں ان سے تعرض نہیں کیا جا سکتا۔ اگر وہ ٹوٹ جائیں تو انہیں اسی جگہ دوبارہ بنا لینے کا حق ہے۔ لیکن نئے معاہد بنانے کا حق نہیں ہے۔
(بدائع جلد۷ ص ۱۱۴۔ شرح ایسرالکبیر ج۳ ص۲۵۱)
رہے وہ مقامات جو امصار مسلمین نہیں ہیں تو ان میں ذمّیوں کو نئے معاہد بنانے کی بھی عام اجازت ہے۔ اسی طرح جو مقامات اب ’’مصر‘‘ نہ رہے ہوں، یعنی امام نے ان کو ترک کرکے وہاں کی تعمیر اور اپنے شعائر کے اظہار کا حق حاصل ہے۔ (بدائع جلد۷۔ص۱۱۴۔شرح ایسر الکبیر ج۳ ص ۲۵۷)
ابن عباس کا فتویٰ ہے :۔
اما مصر مصرتہ العرب فلیس لھم ان یحدثوا فیہ بناء بیعۃ ولا کنیسۃ ولا یضربوا فیہ بناقوس ولا یظھروا فیہ خمرًا ولا یتخذوا فیہ خنزیراً وکل مصرکانت العجم مصرتہ قفتحہ اللّٰہ علی العرب فنزلوا علیٰ حکمھم فللعجم ما فی اھدھم وعلی العرب ان یوفوا لھم بذالک۔ (کتاب الخراج ص۸۸)
’’جن شہروں کو مسلمانوں نے آباد کیا ہے ان میں ذمّیوں کو یہ حق نہیں ہے کہ نئے معاہد اور کنائس تعمیر کریں یا ناقوس بجائیں یا علانیہ شراب اور سُور کا گوشت بیچیں۔ باقی رہے وہ شہر جو عجمیوں کے آباد کیے ہوئے ہیں اور جن کو اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کے ہاتھ پر فتح کیا اور انہوں نے مسلمانوں کے حکم کی اطاعت قبول کر لی تو عجم کے لیے وہ حقوق ہیں جو ان کے معاہدہ میں طے ہو جائیں اور مسلمانوں پر ان کا ادا کرنا لازم ہے۔‘‘