اب ان آیات کو لیجیے جن میں عبادت کا لفظ صرف معنی دوم میں استعمال ہوا ہے:
اَلَمْ اَعْہَدْ اِلَيْكُمْ يٰبَنِيْٓ اٰدَمَ اَنْ لَّا تَعْبُدُوا الشَّيْطٰنَ۰ۚ اِنَّہٗ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِيْنٌo
(یٰسٓ۳۶: ۶۰)
اے بنی آدم! کیا مَیں نے تمھیں تاکید نہ کی تھی کہ شیطان کی عبادت نہ کرنا۔ کیوں کہ وہ تمھارا کھلا دشمن ہے۔
ظاہر ہے کہ شیطان کی پرستش تو دنیا میں کوئی بھی نہیں کرتا۔ بلکہ ہر طرف سے اس پر لعنت اورپھٹکار ہی پڑتی ہے۔ لہٰذا بنی آدم پر جو فردِ جرم اللہ تعالیٰ کی طرف سے قیامت کے روز لگائی جائے گی، وہ اس بات کی نہ ہو گی کہ انھوں نے شیطان کی پوجاکی بلکہ اس بات کی ہو گی کہ وہ شیطان کے کہنے پر چلے اور اس کے احکام کی اطاعت کی اور جس جس راستہ کی طرف وہ اشارہ کرتا گیا اس پر دوڑے چلے گئے۔
اُحْشُرُوا الَّذِيْنَ ظَلَمُوْا وَاَزْوَاجَہُمْ وَمَا كَانُوْا يَعْبُدُوْنَo مِنْ دُوْنِ اللہِ فَاہْدُوْہُمْ اِلٰى صِرَاطِ الْجَحِيْمِo …… وَاَقْبَلَ بَعْضُہُمْ عَلٰي بَعْضٍ يَّتَسَاۗءَلُوْنَo قَالُوْٓا اِنَّكُمْ كُنْتُمْ تَاْتُوْنَنَا عَنِ الْيَمِيْنِo قَالُوْا بَلْ لَّمْ تَكُوْنُوْا مُؤْمِنِيْنَo وَمَا كَانَ لَنَا عَلَيْكُمْ مِّنْ سُلْطٰنٍ۰ۚ بَلْ كُنْتُمْ قَوْمًا طٰغِيْنَo
(الصافات۳۷: ۲۲۔۳۰)
(جب قیامت برپا ہوگی تو اللہ فرمائے گا) تمام ظالموں اور ان کے ساتھیوں کو اور معبودان غیر اللہ کو جن کی وہ عبادت کرتے تھے جمع کرو اور انھیں جہنم کا راستہ دکھائو… پھر وہ آپس میں ایک دوسرے سے ردّوکد کرنے لگیں گے۔ عبادت کرنے والے کہیں گے کہ تم وہی لوگ تو ہو جو خیر کی راہ سے ہمارے پاس آتے تھے۔ ان کے معبود جواب دیں گے کہ اصل میں تم خود ایمان لانے پر تیار نہ تھے ہمارا کوئی زور تم پر نہ تھا۔ تم آپ ہی نافرمان لوگ تھے۔
اس آیت میں عابدوں اور معبودوں کے درمیان جو سوال وجواب نقل کیا گیا ہے اس پر غور کرنے سے صاف معلوم ہو جاتا ہے کہ یہاں معبودوں سے مراد بت اور دیوتا نہیں ہیں جن کی پوجا کی جاتی تھی، بلکہ وہ پیشوا اور راہ نُما ہیں جنھوں نے سجادوں اور تسبیحوں اور جُبّوں اور گلیموں سے بندگان خدا کودھوکا دے دے کر اپنا معتقد بنایا جنھوں نے اصلاح اور خیر خواہی کے دعوے کرکے شر اور فساد پھیلائے۔ ایسے لوگوں کی اندھی تقلید اور ان کے احکام کی بے چون وچرا اطاعت کرنے ہی کو یہاں عبادت سے تعبیر کیا گیا ہے:
اِتَّخَذُوْٓا اَحْبَارَہُمْ وَرُہْبَانَہُمْ اَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اللہِ وَالْمَسِيْحَ ابْنَ مَرْيَمَ۰ۚ وَمَآ اُمِرُوْٓا اِلَّا لِيَعْبُدُوْٓا اِلٰــہًا وَّاحِدًا۰ۚ (التوبہ۹: ۳۱)
انھوں نے اپنے علما اور مشائخ کو خدا کی بجائے اپنا رب بنا لیا اور اسی طرح مسیح ابن مریم کو بھی حالانکہ انھیں ایک الٰہ کے سوا کسی کی عبادت کا حکم نہیں دیا گیا تھا۔
یہاں علما اور مشائخ کو رب بنا کر عبادت کرنے سے مراد انھیں امر ونہی کا مختار اور خدا وپیغمبر کی سند کے بغیر ان کے احکام کی اطاعت بجا لانا ہے۔ اسی معنی کی تصریح روایاتِ صحیحہ میں خود نبی a نے فرما دی ہے۔ جب آپ سے عرض کیا گیا کہ ہم نے علما اور مشائخ کی پرستش تو کبھی نہیں کی۔ تو آپؐ نے جواب دیا کہ جس چیز کو انھوں نے حلال ٹھہرایا، کیا تم نے اسے حلال نہیں سمجھ لیا؟ اور جسے انھوں نے حرام قرار دیا کیا تم نے اسے حرام نہیں بنا لیا؟{ FR 7442 }