Search
Close this search box.

فہرست موضوعات

جہادِ فی سبیل اللہ
جہاد کے متعلق غلط فہمی کے اسباب:
جِہاد کی حقیقت:
’’فی سبیل اﷲ‘‘ کی لازمی قید:
اسلام کی دعوتِ انقلاب:
اسلامی دعوتِ انقلاب کی خصوصیت:
جِہاد کی ضرورت اور اس کی غایت:
عالمگیر انقلاب:
جارحانہ اور مدافعانہ کی تقسیم غیر متعلق ہے:
ذمیوں کی حیثیت:
سامراجیت (IMPERIALISM) کا شبہ:

جہاد فی سبیل اللہ

اس ویب سائٹ پر آپ کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ اب آپ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی رحمتہ اللہ علیہ کی کتابوں کو ’’پی ڈی ایف ‘‘ کے ساتھ ساتھ ’’یونی کوڈ ورژن‘‘ میں بھی پڑھ سکتے ہیں۔کتابوں کی دستیابی کے حوالے سے ہم ’’اسلامک پبلی کیشنز(پرائیوٹ) لمیٹڈ، لاہور‘‘، کے شکر گزار ہیں کہ اُنھوں نے اس کارِ خیر تک رسائی دی۔ اس صفحے پر آپ متعلقہ کتاب PDF اور Unicode میں ملاحظہ کیجیے۔

عالمگیر انقلاب:

اس بحث سے آپ پر یہ بات واضح ہوگئی ہوگی کہ اسلامی جہاد کا مقصود (Objective) غیراسلامی نظام کی حکومت کو مٹا کر اسلامی حکومت قائم کرنا ہے۔ اسلام یہ انقلاب صرف ایک ملک یا چند ملکوں میں نہیں بلکہ تمام دنیا میں برپا کرنا چاہتا ہے۔ اگرچہ ابتدا مسلم پارٹی کے ارکان کا فرض یہی ہے کہ جہاں جہاں وہ رہتے ہوں‘ وہاں کے نظامِ حکومت میں انقلاب پیدا کریں لیکن ان کی آخری منزلِ مقصود ایک عالمگیر انقلاب (World Revolution) کے سوا کچھ نہیں ہے۔ کوئی انقلابی مسلک جو قومیت کے بجائے انسانیت کی فلاح کے اصول لے کر اٹھا ہو‘ اپنے انقلابی مطمع نظر کو کبھی ایک ملک یا ایک قوم کے دائرے میں محدود نہیں کرسکتا۔ بلکہ وہ اپنی فطرت کے عین اقتضاء ہی سے مجبور ہے کہ عالمگیر انقلاب کو اپنا مطمع نظر بنائے۔ حق‘ جغرافی حدود کو قبول کرنے سے انکار کرتا ہے اس کا مطالبہ یہ ہے کہ میں اگر کسی پہاڑ یا دریا کے اس پار حق ہوں تو اس پار بھی حق ہوں۔ نوعِ انسانی کے کسی حصہ کو بھی مجھ سے محروم نہ رہنا چاہیے۔ انسان جہاں بھی ظلم و ستم کا اور افراط و تفریط کا تختہ مشق بنا ہوا ہے وہاں اس کی مدد کے لیے پہنچنا میرا فرض ہے۔ اسی تخیل کو قرآن ان الفاظ میں بیان کرتا ہے۔

وَمَالَکُمْ لَاْتُقَاتِلُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ وَالْمُسْتَضْعَفِیْنَ مِنَ الرَّجَالِ وَالنِّسَآئِ وَالْوِالْدَانِ الَّذِیْنَ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَآ اَخْرِجْنَا مِنْ ھٰذِھِ الْقَرْیَۃِ الظَّالِمِ اَھْلُہَا۔۔۔ (النساء:۷۵)

’’تمہیں کیا ہوگیا ہے کہ تم خدا کی راہ میں ان مردوں‘ عورتوں اور بچوں کے لیے نہیں لڑتے‘ جنہیں کمزور پاکر دبالیا گیا ہے اور جو دعائیں مانگتے ہیں کہ خدایا! ہمیں اس بستی سے نکال‘ جس کے باشندے ظالم ہیں‘‘۔

علاوہ بریں قومی اور ملکی تقسیمات کے باوجود انسانی تعلقات و روابط کچھ ایسی عالمگیری اپنے اندر رکھتے ہیں کہ کوئی ایک مملکت اپنے اصول و مسلک کے مطابق پوری طرح عمل نہیں کرسکتی‘ جب تک کہ ہمسایہ ممالک میں بھی وہی اصول و مسلک رائج نہ ہوجائے۔ لہٰذا مسلم پارٹی کے لیے اصلاحِ عمومی اور تحفظِ خودی‘ دونوں کی خاطر یہ ناگزیر ہے کہ کسی ایک خطہ میںاسلامی نظام کی حکومت قائم کرنے پر اکتفا نہ کرے۔۔۔ بلکہ جہاں تک اس کی قوتیں ساتھ دیں‘ اس نظام کو تمام اطراف میں وسیع کرنے کی کوشش کرے۔ وہ ایک طرف اپنے افکار و نظریات کو دنیا میں پھیلائے گی اور تمام ممالک کے باشندوں کو دعوت دے گی کہ اس مسلک کو قبول کریں‘ جس میں ان کے لیے حقیقی فلاح مضمر ہے۔ دوسری طرف اگر اس میں طاقت ہو گی تو وہ لڑکر غیراسلامی حکومتوں کو مٹادے گی اور ان کی جگہ اسلامی حکومت قائم کرے گی۔

یہی پالیسی تھی‘ جس پر رسول اللہﷺ نے اور آپ کے بعد خلفائے راشدین نے عمل کیا۔ عرب۔۔۔ جہاں مسلم پارٹی پیدا ہوئی تھی۔۔۔ سب سے پہلے اُسی کو اسلامی حکومت کے زیر نگیں کیا گیا۔ اس کے بعد رسول اللہﷺ نے اطراف کے ممالک کو اپنے اصول و مسلک کی طرف دعوت دی۔ پھر جب ان کے برسرِاقتدار لوگوں نے اس دعوتِ اصلاح کو رد کر دیا تو آپؐ نے ان کے خلاف جنگی کارروائی کا تہیہ کرلیا۔ غزوہ تبوک اسی سلسلہ کی ابتداء تھی۔ آنحضرﷺت کے بعد جب حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اس ’’انقلابی پارٹی‘‘ کے لیڈر ہوئے تو انھوں نے روم اور ایران‘ دونوں کی غیر اسلامی حکومتوں پر حملہ کیا۔ پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس حملے کو کامیابی کے آخری مراحل تک پہنچادیا۔ مصر و شام اور روم و ایران کے عوام اول اول اس کو عرب قوم کی استعماری (Imperialist) پالیسی سمجھے۔ انھوں نے خیال کیا کہ جس طرح پہلے ایک قوم دوسری قوم کو غلام بنانے کے لیے نکلا کرتی تھی‘ اسی طرح اب بھی ایک قوم اسی غرض کے لیے نکلی ہے۔ اس غلط فہمی کی بنا پر یہ لوگ قیصر وکسریٰ کے جھنڈے تلے مسلمانوں سے لڑنے کے لیے نکلے۔ مگر جب ان پر مسلم پارٹی کے انقلابی مسلک کا حال کھلا۔۔۔ اور جب انھیںمعلوم ہوا کہ یہ جفاکارانہ قوم پرستی (Aggressive Nationalism) کے علمبردار نہیں ہیں‘ بلکہ قومی اغراض سے پاک ہیں اور محض ایک عادلانہ نظام قائم کرنے آئے ہیں۔۔۔ اور ان کا مقصد درحقیقت ان ظالم طبقوں کی خداوندی کو ختم کرنا ہے‘ جو قیصریت و کِسرویت کی پناہ میں ہم کو تباہ و برباد کررہے ہیں۔۔۔ تو ان کی اخلاقی ہمدردیاں مسلم پارٹی کی طرف ہو گئیں۔ وہ قیصر و کِسریٰ کے جھنڈے سے الگ ہوتے چلے گئے اور اگرمارے باندھے سے فوج میں بھرتی ہوکر لڑنے آئے بھی‘ تو بے دلی سے لڑے۔ یہی سبب ہے اُن حیرت انگیز فتوحات کا‘ جو ابتدائی دور میں مسلمانوں کو حاصل ہوئیں۔۔۔ اور یہی سبب ہے اس کا کہ اسلامی حکومت قائم ہونے کے بعد جب ان ممالک کے باشندوں نے اسلامی نظامِ اجتماعی کو عملاً کام کرتے ہوئے دیکھا‘ تو وہ خود اس ’’بین الاقوامی پارٹی‘‘ میں شریک ہوتے چلے گئے اور خود اس مسلک کے علمبردار بن کر آگے بڑھے تاکہ دوسرے ملکوں میں بھی اس کو پھیلادیں۔

شیئر کریں