برادران عزیز! عبادت کے بارے میں یہ بات اچھی طرح ذہن نشین کر لیجئے کہ ’’عمل و عبادت‘‘ حقیقت میں نام ہے ان تمام افعال انسانی کا جو احکام الٰہی کے مطابق اور رضائے الٰہی کے لیے اخلاص و شعور کے ساتھ کیے جائیں۔ عمل و عبادت اس کے علاوہ کسی اور شے کا نام نہیں۔ نماز‘ روزہ‘ حج‘ زکوٰۃ اور دوسری اصطلاحی عبادات بھی صرف اسی صورت میں بادت میں شمار ہوں گی جب کہ انہیں احکام الٰہی کے مطابق ٹھیک وقت پر‘ مقرر طریقے سے اور مطلوب نیت کے ساتھ ادا کیا جائے۔ اگر ان میں سے کوئی ایک کڑی بھی موجود نہ ہوگی تو قانون اور قاضی ممکن ہے ان کی صحت اور عبادت ہونے کا فتویٰ دے دیں مگر اللہ کے ہاں ان کا کوئی وزن نہ ہوگا۔۱؎
اس بات کو آپ مندرجہ ذیل مثالوں سے اچھی طرح سمجھ لیں گے:
(1)دیکھیے نماز کتنی اہم عبادت ہے۔ مگر اس کی رکعتوں میں ایک کی بھی کمی یا کسی جز میں اختصار تو درکنار ذرا دو کے بجائے تین‘ تین کے بجائے چار یا چار کے بجائے پانچ رکعت ادا کریں‘ الحمد کی چھوٹی سی سورہ کے بجائے کوئی بڑی سے بڑی سورہ یا باقی پورا قرآن بھی پڑھ دیں‘ اللہ اکبر کے بجائے کوئی اور کلمہ کہہ دیں‘ بلا طہارت یا زوال کے وقت نماز ادا کریں یا کسی اور شرط کی خلاف ورزی کردیں تو کیا یہ نماز عبادت میں شمار ہوگی؟ ہرگز نہیں۔ اگرچہ آپ نے دس منٹ کے بجائے آدھ پون گھنٹہ اس میں صرف کر دیا ہو۔
(2)روزہ کتنی بڑی عبادت ہے لیکن اگر اختتام سحری کے کچھ بعد تک کھاتے رہیں‘ افطار کے وقت بالارادہ تاخیر کر دیں‘ عید کے روز روزہ رکھ لیں‘ رمضان کی بجائے باقی سارا سال بھی روزے رکھتے چلے جائیں‘ تو کیا یہ فریضہ رمضان کا بدل بن سکیں گے؟ ہرگز نہیں۔ روزہ اسی صورت میں عبادت بنے گا جب کہ اسے ٹھیک خدا کے حکم کے مطابق رکھا جائے۔
(3)زکوٰۃ اہم دینی فریضہ ہے کہ اس کا انکار کرنے والوں کو مرتد قرار دے کر ان کے خلاف اعلان جہاد کر دیا گیا مگر بلا حساب کسی غلط جگہ اور کسی خلاف شریعت مصرف میں کوئی بڑی سے بڑی رقم دے دینا بھی‘ کیا زکوٰۃ کی ادائیگی کا قائم مقام ہو جائے گا؟ ہرگز نہیں‘ اگرچہ اس طرح زکوٰۃ کی واجب الادا رقم سے دس گنا زیادہ خرچ کر دیا جائے۔
(4 ) حج کس قدر عظیم عبادت ہے‘ مگر کسی کا مقرر ایام‘ مقرر طریق یا مقرر مناسک کی پابندی کیے بغیر مکہ و مدینہ کا چکر کاٹ آنا یا مقرر ایام کے سوا اس کا سارا سال بھی ان تمام چیزوں کو ادا کرتے رہنا جو حج کے مناسک ہیں‘ کیا حج کے فرض سے اسے سبکدوش کر دے گا؟ ہرگز نہیں۔
یہ سب اس لیے کہ ہمارے اعمال و افعال اور مراسم عبادات میں وہ اصل شے اور روح جو ان کو مقبول بناتی ہے۔ وہ صرف اللہ کی اطاعت کا جذبہ‘ اس کے احکام کی پابندی‘ اس کی حدود کا پاس اور اس کی رضا جوئی کی تڑپ ہے‘ نہ کہ کسی خاص نوع کی مراسم کو انجام دے دینا۔ چنانچہ اگر تندرست اور توانا آدمی کے لیے کھڑے ہو کر نماز پڑھنا اور رمضان میں روزے رکھنا عبادت ہے تو اس کے مقابلے میں ایک بیمار آدمی کے لیے بیٹھ کر یا لیٹ کر نماز پڑھنا اور رمضان کے روزوں کے بعد کے لیے چھوڑ رکھنا عبادت ہے‘ اگر ایک دولت مند اور صاحب ثروت آدمی کے لیے زکوٰۃ ادا کرنا عبادت ہے تو ایک ضرورت مند اور مستحق زکوٰۃ مسلمان کے لیے اس کا وصول کرنا عبادت ہے۔ اگر ایک وقت کافی پانی موجود ہونے کی صورت میں وضو کرکے نماز ادا کرنا عبادت ہے‘ تو دوسرے وقت جب کہ پانی صرف پینے ہی کے لیے کافی ہوسکتا ہو اور کہیں قریب میں ملنے کی بھی توقع نہ ہو تو اس کی موجودگی کے باوجود تیمم کرکے نماز پڑھنا عبادت ہے۔ جیسے حضر (اپنے گھر پر ہونے کی صورت) میں پوری نماز پڑھنا عبادت ہے‘ ویسے ہی سفر کی حالت میں نماز قصر کرنا عبادت ہے۔
اس سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ فی الحقیقت عبادت نام ہے اللہ کی اطاعت‘ اس کے احکام کی پابندی اور اس کی حدود کی پاسداری کا۔ پس انسانی زندگی کے جن جن کاموں میں اللہ کی اطاعت‘ اس کے احکام کی پابندی‘ اور اس کی حدود کی پاس داری شروع کر دی جائے‘ وہ سب عبادت الٰہی میں داخل ہوتے جائیں گے‘ حتیٰ کہ ایک کسان اگر دن بھر اللہ کے حدود کے اندر رہ کر سب کام کرتا ہے‘ وقت پر اٹھتا ہے‘ وقت پر نماز ادا کرتا ہے‘ وقت پر ہل چلاتا ہے‘ وقت پر بیج ڈالتا ہے‘ وقت پر کھیتی کو کھاد اور پانی دیتا ہے‘ وقت پر بیلوں کو چارہ ڈالتا ہے‘ اپنے بچوں سے پیار اور ان کے حقوق ادا کرتا ہے‘ ان کی صحیح طریق پر پرورش اور تربیت کرتا ہے‘ خدا کے خوف سے کسی سے خیانت اور کسی کی حق تلفی نہیں کرتا بلکہ اللہ اور اس کی مخلوق کے حقوق جو اس پر عائد ہوتے ہیں‘ ان سب کو اپنی حد تک ادا کرنے کی کوشش کرتا ہے‘ تو اس کی پوری زندگی عبادت ہے۔ حتیٰ کہ بقاء نسل انسانی کے فریضہ کے سلسلے میں حقوق زوجیت کی ادائیگی اور اپنے بیوی بچوں کی محبت و شفقت کے ساتھ نگہداشت بھی عبادت الٰہی میں داخل ہے‘ ایسا ہی شخص دراصل اللہ کے ذکر میں ہر وقت مشغول ہے اور کسی دم اللہ سے غافل نہیں ہوتا‘ اس کی زندگی وما خلقت الجن و الانس الا لیعبدون کا عملی نمونہ ہے‘ نہ کہ اس شخص کی زندگی جو صبح سے شام تک چند الفاظ کا بے جانے بوجھے ورد کرتا رہتا ہے اور پوری دنیا پر غلبہ کفر کو نہایت اطمینان سے دیکھ رہا ہے‘ بلکہ اسی کے اندر ترقی درجات کا خواہاں اور اس کے لیے کوشاں ہے‘ ایسے شخص کو تو خدا کے رسولؐ نے ایمان سے خالی قرار دیا ہے۔ چہ جائیکہ وہ اس غلط فہمی میں مبتلا ہو کہ وہ بڑا صاحب عمل اور خدا کا عبادت گزار بندہ ہے۔۱؎