اُوپر کی مثالوں سے یہ بات اچھی طرح واضح ہو جاتی ہے کہ قرآن میں عبادت کا لفظ کہیں غلامی واطاعت کے معنی میں استعمال ہوا ہے، کہیں مجرّد اطاعت کے معنی میں۔ اب قبل اس کے کہ ہم وہ مثالیں پیش کریں جن میں یہ لفظ عبادت کے ان تینوں مفہومات کا جامع ہے، ایک مقدمہ ذہن نشین کر لینا ضروری ہے۔
اُوپر جتنی مثالیں پیش کی گئی ہیں ان سب میں اللہ کے سوا دوسروں کی عبادت کا ذکر ہے۔ جہاں عبادت سے مراد غلامی واطاعت ہے وہاں معبود یا تو شیطان ہے یا وہ باغی انسان ہیں جنھوں نے طاغوت بن کر خدا کے بندوں سے خدا کی بجائے اپنی بندگی واطاعت کرائی، یا وہ راہ نُما وپیشوا ہیں جنھوں نے کتاب اللہ سے بے نیاز ہو کر اپنے خود ساختہ طریقوں پر لوگوں کو چلایا۔ اور جہاں عبادت سے مراد پرستش ہے وہاں معبود یا تو اولیا، انبیا اور صلحا ہیں جنھیں ان کی تعلیم وہدایت کے خلاف معبود بنایا گیا، یا فرشتے اور جن ہیں جنھیں محض غلط فہمی کی بنا پر فوق الطبیعی ربوبیت میں شریک سمجھ لیا گیا، یہ خیالی طاقتوں کے بت اور تماثیل ہیں جو محض شیطانی اغوا سے مرکزِ پرستش بن گئے۔ قرآن ان تمام اقسام کے معبودوں کو باطل اور ان کی عبادت کو غلط ٹھہراتا ہے، خواہ ان کی غلامی کی گئی ہو یا اطاعت یا پرستش، وہ کہتا ہے کہ تمھارے یہ سب معبود جن کی تم عبادت کرتے رہے ہو، اللہ کے بندے اور غلام ہیں۔ نہ انھیں یہ حق پہنچتا ہے کہ ان کی عبادت کی جائے اور نہ ان کی عبادت سے بجز نامرادی اور ذلت ورسوائی کے تمھیں کچھ حاصل ہو سکتا ہے۔ حقیقت میں ان کا اور ساری کائنات کا مالک اللہ ہی ہے، اس کے ہاتھ میں تمام اختیارات ہیں لہٰذا عبادت کا مستحق اکیلے اللہ کے سوا کوئی نہیں۔
اِنَّ الَّذِيْنَ تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللہِ عِبَادٌ اَمْثَالُكُمْ فَادْعُوْہُمْ فَلْيَسْتَجِيْبُوْا لَكُمْ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِيْنَo ……وَالَّذِيْنَ تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِہٖ لَا يَسْتَطِيْعُوْنَ نَصْرَكُمْ وَلَآ اَنْفُسَہُمْ يَنْصُرُوْنَo (الاعراف۷: ۱۹۴۔۱۹۷)
اللہ کو چھوڑ کر جنھیں تم پکارتے ہو وہ تو محض بندے ہیں، جیسے تم خود بندے ہو، انھیں پکار کر دیکھ لو۔ اگر تمھارا عقیدہ ان کے بارے میں صحیح ہے تو وہ تمھاری پکار کا جواب{ FR 7445 } دیں… اللہ کے سوا جنھیں تم پکارتے ہو وہ نہ تو تمھاری کوئی مدد کر سکتے ہیں اور نہ خود اپنی مدد پر قادر ہیں۔
وَقَالُوا اتَّخَذَ الرَّحْمٰنُ وَلَـدًا سُبْحٰنَہٗ۰ۭ بَلْ عِبَادٌ مُّكْرَمُوْنَo لَا يَسْبِقُوْنَہٗ بِالْقَوْلِ وَہُمْ بِاَمْرِہٖ يَعْمَلُوْنَo يَعْلَمُ مَا بَيْنَ اَيْدِيْہِمْ وَمَا خَلْفَہُمْ وَلَا يَشْفَعُوْنَ۰ۙ اِلَّا لِمَنِ ارْتَضٰى وَہُمْ مِّنْ خَشْيَتِہٖ مُشْفِقُوْنَo (الانبیا۲۱: ۲۶۔۲۸)
یہ لوگ کہتے ہیں کہ رحمن نے کسی کو بیٹا بنایا۔ بالاتر ہے وہ اس سے کہ کوئی اس کا بیٹا ہو۔ جنھیں یہ اس کی اولاد کہتے ہیں وہ دراصل اس کے بندے ہیں جنھیں عزت دی گئی ہے ان کی اتنی مجال نہیں کہ وہ خود سبقت کرکے اللہ کے حضور کچھ عرض کر سکیں بلکہ جیسا وہ حکم دیتا ہے اسی کے مطابق وہ عمل کرتے ہیں۔ جو کچھ ان پر ظاہر ہے اسے بھی اللہ جانتا ہے اور جو کچھ ان سے پوشیدہ ہے اس کی بھی اللہ کو خبر ہے۔ وہ اللہ کے حضور کسی کی سفارش نہیں کر سکتے بجز اس کے کہ جس کی سفارش خود اللہ ہی قبول کرنا چاہے اور ان کا حال یہ ہے کہ اللہ کے خوف سے سہمے رہتے ہیں۔{ FR 7446 }
وَجَعَلُوا الْمَلٰۗىِٕكَۃَ الَّذِيْنَ ہُمْ عِبٰدُ الرَّحْمٰنِ اِنَاثًا۰ۭ (الزخرف۴۳: ۱۹)
ان لوگوں نے فرشتوں کو جو دراصل رحمن کے بندے ہیں دیویاں بنا رکھا ہے۔
وَجَعَلُوْا بَيْنَہٗ وَبَيْنَ الْجِنَّۃِ نَسَـبًا۰ۭ وَلَقَدْ عَلِمَتِ الْجِنَّۃُ اِنَّہُمْ لَمُحْضَرُوْنَo
(الصافات۳۷: ۱۵۸)
انھوں نے جنّوں کے اور خدا کے درمیان نسبی تعلق فرض کر لیا ہے حالانکہ جنّ خود بھی جانتے ہیں کہ ایک دن انھیں حساب کے لیے اس کے حضور پیش ہونا ہے۔
لَنْ يَّسْتَنْكِفَ الْمَسِيْحُ اَنْ يَّكُوْنَ عَبْدًا لِّلہِ وَلَا الْمَلٰۗىِٕكَۃُ الْمُقَرَّبُوْنَ۰ۭ وَمَنْ يَّسْتَنْكِفْ عَنْ عِبَادَتِہٖ وَيَسْتَكْبِرْ فَسَيَحْشُرُہُمْ اِلَيْہِ جَمِيْعًاo
(النسائ۴: ۱۷۲)
نہ مسیح نے کبھی اسے اپنے لیے عار سمجھا کہ وہ اللہ کا بندہ ہو اور نہ مقرّب فرشتوں نے۔ اور جو کوئی اس کی بندگی وغلامی میں عار سمجھے اور تکبر کرے (وہ بھاگ کر جا کہاں سکتا ہے) ایسے سب لوگوں کو اللہ اپنے حضور کھینچ بلائے گا۔
اَلشَّمْسُ وَالْقَمَرُ بِحُسْـبَانٍo وَّالنَّجْمُ وَالشَّجَرُ يَسْجُدٰنِo (الرحمٰن۵۵: ۵۔۶)
سورج اور چاند سب گردش میں لگے ہیں اور تارے اوردرخت خدا کے آگے سرِ اطاعت جھکائے ہوئے ہیں۔
تُـسَبِّحُ لَہُ السَّمٰوٰتُ السَّـبْعُ وَالْاَرْضُ وَمَنْ فِيْہِنَّ۰ۭ وَاِنْ مِّنْ شَيْءٍ اِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِہٖ وَلٰكِنْ لَّا تَفْقَہُوْنَ تَسْبِيْحَہُمْ۰ۭ (بنی اسرائیل۱۷: ۴۴)
ساتوں آسمان اور زمین اور جس قدر موجودات آسمان وزمین میں ہیں سب کے سب اللہ کی تسبیح کرر ہے ہیں، کوئی چیز ایسی نہیں جو حمدوثنا کے ساتھ اس کی تسبیح نہ کرتی ہو۔ مگر تم ان کی تسبیح کو سمجھتے نہیں ہو۔
وَلَہٗ مَنْ فِي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ۰ۭ كُلٌّ لَّہٗ قٰنِتُوْنَo (الروم۳۰: ۲۶)
آسمانوں اور زمین کی کل موجودات اس کی مِلک ہیں اور ساری چیزیں اس کے فرمان کی تابع ہیں۔
مَا مِنْ دَاۗبَّۃٍ اِلَّا ہُوَاٰخِذٌۢ بِنَاصِيَتِہَا۰ۭ (ہود۱۱: ۵۶)
کوئی جاندار ایسا نہیں جو اللہ کے قبضہ قدرت میں جکڑا ہوا نہ ہو۔
اِنْ كُلُّ مَنْ فِي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ اِلَّآ اٰتِي الرَّحْمٰنِ عَبْدًاo لَقَدْ اَحْصٰىہُمْ وَعَدَّہُمْ عَدًّاo وَكُلُّہُمْ اٰتِيْہِ يَوْمَ الْقِيٰمَۃِ فَرْدًاo (مریم ۱۹: ۹۳۔۹۵)
زمین اور آسمانوں کے باشندوں میں سے کوئی نہیں جو رحمن کے سامنے غلام کی حیثیت سے پیش ہونے والا نہ ہو۔ اس نے سب کا شمار کر رکھا ہے اور قیامت کے روز سب اس کے حضور فردًافردًاپیش ہوں گے۔
قُلِ اللّٰہُمَّ مٰلِكَ الْمُلْكِ تُؤْتِي الْمُلْكَ مَنْ تَشَاۗءُ وَتَنْزِعُ الْمُلْكَ مِمَّنْ تَشَاۗءُ۰ۡوَتُعِزُّ مَنْ تَشَاۗءُ وَتُذِلُّ مَنْ تَشَاۗءُ۰ۭ بِيَدِكَ الْخَيْرُ۰ۭ اِنَّكَ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌo (آل عمران۳:۲۶)
کہو ! خدایا! ملک کے مالک! تو جسے چاہے ملک د ے اور جس سے چاہے چھین لے، جسے چاہے عزت دے اور جسے چاہے ذلیل کر دے بھلائی تیرے اختیار میں ہے، یقینا تو ہر چیز پر قادر ہے۔
اس طرح ان سب کو جن کی عبادت کسی شکل میں کی گئی ہے، اللہ کا غلام اور بے اختیار ثابت کر دینے کے بعد قرآن تمام جنّ وانس سے مطالبہ کرتا ہے کہ ہر مفہوم کے لحاظ سے عبادت صرف اللہ کی ہونی چاہیے۔ غلامیؔ ہو تو اس کی، اطاعت ہو تو اُس کی پرستش ہو تو اس کی، ان میں سے کسی نوع کی عبادت کا شائبہ تک بھی غیر اللہ کے لیے نہ ہو۔
وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِيْ كُلِّ اُمَّۃٍ رَّسُوْلًا اَنِ اعْبُدُوا اللہَ وَاجْتَـنِبُوا الطَّاغُوْتَ۰ۚ
(النحل۱۶: ۳۶)
ہم نے ہر قوم میں ایک رسول یہی پیغام دے کر بھیجا ہے کہ اللہ کی عبادت کرو اور طاغوت کی عبادت سے پرہیز کرو۔
وَالَّذِيْنَ اجْتَنَبُوا الطَّاغُوْتَ اَنْ يَّعْبُدُوْہَا وَاَنَابُوْٓا اِلَى اللہِ لَہُمُ الْبُشْرٰى۰ۚ
(الزمر۳۹: ۱۷)
خوش خبری ہے ان کے لیے جنھوں نے طاغوت کی عبادت سے پرہیز کیا اور اللہ کی طرف رجوع کر لیا۔
اَلَمْ اَعْہَدْ اِلَيْكُمْ يٰبَنِيْٓ اٰدَمَ اَنْ لَّا تَعْبُدُوا الشَّيْطٰنَ۰ۚ اِنَّہٗ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِيْنٌo وَّاَنِ اعْبُدُوْنِيْ۰ۭؔ ھٰذَا صِرَاطٌ مُّسْتَــقِيْمٌo (یٰسٓ۳۶: ۶۰۔۶۱)
اے بنی آدم! کیا مَیں نے تمھیں تاکید نہ کی تھی کہ شیطان کی عبادت نہ کرنا، وہ تمھارا کھلا دشمن ہے اور میری عبادت کرنا، یہی سیدھا راستہ ہے۔
اِتَّخَذُوْٓا اَحْبَارَہُمْ وَرُہْبَانَہُمْ اَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اللہِ …… وَمَآ اُمِرُوْٓا اِلَّا لِيَعْبُدُوْٓا اِلٰــہًا وَّاحِدًا۰ۚ (التوبہ۹: ۳۱)
انھوں نے اللہ کی بجائے اپنے علما اور مشائخ کو اپنا رب بنا لیا، حالانکہ انھیں حکم دیا گیا تھا کہ ایک اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کریں۔
يٰٓاَيُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا كُلُوْا مِنْ طَيِّبٰتِ مَا رَزَقْنٰكُمْ وَاشْكُرُوْا لِلہِ اِنْ كُنْتُمْ اِيَّاہُ تَعْبُدُوْنَo (البقرہ۲: ۱۷۲)
اے ایمان لانے والو! اگر تم نے واقعی ہماری عبادت اختیار کی ہے تو جو پاک چیزیں ہم نے تمھیں بخشی ہیں انھیں بے تکلف کھائو اور خدا کا شکر ادا کرو۔
ان آیات میں اللہ کے لیے اس عبادت کو مخصوص کرنے کا حکم دیا گیا ہے جو بندگی وغلامی اور اطاعت وفرماں برداری کے معنی میں ہے۔ اور اس کے لیے صاف قرینہ موجود ہے کہ طاغوت اور شیطان اور احبار ورہبان اور آبائو اجداد کی اطاعت وبندگی سے پرہیز کرکے اللہ کی اطاعت وبندگی اختیار کرنے کی ہدایت کی جا رہی ہے۔
قُلْ اِنِّىْ نُہِيْتُ اَنْ اَعْبُدَ الَّذِيْنَ تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللہِ لَمَّا جَاۗءَنِيَ الْبَيِّنٰتُ مِنْ رَّبِّيْ۰ۡوَاُمِرْتُ اَنْ اُسْلِمَ لِرَبِّ الْعٰلَمِيْنَo (المومن۴۰: ۶۶)
کہو، مجھے اس سے منع کیا گیا ہے کہ میں اپنے رب کو چھوڑ کر ان کی عبادت کروں جنھیں تم اللہ کے بجائے پکارتے ہو، جب کہ میرے رب کی طرف سے میرے پاس بیّنات بھی آ چکی ہیں۔ اور مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں ربّ العٰلمین کے آگے سر تسلیم خم کروں۔
وَقَالَ رَبُّكُمُ ادْعُوْنِيْٓ اَسْتَجِبْ لَكُمْ۰ۭ اِنَّ الَّذِيْنَ يَسْتَكْبِرُوْنَ عَنْ عِبَادَتِيْ سَيَدْخُلُوْنَ جَہَنَّمَ دٰخِرِيْنَo (المومن۴۰: ۶۰)
اور تمھارے رب نے فرمایا ہے کہ مجھے پکارو، مَیں تمھاری پکار کا جواب دوں گا۔ اور جو لوگ میری عبادت سے سرتابی کرتے ہیں وہ یقینا جہنم میں جھونکے جائیں گے۔
يُوْلِجُ الَّيْلَ فِي النَّہَارِ وَيُوْلِجُ النَّہَارَ فِي الَّيْلِ۰ۙ وَسَخَّرَ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ۰ۡۖ كُلٌّ يَّجْرِيْ لِاَجَلٍ مُّسَمًّى۰ۭ ذٰلِكُمُ اللہُ رَبُّكُمْ لَہُ الْمُلْكُ۰ۭ وَالَّذِيْنَ تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِہٖ مَا يَمْلِكُوْنَ مِنْ قِطْمِيْرٍo اِنْ تَدْعُوْہُمْ لَا يَسْمَعُوْا دُعَاۗءَكُمْ۰ۚ وَلَوْ سَمِعُوْا مَا اسْتَجَابُوْا لَكُمْ۰ۭ وَيَوْمَ الْقِيٰمَۃِ يَكْفُرُوْنَ بِشِرْكِكُمْ۰ۭ
(فاطر۳۵:۱۳۔۱۴)
وہی اللہ تمھارا رب ہے، بادشاہی اسی کی ہے، اس کے سوا تم جن کو پکارتے ہو ان کے اختیار میں ذرّہ برابر کچھ نہیں۔ تم انھیں پکارو تو وہ تمھاری پکار سن نہیں سن سکتے اور سن بھی لیں تو جواب نہیں دے سکتے۔ اور قیامت کے روز وہ تمھارے اس شرک کا انکار کریں گے۔
قُلْ اَتَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللہِ مَا لَا يَمْلِكُ لَكُمْ ضَرًّا وَّلَا نَفْعًا۰ۭ وَاللہُ ہُوَالسَّمِيْعُ الْعَلِيْمُo (المائدہ۵: ۷۶)
کہو، کیا تم اللہ کو چھوڑ کر ان کی عبادت کرتے ہو جو نہ تمھیں نقصان پہنچانے کی طاقت رکھتے ہیں، نہ نفع پہنچانے کی، سب کچھ سننے اور جاننے والا تو اللہ ہی ہے۔
ان آیات میں اس عبادت کو اللہ کے لیے مختص کرنے کی ہدایت کی گئی ہے جو پرستش کے معنی میں ہے۔ اور اس کے لیے بھی صاف قرینہ موجود ہے کہ عبادت کو دعا کے مترادف کی حیثیت سے استعمال کیا گیا ہے ا ور ماقبل ومابعد کی آیات میں ان معبودوں کا ذکر پایا جاتا ہے جنھیں فوق الطبیعی ربوبیت میں اللہ کا شریک قرار دیا جاتا ہے۔
اب کسی صاحبِ بصیرت آدمی کے لیے یہ سمجھ لینا کچھ بھی مشکل نہیں کہ جہاں جہاں قرآن میں اللہ کی عبادت کا ذکر ہے اور آس پاس کوئی ایسا قرینہ موجود نہیں ہے جو لفظِ عبادت کو اس کے مختلف مفہومات میں سے کسی ایک مفہوم کے لیے خاص کرتا ہو، ایسے تمام مقامات میں عبادت سے مراد، غلامی، اطاعت اور پرستش، تینوں مفہوم ہوں گے۔ مثال کے طور پر حسب ذیل آیات کو دیکھیے:
اِنَّنِيْٓ اَنَا اللہُ لَآ اِلٰہَ اِلَّآ اَنَا فَاعْبُدْنِيْ۰ۙ (طٰہٰ۲۰:۱۴)
مَیں اللہ ہوں، میرے سوا کوئی الٰہ نہیں، لہٰذا میری ہی عبادت کر۔
ذٰلِكُمُ اللہُ رَبُّكُمْ۰ۚ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَ۰ۚ خَالِقُ كُلِّ شَيْءٍ فَاعْبُدُوْہُ۰ۚ وَہُوَعَلٰي كُلِّ شَيْءٍ وَّكِيْلٌo (الانعام۶: ۱۰۲)
وہی اللہ تمھارا رب ہے۔ اس کے سوا کوئی الٰہ نہیں، ہر چیز کا خالق، لہٰذا تم اس کی عبادت کرو اور وہ ہر شے کی خبر گیری کا متکفل ہے۔
قُلْ يٰٓاَيُّھَا النَّاسُ اِنْ كُنْتُمْ فِيْ شَكٍّ مِّنْ دِيْنِيْ فَلَآ اَعْبُدُ الَّذِيْنَ تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللہِ وَلٰكِنْ اَعْبُدُ اللہَ الَّذِيْ يَتَوَفّٰىكُمْ۰ۚۖ وَاُمِرْتُ اَنْ اَكُوْنَ مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَo (یونس۱۰: ۱۰۴)
کہو، کہ اے لوگو! اگر تمھیں ابھی تک معلوم نہیں ہے کہ میرا دین کیا ہے تو تمھیں معلوم ہو جائے کہ اللہ کے سوا جن کی تم عبادت کرتے ہو میں ان کی عبادت نہیں کرتا بلکہ مَیں اس اللہ کی عبادت کرتا ہوں جو تمھاری رُوحیں قبض کرتا ہے اور مجھے حکم دیا گیا ہے کہ مَیں ایمان لانے والوں میں شامل ہو جائوں۔
مَا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِہٖٓ اِلَّآ اَسْمَاۗءً سَمَّيْتُمُوْہَآ اَنْتُمْ وَاٰبَاۗؤُكُمْ مَّآ اَنْزَلَ اللہُ بِہَا مِنْ سُلْطٰنٍ۰ۭ اِنِ الْحُكْمُ اِلَّا لِلہِ۰ۭ اَمَرَ اَلَّا تَعْبُدُوْٓا اِلَّآ اِيَّاہُ۰ۭ ذٰلِكَ الدِّيْنُ الْقَيِّمُ (یوسف۱۲: ۴۰)
اللہ کے سوا جن کی تم عبادت کرتے ہو ان کی حقیقت اس کے سوا کچھ نہیں کہ چند نام ہیں جو تم نے اور تمھارے باپ دادا نے رکھ لیے ہیں۔ اللہ نے ان کے لیے کوئی دلیلِ معبودیّت نازل نہیں کی ہے۔ اقتدار صرف اللہ کے لیے خاص ہے۔ اس نے حکم دیا ہے کہ خود اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کی جائے یہی سیدھا طریقہ ہے۔
وَلِلہِ غَيْبُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَاِلَيْہِ يُرْجَعُ الْاَمْرُ كُلُّہٗ فَاعْبُدْہُ وَتَوَكَّلْ عَلَيْہِ۰ۭ (ہود۱۱: ۱۲۳)
آسمانوں اور زمین کی جس قدر حقیقتیں بندوں سے پوشیدہ ہیں ان کاعلم اللہ ہی کو ہے اور سارے معاملات اسی کی سرکار میں پیش ہوتے ہیں۔ لہٰذا تو اسی کی عبادت کر اور اسی پر بھروسا رکھ۔
لَہٗ مَا بَيْنَ اَيْدِيْــنَا وَمَا خَلْفَنَا وَمَا بَيْنَ ذٰلِكَ۰ۚ وَمَا كَانَ رَبُّكَ نَسِـيًّاo رَبُّ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَمَا بَيْنَہُمَا فَاعْبُدْہُ وَاصْطَبِرْ لِعِبَادَتِہٖ۰ۭ (مریم۱۹: ۶۴۔۶۵)
جو کچھ ہمارے سامنے ہے اور جو کچھ ہم سے پوشیدہ ہے اور جو کچھ ان دونوں حالتوں کے درمیان ہے، سب کا مالک وہی ہے، اور تیرا رب بھولنے والا نہیں ہے۔ وہ مالک ہے آسمان اور زمین کا اور ان ساری چیزوں کا جو زمین وآسمان کے درمیان ہیں لہٰذا تو اسی کی عبادت کر اور اسی کی عبادت پر ثابت قدم رہ۔
قُلْ اِنَّمَآ اَنَا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ يُوْحٰٓى اِلَيَّ اَنَّمَآ اِلٰـــہُكُمْ اِلٰہٌ وَّاحِدٌ۰ۚ (الکہف۱۸: ۱۱۰)
پس جو اپنے رب کی ملاقات کا امیدوار ہو وہ نیک عمل کرے اور اپنے رب کی عبادت میں کسی کی عبادت شریک نہ کرے۔
کوئی وجہ نہیں کہ ان آیات اور ایسی ہی دوسری تمام آیات میں عبادت کے لفظ کو محض پرستش یا محض بندگی واطاعت کے لیے مخصوص ٹھہرا لیا جائے۔ اس طرح کی آیات میں دراصل قرآن اپنی دعوت پیش کرتا ہے اور ظاہر ہے کہ قرآن کی دعوت یہی ہے کہ بندگی، اطاعت، پرستش جو کچھ بھی ہو اللہ کی ہو۔ لہٰذا ان مقامات پر عبادت کے معنی کو کسی ایک مفہوم میں محدود کرنا حقیقت میں قرآن کی دعوت کو محدود کرنا ہے اور اس کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ جو لوگ قرآن کی دعوت کا ایک محدود تصور لے کر ایمان لائیں گے وہ اس کی ناقص وناتمام پیروی کریں گے۔