اب تیسرے معنی کی آیات کو لیجیے۔ اس سلسلہ میں یہ بات ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ قرآن کی رُو سے عبادت بمعنی پرستش میں دو چیزیں شامل ہیں۔
ایک یہ کہ کسی کے لیے سجدہ ورکوع اور دست بستہ قیام اور طواف اور آستانہ بوسی اور نذرونیاز اور قربانی وغیرہ کے وہ مراسم ادا کیے جائیں جو بالعموم پرستش کی غرض سے ادا کیے جاتے ہیں قطع نظر اس سے کہ اسے مستقل بالذات معبود سمجھا جائے یا بڑے معبود کے ہاں تقرب اور سفارش کا ذریعہ سمجھ کرایسے کیا جائے، یا بڑے معبود کے ماتحت خدائی کے انتظام میں شریک سمجھتے ہوئے یہ حرکت کی جائے۔
دُوسرے یہ کہ کسی کو عالمِ اسباب پر ذی اقتدار خیال کرکے اپنی حاجتوں میں اس سے دعا مانگی جائے، اپنی تکلیفوں اور مصیبتوں میں اس کو مدد کے لیے پکارا جائے اور خطرات ونقصانات سے بچنے کے لیے اس سے پناہ مانگی جائے۔
یہ دونوں قسم کے فعل قرآن کی رُو سے یکساں پرستش کی تعریف میں آتے ہیں۔