(ذیل میں وہ سوال نامہ مع جواب نقل کیا جا رہا ہے جو حکومت کے مقرر کردہ کمیشن برائے قوانین عائلہ کی طرف سے ۱۹۵۵ئ کے اواخر میں جاری کیا گیا تھا)
نکاح
سوال- کیا نکاح خوانی کا کام صرف حکومت کے مقرر کردہ نکاح خوانوں کے ذریعے ہونا چاہیے؟
جواب: جی نہیں۔ اسلامی معاشرے میں کسی قسم کی کہانت (Priesthood) کے لیے جگہ نہیں ہے۔ ہر مسلمان جس طرح نماز پڑھا سکتا ہے اسی طرح نکاح بھی پڑھا سکتا ہے بلکہ زوجین خود بھی دو گواہوں کے سامنے ایجاب و قبول کر سکتے ہیں۔ نکاح خواں کا ایک نیا عہدہ ازروئے قانون اگر مقرر کر دیا جائے تو لا محالہ دو صورتوں میں سے ایک صورت اختیار کرنی پڑے گی۔ یا تو ہر اس نکاح کو باطل قرار دیا جائے جو سرکاری ’’پادری‘‘ کے بغیر کر لیا گیا ہو۔ یا پھر اسے جائز تسلیم کیا جائے۔ پہلی صورت میں شریعت اور قانون کے درمیان تضاد واقع ہو جائے گا، کیونکہ شرعاً وہ نکاح صحیح ہو گا۔ اور دوسری صورت میں یہ قاعدہ مقرر کرنا فضول ہو گا۔
سوال- کیا نکاح کا رجسٹری کرانا لازمی ہونا چاہیے؟ اگر ایسا ہو تو اس کے لئے کیا طریق کار ہونا چاہیے اور اس کی خلاف ورزی کے لیے کیا اور کسے سزا ہونی چاہیے؟
جواب: نکاحوں کو ایک پبلک رجسٹر میں درج کرانے کا انتظام مفید تو ضرور ہے مگر اسے لازم نہ ہونا چاہیے۔ شریعت نے نکاح کے لیے جو قواعد مقرر کیے ہیں ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ نکاح کم از کم دو گواہوں کے سامنے ہو اور اس کو علی الاعلان کیا جائے تاکہ زوجین کے رشتہ داروں اور قریب کے حلقہ تعارف میں ان کا رشتہ معلوم و معروف ہو جائے۔ نزاعات کی صورت میں اس طریقے سے نکاح کی شہادتیں بہم پہنچنا کچھ زیادہ مشکل نہیں رہتا۔ تاہم قیام شہادت میں مزید سہولتیں دو طریقوں سے پیدا ہو سکتی ہیں۔ ایک یہ کہ ایک معیاری نکاح نامہ مرتّب کرکے عام طور پر شائع کر دیا جائے تاکہ لوگ نکاح سے متعلق تمام ضروری امور اس میں درج کرکے شہادتیں ثبت کرا لیا کریں۔ دوسرے یہ کہ ہر محلے اور بستی میں نکاحوں کا ایک رجسٹر رکھ دیا جائے تاکہ جو بھی اس میں نکاح کا اندراج کرانا چاہے کرا دے۔ لوگ بالعموم خود ہی اپنے مفاد کی حفاظت کے لیے ان دونوں سہولتوں سے فائدہ اٹھائیں گے۔ لیکن اسے لازم کرنے میں دو قباحتیں ہیں۔ ایک یہ کہ خلاف ورزی کرنے والوں کو کوئی نہ کوئی سزا دینی ہو گی اور اس طرح خواہ مخواہ ایک نئے جرم کا اضافہ ہو گا۔ دوسرے یہ کہ غیر رجسٹری شدہ نکاحوں کو تسلیم کرنے سے عدالتوں کو انکار کرنا ہو گا، حالانکہ جو نکاح گواہوں کے سامنے کیا جائے گا وہ شرعاً منعقد ہو جاتا ہے اور عدالت اس کے وجود سے انکار کرنے کا حق نہیں رکھتی۔ پھر یہ بھی غور طلب ہے کہ آیا آپ غیر رجسٹری شدہ نکاحوں سے پیدا ہونے والے بچوں کو ناجائز اولاد قرار دیں گے اور انھیں پدری جائداد کی وراثت سے بھی محروم کریں گے؟ اگر یہاں تک آپ نہیں جانا چاہتے تو رجسٹری کو قانوناً لازم کرنا آخر کیا معنی رکھتا ہے۔
سوال- یہ معلوم کرنے کے لیے کہ زوجین میں سے ہر ایک نے کسی دبائو کے بغیر اپنی رضامندی سے ایجاب و قبول کیا ہے کیا طریقہ اختیار کیا جائے؟
جواب- قانونی اغراض کے لیے ایجابی طور پر یہ معلوم ہونا ضروری نہیں ہے کہ نکاح کے فریقین نے اپنی رضامندی سے نکاح کیا ہے۔ جب تک یہ ثابت نہ ہو کہ کسی فریق نے دبائو کے تحت بلا رضا و رغبت مجبوراً ایجاب و قبول کیا ہے۔ اس وقت تک ہر نکاح کے متعلق یہی فرض کیا جائے گا کہ وہ برضا و رغبت ہوا ہے۔ اسلام میں ایجاب و قبول لازماً دو گواہوں کے سامنے ہوتا ہے۔ بالغ لڑکے کا نکاح اس وقت تک صحیح نہیں ہوتا جب تک وہ گواہوں کے سامنے بالفاظ صریح اسے قبول نہ کرے۔ لڑکی کے لیے (اگر وہ باکرہ ہو) زبانی اقرار ضروری نہیں ہے، لیکن اگر وہ بآوازِ بلند روئے تو یہ اس بات کی دلیل ہے کہ اسے نکاح منظور نہیں۔ اس طرح شریعت نے خودرضامندی متحقق کرنے کا ایک قاعدہ مقرر کر دیا ہے، اور یہ بالکل کافی ہے۔ پس پردہ اگر لڑکے یا لڑکی پر کوئی دبائو ڈالا گیا ہو تو اس کا ثبوت مدعی کو لانا چاہیے۔ قانون ایسے کسی دبائو کے عدم کے لیے ثبوت کا طالب نہیں ہے بلکہ اس کے وجود کا ثبوت مانگتا ہے اگر کوئی اس کا دعویٰ کرے۔ دبائو کے عدم کا ثبوت لازم کر دینے سے نہ صرف یہ کہ قانون کا منشا الٹ جائے گا بلکہ اس سے عملاً سخت مشکلات رونما ہوں گی۔
سوال- کیا آپ کے نزدیک کمسنی کی شادیوں کو روکنے کے لیے یہ قانون بنانا ضروری ہے کہ شادی کے وقت مرد کی عمر ۱۸ سال سے کم اور عورت کی ۱۵ سال سے کم نہ ہو۔
جواب- کم سنی کی شادیاں روکنے کے لیے کسی قانون کی حاجت نہیں۔ اور اس کے لیے ۱۸ سال اور ۱۵ سال کی عمر مقرر کر دینا بالکل غلط ہے۔ ہمارے ملک میں ۱۸ سال کی عمر سے بہت پہلے ایک لڑکا جسمانی طور پر بالغ ہو جاتا ہے اور لڑکیاں بھی ۱۵ سال سے پہلے جسمانی بلوغ کو پہنچ جاتی ہیں۔ ان عمروں کو ازروئے قانون نکاح کی کم سے کم عمر قرار دینے کے معنی یہ ہیں کہ ہمیں اس سے کم عمر والے لڑکوں اور لڑکیوں کی صرف شادی پر اعتراض ہے۔ کسی دوسرے طریقے سے جنسی تعلقات پیدا کر لینے پر کوئی اعتراض نہیں۔ شریعت اسلام نے اس طرح کی مصنوعی حد بندیوں سے اسی لیے احتراز کیا ہے کہ یہ درحقیقت بالکل غیر معقول ہیں۔ اس کے بجائے یہ بات لوگوں کے اپنے ہی اختیارِ تمیزی پر چھوڑ دینی چاہیے کہ وہ کب نکاح کریں اور کب نہ کریں۔ لوگوں میں تعلیم اور عقلی نشوونما کے ذریعے سے جتنا زیادہ شعور پیدا ہو گا اسی قدر زیادہ صحیح طریقے سے وہ اپنے اس اختیارِ تمیزی کو استعمال کریں گے، اور کم سنی کے نا مناسب نکاحوں کا وقوع‘ جو اب بھی ہمارے معاشرے میں کچھ بہت زیادہ نہیں ہے روز بروز کم تر ہوتا چلا جائے گا۔ شرعاً ایسے نکاحوں کو جائز صرف اس لیے رکھا گیا ہے کہ بسا اوقات کسی خاندان کی حقیقی مصلحتیں اس کی متقاضی ہوتی ہیں۔ اس ضرورت کی خاطر قانوناً اسے جائز ہی رہنا چاہیے اور اس کے نامناسب رواج کی روک تھام کے لیے قانون کے بجائے تعلیم اور عام بیداری کے وسائل پر اعتماد کرنا چاہیے۔ معاشرے کی ہر خرابی کا علاج قانون کا لٹھ ہی نہیں ہے۔
سوال- کیا آپ کے نزدیک نکاح کے لیے عمروں کا یہ تعیّن ازروئے قرآنِ کریم یا ازروئے حدیث ِصحیح ممنوع ہے؟
جواب- نکاح کے لیے عمروں کے تعیّن کی کوئی صریح ممانعت تو قرآن و حدیث میں نہیں ہے مگر کم سنی کے نکاح کا جواز سنّت سے ثابت ہے اور احادیث ِصحیحہ میں اس کے عملی نظائر موجود ہیں۔ سوال یہ ہے کہ جو چیز شرعاً جائز ہے اس کو آپ قانوناً حرام کس دلیل سے کرتے ہیں؟ آپ کا ایک عمر ازروئے قانون مقرر کر دینا یہ معنی رکھتا ہے کہ اس عمر سے کم میں اگر کوئی نکاح کیا جائے تو آپ اسے باطل قرار دیں گے اور ملکی عدالتیں اس کو تسلیم نہ کریں گی۔ کیا اسے ناجائز اور باطل ٹھہرانے کے لیے کوئی اجازت قرآن یا حدیث ِصحیح میں موجود ہے؟ دراصل یہ طرزِ سوال بہت ہی مغالطہ آمیز ہے۔ تعیین عمر صرف ایک ایجابی پہلو ہی نہیں رکھتی بلکہ ساتھ ساتھ ایک سلبی پہلو بھی رکھتی ہے۔ اس کے معنی صرف یہی نہیں ہیں کہ آپ نکاح کے لیے محض ایک عمر مقرر کرنا چاہتے ہیں، بلکہ اس کے معنی یہ بھی ہیں کہ اس عمر سے پہلے نکاح کرنے کو آپ حرام بھی کرنا چاہتے ہیں۔ اس منفی پہلو کو نظر انداز کرکے صرف یہ پوچھنا کہ کیا اس کا مثبت پہلو ممنوع ہے، سوال کو ادھوری شکل میں پیش کرنا ہے۔ سوال کی تکمیل اس وقت ہو گی جب آپ ساتھ ساتھ یہ بھی پوچھیں کہ کیا ایک عمر خاص سے پہلے نکاح کو ناجائز ٹھہرانے کے حق میں کوئی دلیل قرآن یا کسی حدیث صحیح میں ملتی ہے؟
سوال- کیا آپ اس سے متفق ہیں کہ معاہدۂ ازدواج میں ہر ایسی شرط درج ہو سکتی ہے جو اسلام اور اخلاق کے بنیادی اصولوں کے خلاف نہ ہو اور عدالت اس کے ایفا پر مجبور کرے؟
جواب- اس سوال کے دو حصّے ہیں۔ پہلا حصّہ یہ ہے کہ کیا ایسی شرطیں معاہدۂ ازدواج میں درج ہو سکتی ہیں۔ اس کا جواب یہ ہے کہ ہو سکتی ہیں مگر اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ایسی کچھ شرائط ازروئے قانون معاہدۂ نکاح کا لازمی جز بنا دی جائیں اور حکومت کی طرف سے شائع کردہ معیاری نکاح نامے میں ان کو شامل کر دیا جائے۔ شریعت نے اس معاملے کو ہر انفرادی نکاح کے فریقین پر چھوڑا ہے اور انھیں اختیار دیا ہے کہ جو مباح شرطیں بھی وہ چاہیں آپس میں طے کر لیں۔ اس حد سے تجاوز کرکے بعض شرطوں کو قانون یا رواج کی حیثیت دے دینا اصول کے بھی خلاف ہے اور عملاً بھی اس سے بہت سی خرابیاں رونما ہو سکتی ہیں۔ ہمارے معاشرے میں جو بات تجربے سے ثابت ہوئی ہے وہ یہ ہے کہ بالعموم کامیاب ازدواجی رشتے وہی ہوتے ہیں جن میں فریقین نے باہمی اعتماد پر معاملہ کیا ہو اور طرح طرح کی شرطوں سے ایک دوسرے کو باندھنے کی کوشش نہ کی ہو۔ شرطوں کی بندشیں عام طور پر الٹی خرابی پیدا کر تی ہیں۔ کیونکہ ان کی بدولت رشتے کا آغاز ہی بے اعتمادی سے ہوتا ہے۔ مصنوعی شرطوں کو رائج کرنے کے لیے صرف یہ دلیل کافی نہیں ہے کہ وہ اسلام اور اصولِ اخلاق کے خلاف نہیں ہیں۔ کسی چیز کے خلافِ اسلام اور خلافِ اخلاق نہ ہونے سے یہ تو لازم نہیں آتا کہ اسے ضرور کرنا چاہیے۔
سوال کا دوسرا حصّہ یہ ہے کہ کیا عدالتیں ایسی شرطوں کے ایفا پر حکماً مجبور کر سکتی ہیں جو معاہدۂ ازدواج میں درج ہوں اور خلافِ اسلام و اخلاق نہ ہوں؟ اس کا جواب یہ ہے کہ شریعت کی مقرر کردہ شرطوں کے سوا جتنی شرطیں بھی معاہدۂ ازدواج میں درج کی گئی ہوں انھیں نافذ کرتے وقت عدالت کو صرف یہی نہیں دیکھنا چاہیے کہ وہ خلافِ اسلام و اخلاق نہیں ہیں بلکہ یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ طرفین کے انفرادی حالات میں وہ معقول اور منصفانہ بھی ہیں۔
سوال- کیا آپ اس سے متفق ہیں کہ ازروئے قانون یہ تسلیم کیا جائے کہ معاہدۂ ازدواج میں یہ شرط ہو سکتی ہے کہ عورت کو بھی اعلانِ طلاق کا وہی حق حاصل ہو گا جو مرد کو حاصل ہے؟
جواب- اگر ایجاب و قبول کے وقت عورت یہ کہے کہ میں اپنے آپ کو تیرے نکاح میں اس شرط کے ساتھ دیتی ہوں کہ میں جب چاہوں اپنے اوپر طلاق وارد کرنے کی مختار ہوں گی اور مرد اسے قبول کر لے تو قانوناً اس شرط کو صحیح تسلیم کیا جا سکتا ہے۔ یہ صورت تفویض طلاق کی ہے اور فقہا نے اسے جائز رکھا ہے لیکن یہ یاد رکھنا چاہیے کہ تفویض طلاق کا قانوناً جائز ہونا اور چیز ہے اور اسلامی معاشرے میں اسے رواج دینے کی کوشش کرنا اور چیز۔ اس کا قانونی جواز تو صرف اس بنا پر ہے کہ مرد کو شریعت نے طلاق کا جو اختیار دیا ہے اسے وہ اپنی طرف سے نیابتہً یا وکالتہً جسے چاہے سونپ سکتا ہے اور عورت کو بھی وہ تفویض کر سکتا ہے لیکن اس کی ترویج اور ہر معاہدۂ نکاح میں اس شرط کو شامل کرنے کی کوشش قطعاً اسلام کے منشا کے خلاف ہے۔ اسلام نے عورت اور مرد کے درمیان حقوق و اختیارات کا جو تناسب قائم کیا ہے اس کا یہ فطری اور منطقی تقاضا ہے کہ زوجین میں سے صرف مرد ہی طلاق کا مختار ہو۔ اس نے مہر اور زمانہ عدت کا نفقہ اور چھوٹے بچوں کے زمانۂ رضاعت و حضانت کا خرچ کلیتہً مرد پر ڈالا ہے۔ اس لیے مرد مجبور ہے کہ طلاق کا اختیار استعمال کرنے میں احتیاط سے کام لے، کیونکہ اس کا پورا مالی نقصان اسی کو برداشت کرنا ہو گا۔ بخلاف اس کے عورت پر کوئی مالی ذمہ داری اس نے عائد نہیں کی ہے بلکہ طلاق کے نتیجے میں اسے کچھ لینا ہی ہوتا ہے۔ دینا کچھ نہیں ہوتا۔ اس لیے وہ اختیارِ طلاق کے استعمال میں سخت بے احتیاطی کر سکتی ہے بلکہ ذرا سے اشتعال پر بھی بے تکلف طلاق دے سکتی ہے۔ ان وجوہ سے عورت کی طرف اس اختیار کو منتقل کر دینا اس اسکیم کے بالکل خلاف ہے جو اسلام نے اپنے ازدواجی قانون میں پیش نظر رکھی ہے۔ اس غلط طریقے کو اگر رائج کیا گیا تو معاشرے میں اس کے بہت برے نتائج رونما ہوں گے اور ہم کثرتِ طلاق کی ایک ایسی وبا سے دو چار ہو جائیں گے جس سے اب تک ہمارا معاشرہ محفوظ رہا ہے۔
سوال- ہمارے معاشرے کے بعض طبقوں میں دختر فروشی کا مکروہ رواج پایا جاتا ہے۔ اس کے انسداد کے لیے آپ کے نزدیک کس قسم کا اقدام مناسب ہو گا تاکہ والدین یا ولی لڑکی کو نکاح میں دیتے ہوئے رقمیں وصول نہ کر سکیں؟
جواب- یہ ایک نہایت مکروہ رسم ہے۔ اسے قانوناً جرم ٹھہرا دینا چاہیے اور ان لوگوں کے لیے قید یا جرمانے کی سزا تجویز کرنی چاہیے جو لڑکیوں کو اس طرح فروخت کرتے ہیں۔
سوال- کیا آپ کے نزدیک مناسب ہو گا کہ ایک معیاری نکاح نامہ مرتّب کیا جائے اور نکاح کے تمام اندراجات اس کے مطابق ہوں؟
جواب- یہ عین مناسب ہے۔ ماہرین فقہ کے مشورے سے اس طرح کا ایک نکاح نامہ ضرور مرتّب ہونا چاہیے بلکہ اس کے ساتھ ازدواجی قانون کے ضروری احکام بھی منسلک ہونے چاہییں جن کے نہ جاننے کی وجہ سے لوگ بالعموم غلطیاں کرتے ہیں۔
طلاق
سوال: اگر کوئی شوہر بیک وقت تین طلاقیں دے تو کیا آپ کے نزدیک اسے قطعی طلاق مغلّظہ شمار کیا جائے یا تین طُہروں میں تین طلاقوں کے اعلان کے بغیر جیسا کہ قرآن میں ہدایت کی گئی ہے یہ مغلّظہ شمار نہ ہو؟
جواب- ائمہ اربعہ اور جمہور فقہا کا مسلک یہ ہے کہ تین طلاق اگر بیک وقت دیئے جائیں تو وہ تین ہی طلاق شمار ہوں گے۔ اور میرے نزدیک یہی صحیح تر بات ہے، اس لیے میں یہ مشورہ نہیں دے سکتا کہ اس قاعدے میں کوئی تغیّر کیا جائے۔ لیکن یہ امر مسلّم ہے کہ ایسا کرنا گناہ ہے کیونکہ یہ اس صحیح طریقے کے خلاف ہے جو اللہ اور اس کے رسول نے طلاق دینے کے لیے سکھایا ہے۔ اس لیے اس غلط طریقے کی روک تھام ضرور ہونی چاہیے۔ میری رائے میں اس غرض کے لیے حسب ِذیل تدابیر مناسب ہوں گی:
الف- مسلمانوں کو عام طور پر طلاق کے صحیح طریقے سے واقف کرایا جائے، اس کی حکمتیں اور اس کے فوائد سمجھائے جائیں، اور اس کے مقابلے میں طلاق بدعی کے نقصانات سے آگاہ کیا جائے، نیز یہ بھی بتایا جائے کہ اس غلط طریقے سے طلاق دینے والا گناہ گار ہوتا ہے۔ یہ چیز تعلیم کے نصاب میں بھی شامل ہونی چاہیے، ریڈیو اور پریس کے ذریعے سے بھی نشر ہونی چاہیے اور نکاح ناموں کے ساتھ جو احکام منسلک ہوں ان میں بھی اسے درج ہونا چاہیے۔
ب- دستاویز نویسوں کو حکماً تین طلاق کی دستاویز لکھنے سے منع کر دیا جائے اور خلاف ورزی کرنے والوں کے لیے جرمانہ مقرر کر دیا جائے۔
ج- بیک وقت تین طلاق دینے والوں کے لیے بھی سزائے جرمانہ مقرر کر دی جائے۔ اس کے لیے ہمارے پاس حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے عمل کی نظیر موجود ہے۔ ان کا طریقہ یہ تھا کہ جب کبھی مجلس واحد میں تین طلاق دینے کا مقدمہ ان کے سامنے پیش ہوتا وہ طلاق کو نافذ کرنے کے ساتھ طلاق دینے والے کو سزا بھی دیتے تھے۔
سوال- کیا طلاقوں کا رجسٹری کرانا لازمی قرار دیا جائے؟
جواب- طلاق کی رجسٹری کا انتظام تو ضرور ہونا چاہیے مگر وہ صرف اختیاری ہونی چاہیے۔ لازم قرار دینے میں متعدد قباحتیں ہیں۔ عدالتوں میں ہر اس طلاق کو تسلیم کیا جانا چاہیے جس کی شہادت بہم پہنچے، یا طلاق دینے والا جس کا اقرار کرے قطع نظر اس سے کہ وہ رجسٹری شدہ ہو یا نہیں۔
سوال- اگر طلاق کی رجسٹری نہ ہو تو آپ کے نزدیک اس کی کیا سزا ہونی چاہیے؟
جواب- رجسٹری نہ کرانے کے لیے کسی سزا کی حاجت نہیں۔
سوال- کیا مختلف علاقوں کے لیے مصالحتی مجالس مقرر کی جائیں اور کسی طلاق کو اس وقت تک صحیح تسلیم نہ کیا جائے جب تک کہ فریقین ان مجالس کی طرف رجوع نہ کر چکے ہوں جن میں زوجین کے خاندانوں کی طرف سے بھی ایک ایک حَکَم شامل ہو؟
جواب- اس طرح کی مصالحتی مجالس تو ضرور قائم ہونی چاہییں اور عدالتوں کے لیے بھی یہ قاعدہ مقرر کرنا چاہیے کہ وہ ازدواجی نزاعات کا فیصلہ کرنے سے پہلے قرآنِ مجید کے مقرر کردہ طریقہ تحکیم پر عمل کریں، لیکن یہ بات صحیح نہیں ہے کہ جس طلاق کا معاملہ مصالحتی مجالس یا خاندانی حَکَموں کے سامنے نہ گیا ہو اس کو سرے سے تسلیم ہی نہ کیا جائے۔ شریعت کی رُو سے ہر وہ طلاق واقع ہو جاتی ہے جس میں طلاق کے ارکان و شروط پائے جائیں۔ اس کے وقوع کی شرائط میں شرعاً یہ چیز شامل نہیں ہے کہ آدمی کسی حَکَم یا مصالحتی مجلس سے رجوع کرے۔ اب اگر ایسی طلاق جو شرعاً واقع ہو چکی ہو، عدالتیں تسلیم نہ کریں تو لوگ سخت پیچیدگی میں پڑ جائیں گے اور یہ قاعدہ اسلامی شریعت سے متناقض ہو جائے گا۔
سوال- کیا ازدواجی و عائلی عدالت کو مطلّقہ کے مطالبے پر یہ اختیار ہونا چاہیے کہ وہ مطلّقہ کو تاحینِ حیات یا تا عقدِ ثانی نفقہ دلوائے؟
جواب- یہ بات شریعت کے خلاف بھی ہو گی اور انصاف کے خلاف بھی۔ قرآن اور حدیث میں وہ صورتیں معین کر دی گئی ہیں جن میں ایک مطلّقہ عورت طلاق دینے والے شوہر سے نفقہ پانے کی حق دار ہوتی ہے۔ اور یہ بھی طے کر دیا گیا ہے کہ ان مختلف صورتوں میں وہ کتنی مدت کے لیے حق دار رہتی ہے۔ تاحینِ حیات یا تا عقدِ ثانی نفقہ پانے کا استحقاق اس شرعی ضابطے کے خلاف ہو گا اور عقل بھی یہ نہیں مانتی کہ ایک شخص جو ایک عورت کو طلاق دے چکا ہے اور جو اس سے اب کسی قسم کا فائدہ اٹھانے کا حقدار نہیں ہے۔ مدت العمر یا تا عقدِ ثانی اس کے مصارف کا بار اٹھانے پر مجبور کیا جائے۔ یہ چیز خود عورتوں کی اخلاقی پوزیشن کو بھی گرا دینے والی ہے۔ میں نہیں سمجھتا کہ کوئی خوددار اور شریف عورت یہ بات کبھی گوارا کر سکتی ہے کہ وہ ایک غیر شخص سے جس کی بیوی وہ نہیں رہی ہے اپنے مصارف کی کفالت کرائے۔ ایسا ضابطہ اپنے قوانین میں درج کرکے ہم اپنے معاشرے کے طبقہ اناث کی عزت پر بری طرح حرف لائیں گے اور اس کا فائدہ صرف وہ چند عورتیں ہی اٹھائیں گی جو اپنے اخلاقی وقار کی بہ نسبت مال کو زیادہ اہمیّت دینے والی ہوں۔
عورت کی طرف سے مطالبہ طلاق
سوال- کیا آپ ڈیسولیوشن آف میرج ایکٹ ۱۹۳۹ء (انفساخِ نکاح مسلمین ۱۹۳۹ء) کی تمام دفعات کو جامع اور تشفی بخش سمجھتے ہیں۔ یا آپ کے نزدیک اس میں اضافہ و ترمیم ہونی چاہیے؟
جواب- مذکورہ ایکٹ میرے سامنے نہیں ہے اس لیے میں اس پر کوئی اظہار رائے نہیں کر سکتا۔ اچھا ہوتا کہ اس سوال نامے کے ساتھ اس ایکٹ کی نقل بھی شامل ہوتی۔
سوال- کیا آپ کے نزدیک یہ مناسب ہو گا کہ خلع کے متعلق مجلس آئین ساز واضح اور غیر مبہم قانون وضع کرے؟
جواب- مناسب یہ ہو گا کہ صرف خلع ہی کے متعلق نہیں بلکہ تمام ازدواجی معاملات کے متعلق اسلامی احکام ایک کتابچے کی صورت میں مدون (codify) کر دیئے جائیں اور اس غرض کے لیے علما اور تجربہ کار قانون دانوں کی ایک کمیٹی بنا دی جائے۔
تعددِ ازواج
سوال- قرآن کریم میں تعدد ازواج کی بابت ایک ہی آیت (۴:۴) ہے جو حقوق یتامیٰ کی حفاظت کے ساتھ وابستہ ہے۔ کیا آپ کے نزدیک جہاں حقوق یتامیٰ کا سوال نہ ہو وہاں تعدّد ازواج کو ممنوع کیا جا سکتا ہے؟
جواب- یہ خیال غلط ہے کہ قرآن مجید کی مذکورہ آیت کا حکم حقوقِ یتامیٰ کی حفاظت کے ساتھ وابستہ ہے اور یہ رائے بھی غلط ہے کہ جہاں حقوق یتامیٰ کا سوال نہ ہو وہاں تعددّ ازواج کو ممنوع کیا جا سکتا ہے۔ قرآن مجید میں بکثرت مثالیں ایسی موجود ہیں جن میں ایک حکم بیان کرنے کے ساتھ ان حالات کا بھی ذکر کیا گیا ہے جن میں اس حکم کے بیان کی حاجت پیش آئی ہے۔ یا جن میں اس کی ضرورت پیش آ سکتی ہے، یا جن سے وہ حکم متعلق ہے۔ اس سے یہ نتیجہ نہیں نکالا جا سکتا اور کسی قانون دان آدمی سے یہ توقع نہیں کی جا سکتی کہ وہ اس سے یہ نتیجہ نکالے گا کہ ایسا ہر حکم صرف انھی حالات کے ساتھ ’’وابستہ‘‘ ہے جن کا ذکر کر دیا گیا ہے اور دوسرے تمام حالات میں اس حکم پر عمل کرنا یا اس اجازت سے فائدہ اٹھانا ممنوع ہے۔ مثال کے طور پر سورۂ بقرہ کی آیت ۲۸۳ میں فرمایا گیا ہے کہ اگر تم سفر پر ہو اور (قرض کی دستاویز لکھنے کے لیے) تم کو کاتب نہ ملے تو پھر رہن باقبضہ ہونا چاہیے۔ کیا قانون کی سمجھ رکھنے والا کوئی آدمی اس کا یہ مطلب لے سکتا ہے کہ اسلامی شریعت میں رہن بالقبض کا جواز صرف سفر اور کاتب نہ ملنے کی حالت کے ساتھ وابستہ ہے؟ اسی طرح سورۂ نساء کی آیت ۲۳ میں جن عورتوں کے ساتھ نکاح حرام کیا گیا ہے ان میں سوتیلی بیٹی کی حرمت ان الفاظ میں بیان کی گئی ہے: اور تمھاری وہ پروردہ لڑکیاں جو تمھاری گودوں میں ہیں تمھاری ان بیویوں سے جن کے ساتھ تم ہم بستر ہو چکے ہو۔ کیا اس کا یہ مطلب لیا جا سکتا ہے کہ سوتیلی بیٹی کی حرمت صرف اس حالت کے ساتھ وابستہ ہے جب کہ اس نے سوتیلے باپ کے گھر میں پرورش پائی ہو؟ ان مثالوں سے یہ بات بآسانی سمجھ میں آ سکتی ہے کہ تعددّ ازواج کی اجازت جس آیت میں بیان ہوئی ہے اس کے ساتھ حقوقِ یتامیٰ کی حفاظت کا ذکر کرنے کا مقصد اس اجازت کو صرف اسی حالت کے ساتھ وابستہ کر دینا نہیں ہے جب کہ یتامیٰ کا کوئی معاملہ درپیش ہو۔ بلکہ اگر اس موقع و محل کو دیکھا جائے جس میں یہ آیت آئی ہے تو نتیجہ اس کے بالکل برعکس نکلتا ہے۔ تعددّ ازواج اس آیت کے نزول سے پہلے عرب میں رائج تھا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم خود متعددّ بیویاں رکھتے تھے، اور بکثرت صحابہ کرام کے گھروں میں ایک سے زائد بیویاں موجود تھیں۔ قرآن میں اس کی کوئی ممانعت نہ آنا بجائے خود اس رواج کے جواز کے لیے کافی دلیل تھا۔ اس لیے یہ آیت دراصل تعددّ ازواج کی اجازت دینے کے لیے نازل ہی نہیں ہوئی تھی۔ بلکہ جنگ احد کے بعد اس کے نزول کا مقصد مسلمانوں کو یہ رہنمائی دینا تھا کہ جنگ اُحد کے نتیجے میں بہت سے لوگوں کی شہادت سے یتامیٰ کی پرورش کا جو مسئلہ پیدا ہوگیا ہے اس پر پریشان ہونے کی کوئی ضرورت نہیں‘ اس مسئلے کو تم لوگ تعددّ ازواج کے طریقے سے حل کر سکتے ہو جو پہلے ہی سے تمھارے لیے جائز ہے۔ اس طرح اس آیت نے کوئی نئی اجازت نہیں دی ہے بلکہ پہلے سے جو اجازت عملاً چلی آ رہی تھی اس سے ایک خاص اجتماعی مسئلے کو حل کرنے میں مدد لینے کی تلقین کی ہے۔ البتہ نئی بات اس میں صرف یہ تھی کہ پہلے تعددّ ازواج غیر مقیّد تھا اور اب اس کو زیادہ سے زیادہ چار کی حد کے ساتھ مقیّد کر دیا گیا۔ اس پس منظر سے جو شخص واقف ہو وہ کبھی اس غلط فہمی میں نہیں پڑ سکتا کہ اس آیت میں تعددّ ازواج کی پہلی مرتبہ اجازت دی گئی تھی اور اس اجازت کو صرف اس حالت کے ساتھ وابستہ کر دیا گیا تھا جب کہ یتامیٰ کے حقوق کی حفاظت کے لیے اس سے فائدہ اٹھانے کی ضرورت پیش آئے۔
سوال- کیا آپ کے نزدیک یہ لازمی ہونا چاہیے کہ عقدِ ثانی کا ارادہ رکھنے والا شخص عدالت سے اجازت حاصل کرے؟
جواب: شریعت نے عقد اوّل اور عقد ِ ثانی و ثالث و رابع میں کوئی فرق نہیں کیا ہے۔ ان سب کی کھلی اجازت ہے۔ اگر عقد اوّل کسی عدالت کی اجازت کے ساتھ مشروط نہیں ہو سکتا تو ثانی کیا، ثالث و رابع بھی نہیں ہو سکتا۔ اس طرح کی تجویزیں صرف اسی صورت میں قابلِ غو رہو سکتی ہیں جب کہ پہلے یہ تسلیم کر لیا جائے کہ ایک سے زائد نکاح کرنا ایک برائی ہے جس کو اگر روکا نہ جا سکے تو کم از کم اس پر پابندیاں ہی عاید ہونی چاہییں۔ یہ نقطۂ نظر رومن لا کے فلسفہ قانون کا ہے نہ کہ اسلام کے فلسفہ قانون کا۔ اس لیے اسلامی قانون کی بحث میں ایسی تجویزیں لانا جن کا بنیادی تصوّر ہی اسلام کے تصوّر سے مختلف ہو اصولاً بالکل غلط ہے۔
سوال- کیا آپ کے نزدیک یہ قانون ہونا چاہیے کہ عدالت یہ اجازت اس وقت تک نہیں دے سکتی جب تک اسے یہ اطمینان نہ ہو کہ درخواست دہندہ دونوں بیویوں اور ان کی اولاد کی اس معیارِ زندگی کے مطابق کفالت کر سکتا ہے جس کے وہ عادی ہیں؟
جواب- اوپر کے جواب کے بعد یہ سوال آپ سے آپ خارج از بحث ہو جاتا ہے۔ تاہم مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اس تجویز کی بعض کمزوریوں کی طرف اشارہ کر دیا جائے۔ اس میں یہ خیال پیش کیا گیا ہے کہ عدالت عقدِ ثانی کی اجازت صرف اس صورت میں دے جب کہ ایک شخص دو بیویوں اور ان کی اولاد کی کفالت کر سکتا ہو۔ سوال یہ ہے کہ جو شخص ایک بیوی اور اس کی اولاد کی بھی کفالت نہ کر سکتا ہو اسے نکاح کی کھلی چھٹی کیوں ملی رہے؟ کیوں نہ ہر شخص کے عقد اوّل کا معاملہ بھی عدالت کی اجازت سے مشروط ہو اور اس کے لیے بھی یہ قید نہ لگا دی جائے کہ جب تک نکاح کا ہر خواہش مند عدالت کو اپنی مالی پوزیشن کے متعلق اطمینان نہ دلا دے اس وقت تک کسی کو نکاح کی اجازت نہ دی جائے؟ پھر یہ عجیب بات ہے کہ محبت اور سنجوگ اور خاندانی زندگی کے لطف و اطمینان کا ہر سوال نظر انداز کرکے صرف اس ایک سوال کو نکاح ثانی کے معاملے میں اہمیّت دی گئی ہے کہ یہ کام کرنے والا دو بیویوں اور ان کی اولاد کے مالی بار کا متحمل ہو سکے۔ اس کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ عقدِ ثانی غریب اور متوسط طبقے کے لیے تو ممنوع ہو‘ مگر اونچے طبقے کے لیے یہ حق پوری طرح محفوظ رہے۔ اس سے بھی زیادہ دلچسپ کمزوری اس میں یہ ہے کہ عدالت صرف یہ دیکھ کر ایک شخص کو نکاح ثانی کی اجازت دے دے گی کہ وہ دو بیویوں اور ان کی اولاد کا متکفل ہو سکتا ہے حالانکہ محض متکفل ہو سکنا عملاً متکفل ہونے کے لیے کوئی ضمانت نہیں ہے۔ ہمارے سامنے بکثرت مثالیں ایسے لوگوں کی موجودہیں جو بڑی بڑی آمدنیاں رکھتے ہیں اور ایک بیوی کو نذرِ تغافل کیے رکھتے ہیں۔ عدالتوں کی اجازت کی قید ان خرابیوں کا آخر کیا سدّباب کرتی ہے؟ ایسی خام تجویزوں کے بجائے کیا یہ بہتر نہیں ہے کہ ہم شریعت کے اس قاعدے ہی پر اکتفا کریں کہ ایک شخص ایک سے زائد نکاح کرنے کے معاملے میں اپنی مرضی کا مختار ہو اور جس بیوی کو بھی اس سے کسی نوع کی بے انصافی کا شکوہ ہو اس کی دادرسی کے لیے عدالت کا دروازہ کھلا رہے۔
سوال- کیا یہ قانون ہونا چاہیے کہ دوسری شادی کرنے والے کی کم از کم نصف تنخواہ پہلی بیوی اور اس کی اولاد کو عدالت دلوائے؟
سوال- (۲) اور جو لوگ تنخواہ دار نہیں بلکہ دوسرے ذرائع آمدنی رکھتے ہیں ان سے عدالت ضمانت لے کہ وہ اپنی آمدنی کا کم از کم نصف پہلی بیوی اور اس کی اولاد کو دیتے رہیں گے؟
جواب: یہ تجویز بالکل غلط ہے۔ ایک آدمی لازماً صرف اپنے ہی بال بچوں کا کفیل نہیں ہوتا بلکہ والدین، چھوٹے بہن بھائی اور دوسرے مستحق اعزہ بھی بہت سے لوگوں کے ساتھ ہوتے ہیں جن کی انھیں خدمت اور کفالت کرنی ہوتی ہے۔ اس صورت میں یہ ضابطہ بنا دینا کہ دوسری شادی کرنے والے کی کم از کم نصف آمدنی ضرور پہلی بیوی کو دلوائی جائے سراسر بے انصافی ہے۔ پھر اگر پہلی بیوی بے اولاد ہو اور دوسری صاحبِ اولاد تو یہ کس اصولِ انصاف کا تقاضا ہے کہ شوہر کی آدھی آمدنی بے اولاد بیوی کے لیے مخصوص کر دی جائے اور دوسری بیوی اولاد سمیت بقیہ نصف میں گزر کرے؟ شریعت ایسے اندھے ضابطے بنانے کے بجائے یہ قاعدہ مقرر کر تی ہے کہ بیویوں کے درمیان شوہر خود عدل کرے اور اگر کسی بیوی کی طرف سے بے انصافی کی شکایت عدالت میں آئے تو قاضی اس خاندان کے حالات کو دیکھ کر انصاف کی مناسب صورت تجویز کر دے۔
مہر
سوال- کیا آپ کے نزدیک یہ قانون بن جانا چاہیے کہ معاہدۂ ازواج میں جو مہر مقرر کیا گیا ہے خواہ اس کی مقدار کتنی ہی کثیر کیوں نہ ہو وہ شوہر کے لیے واجب الادا ہے؟
جواب:مہر تو شرعاً ہے ہی واجب الادا چیز۔ اس کے لیے الگ قانون بنانے کی کیا حاجت ہے؟ البتہ اگر اس کا مطلب ایسا قانون بنانا ہے کہ ہر مقدار مہر لازماً ہر حال میں واجب الادا ہو تو یہ قرآن کے بھی خلاف ہے اور عقل و انصاف کے بھی خلاف۔ قرآن عورت کو مہر معاف کرنے کا حق بھی دیتا ہے اور مہر میں کمی قبول کرنے کا حق بھی۔ نیز اگر مہر شوہر کی حیثیت سے بہت زیادہ ہو یا بعد میں کسی وقت شوہر کے مالی حالات ایسے ہو جائیں کہ وہ کسی طرح ایک گراں قدر مہر ادا کرنے کے قابل نہ رہے یا کسی عقد نکاح میں ایسا مہر بندھوا لیا گیا ہو جسے کوئی شخص بھی معقول نہ تسلیم کر سکتا ہو، تو ایسی صورتوں میں عدالت یا پنچوں کے لیے مناسب رقم پر راضی نامہ کرا دینے کا دروازہ کھلا رہنا چاہیے۔
سوال- کیا آپ مناسب سمجھتے ہیں کہ مطالبۂ مہر کے لیے ازروئے قانون کسی مدت کی تحدید نہ ہو؟
جواب- مہر کی وصولی کے لیے مدت کا تعیّن اور عدم تعیّن فریقین کی باہمی قرارداد پر منحصر ہے۔ اس معاملے میں قانون کو کسی مداخلت کی ضرورت نہیں۔
سوال- اس بارے میں آپ کی کیا رائے ہے کہ اگر نکاح نامے میں ادائے مہر کی صورت کا کوئی تعیّن نہ ہو تو نصف مہر معجل (عندالطلب) اور نصف غیر مؤجل (بعد انفساخِ نکاح یا وفات شوہر یا بصورتِ طلاق) شمار ہو؟
جواب- ایسی صورت میں سارا مہر عند المطالبہ واجب الادا ہونا چاہیے۔ البتہ اگر عدالت یہ دیکھے کہ مقدار مہر فی الواقع شوہر کی حیثیت سے بہت زیادہ رکھی گئی ہے تو وہ انصاف کو ملحوظ رکھ کر ادائیگی مہر کے لیے کوئی مناسب صورت تجویز کر سکتی ہے۔ اس معاملے میں قانون بنا کر عدالتوں کے ہاتھ باندھ دینا ٹھیک نہیں ہے۔
حضانت
سوال- موجودہ قانون کی رو سے بچوں کی حضانت کا حق ماں کو خاص عمروں تک حاصل ہے۔ یعنی لڑکا ہو تو سات سال اور لڑکی ہو تو بلوغ تک۔ حضانت کے لیے عمروں کا یہ تعیّن نہ قرآن میں ہے اور نہ کسی حدیث میں، بلکہ یہ بعض فقہا کا اجتہاد ہے۔ کیا آپ کے نزدیک اس میں کوئی ترمیم ہو سکتی ہے؟
جواب- اس معاملے میں صحیح بات یہ ہے کہ بچوں کا مفاد ہر دوسری چیز پر مقدم ہے۔ ہر انفرادی مقدمے میں حالات کو دیکھتے ہوئے بچوں کی تعلیم و تربیت کے لیے ماں اور باپ میں سے جس کی حضانت بھی زیادہ موزوں نظر آئے اسے ترجیح دی جائے۔ کسی ایک کے حق میں قانون بنا دینا مناسب نہیں ہے۔ البتہ قانوناً یہ لازم ہونا چاہیے کہ جس فریق کی حضانت میں بھی بچے دیئے جائیں وہ دوسرے فریق سے ان کے ملنے میں مزاحم نہ ہو۔ مشہور فقہا میں سے علاّمہ ابن تیمیہ اور ابن قیم کی رائے بھی وہی ہے جو میں نے اوپر عرض کی ہے۔
بیوی بچوں کا گزارہ
سوال- کیا آپ اس تجویز کے حق میں ہیں کہ کوئی شوہر کسی معقول وجہ کے بغیر بیوی کو گزارہ نہ دے تو بیوی کو یہ حق حاصل ہو کہ وہ خاص ’’ازدواجی و عائلی عدالت‘‘ میں اس پر دعویٰ دائر کر سکے؟
جواب- جی ہاں!
سوال- موجودہ کریمینل پروسیجر کوڈ (ضابطۂ فوجداری) کی دفعہ ۴۸۸ کے مطابق بیوی عدالت فوجداری میں نفقے کا دعویٰ کر سکتی ہے لیکن عدالت فوجداری زیادہ سے زیادہ سو روپے ماہانہ دلوا سکتی ہے۔ کیا آپ اس مقدار کے اضافے کے حق میں ہیں؟
جواب- جی ہاں۔ عدالت کو یہ حق ہونا چاہیے کہ زوجین کی حیثیت کے مطابق نفقہ دلوائے۔ کسی خاص مقدار کا تعیّن ازروئے قانون کر دینا مناسب نہیں۔
سوال- کیا آپ اس تجویز کے حق میں ہیں کہ ایک بیوی گزشتہ تین سال تک کے نفقے کا مطالبہ کر سکے؟
جواب- تین سال کی قید صحیح نہیں ہے جب سے شوہر نے بیوی کو نفقہ سے محروم کر رکھا ہو اسی وقت سے اس کا نفقہ دلوانا چاہیے۔
سوال- کیا آپ مناسب سمجھتے ہیں کہ اگر بیوی نے نکاح نامے میں میعادِ نفقہ کے متعلق خاص شرط لکھوا لی ہو تو اسے محض مدتِ عدت تک ہی نہیں بلکہ مدت مشروطہ تک نفقہ ملے؟
جواب- نکاح کے وقت اکثر ایسا ہوتا ہے کہ برادری اور خاندان کے دبائو سے، یا لحاظ مروت کی بنا پر غیر معقول شرائط تسلیم کر لی جاتی ہیں۔ اس طرح کی شرطوں کی حوصلہ افزائی نہیں ہونی چاہیے۔ نفقے کا جائز حق ایک عورت کو جس حد تک حاصل ہے اس سے زیادہ کی کوئی شرط اگر معاہدہ نکاح میں لکھوا لی گئی ہو تو اسے ازروئے قانون نافذ نہیں ہونا چاہیے۔
تولیت املاک
سوال- کیا آپ اس سے متفق ہیں کہ باپ کی عدم موجودگی میں عدالت ماں کو بچوں کی املاک کی متولیہ قرار دے بشرطیکہ عدالت کے نزدیک اس کا تقرر بچوّں کی بہبود اور املاک کے تحفظ کے منافی نہ ہو؟
جواب: یہ اس صورت میں ہونا چاہیے جب کہ بچوں کے مفاد کی حفاظت کے لیے ماں کو متولی بنانا ضروری ہو، مثلاً خاندان میں کوئی ایسا مرد موجود نہ ہو جو متولی بن سکتا ہو، یا موجود تو ہو مگر اس کے ہاتھ میں تولیت دینے سے بچوں کے مفاد کو خطرہ ہو۔
سوال- کیا آپ یہ قانون بنانے کے حق میں ہیں کہ نابالغوں کی املاک کے متولی کو یہ اختیار حاصل نہ ہو کہ وہ عدالت کی اجازت کے بغیر املاک کو فروخت یا رہن کر سکے؟
جواب- یہ تجویز بالکل مناسب ہے۔
وراثت اور وصیّت
سوال (۱) کیا آپ اس تجویز کے حق میں ہیں کہ اگر پاکستان کے کسی حصّے میں ابھی تک وراثت اور وصیت کے با رے میں شرعی قوانین پر عمل نہیں ہو رہا تو بلا تاخیر ایسا قانون وضع کیا جائے کہ اس بارے میں شرعی قوانین ہر حصۂ ملک پر عائد ہوں؟
سوال (۲) موجودہ قانونی ضابطے کی پیچیدگی کے پیش نظر عورتوں کی مجبوریوں کو رفع کرنے کے لیے کیا آپ اس تجویز کے حق میں ہیں کہ جب کبھی وراثت کے معاملے میں عورت مدعیہ ہو تو معمولی سول کورٹ اس کا مقدمہ عجلت ِانفصال کے لیے ازدواجی و عائلی عدالت میں منتقل کر دے؟
جواب- دونوں تجویزیں مناسب ہیں۔
سوال- کیا قرآن کریم میں کوئی نص صریح موجود ہے یا کسی صحیح حدیث میں یہ تعلیم ملتی ہے کہ یتیم پوتے، پوتی یا نواسے نواسی کو بہرحال محروم الارث کر دیا جائے؟
جواب- یہ مسئلہ ان اصولی احکام سے خودبخود نکلتا ہے جو قرآن و حدیث میں تقسیم میراث کے متعلق دیئے گئے ہیں اور اس کے صحیح ہونے کی دلیل یہ ہے کہ اس میں ردّوبدل کرکے یتیم پوتے پوتی یا نواسے نواسی کو وارث بنانے کی جو صورت بھی تجویز کی جائے اس سے قانون میراث کا وہ سارا نظام درہم برہم ہو جاتا ہے جو قرآن و سنّت کے اصولی احکام پر مبنی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ فقہائے اسلام شروع سے آج تک اس پر متفق رہے ہیں۔ یہاں چونکہ اس مسئلے کی پوری توضیح ممکن نہیں ہے اس لئے میں آپ کو مشورہ دوں گا کہ جماعت اسلامی کے شائع کردہ پمفلٹ ’’پوتے کی وراثت کا مسئلہ‘‘ صفحہ ۹ تا ۴۰ ملاحظہ فرمائیں۔ اس کی ایک کاپی اس جواب کے ساتھ ارسال کی جا رہی ہے۔
سوال- کیا ایسا قانون بنانا جائز ہو گا کہ ایک مسلمان کسی جائداد کو کسی کے نام اس شرط پر منتقل کر دے کہ جسے منتقل کی گئی ہے اس کی وفات کے بعد وہ جائداد منتقل کرنے والے یا اس کے ورثا کی طرف عود کر آئے گی؟
جواب- اسلامی فقہ میں اس کے لیے ’’عمریٰ‘‘ کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے اور اس کے بارے میں فقہا کے درمیان اختلاف ہے۔ امام ابوحنیفہ،ؒ امام شافعی اور امام احمد بن حنبل کا مذہب یہ ہے کہ جو جائداد اس طرح منتقل کی گئی ہو وہ پھر منتقل کرنے والے یا اس کے ورثا کی طرف عود نہیں کر سکتی خواہ انتقال کی دستاویز میں صریح طور پر یہ شرط درج ہی کیوں نہ کر دی گئی ہو کہ وہ مُعَمر کی وفات کے بعد مُعِمر یا اس کے ورثا کو واپس مل جائے گی۔ بخلاف اس کے امام مالکؒ کہتے ہیں کہ جو جائداد مُعِمر کو صرف حینِ حیات کے لیے دی گئی ہو وہ آپ سے آپ اس کی وفات کے بعد معمر یا اس کے وارثوں کی طرف منتقل ہو جائے گی۔ الاّیہ کہ معمر نے تصریح کر دی ہو کہ وہ اسے اور اس کے وارثوں کو دی گئی ہے۔ اس بارے میں احادیث زیادہ تر پہلے ہی قول کے حق میں ہیں اور غائر نظر سے دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہی قول صحیح ہے۔ جس جائداد کے ساتھ ایک شخص کا مفاد صرف حینِ حیات تک وابستہ ہو وہ آخر عمر میں آ کر اس سے دلچسپی لینا چھوڑ دیتا ہے اور اس کی اولاد بھی جانے والی چیز سے غفلت برتنے لگتی ہے۔ اس طرح حینِ حیات کا ہبہ ضیاعِ مال کا موجب ہوتا ہے اور جب اصل مالک یا اس کی اولاد کو جائداد تباہ شدہ حالت میں ملتی ہے تو اسے بھی شکایت پیدا ہوتی ہے۔ اس لیے شریعت کا منشا یہ ہے کہ ہبہ کیا جائے تو مستقل طور پر کیا جائے ورنہ حینِ حیات کے ہبہ سے نہ کرنا بہتر ہے۔ اس منشا کی توضیح اس حدیث سے ہوتی ہے کہ
اَمْسِکُوْا عَلَیْکُمْ اَمْوَالَکُمْ وَلاَ تُفْسِدُوْہَا ، فَمَنْ اَعْمَرَ عُمْرٰی فَہِیَ لِلَّذِیْ اُعْمِرَ حَیًّا وَّمَیِّتًا وَّ لِعَقَبِہٖ (احمد۔ مسلم)
اپنے اموال اپنے ہی پاس رکھو اور ان کو برباد نہ کرو جو شخص کسی کو حینِ حیات کے لئے کچھ دے تو وہ چیز اسی کی ہے جس کو وہ دی گئی، اس کی زندگی میں بھی اور اس کے مرنے کے بعد بھی، اور وہ اس کے بعد اس کے پس ماندوں کے پاس رہے گی۔
سوال- کیا آپ کی رائے میں وقف علی الاولادایکٹ ۱۹۱۳ء میں بغرض اصلاح اس ترمیم کی ضرورت ہے کہ وقف شدہ جائداد کے اضافہ قیمت یا دیگر مفاد کی خاطر بہ اِجازتِ عدالت اسے فروخت یا تبدیل کیا جائے یا کسی اور مفید طریق پر عمل ہو سکے؟
جواب- یہ ایکٹ اگر بالکل ہی ختم کر دیا جائے تو زیادہ بہتر ہے۔ مختلف اعتبارات سے یہ مضر اور پیچیدگیوں کا موجب ہے اور اسلامی شریعت میں اس کے لیے کوئی مضبوط بنیاد بھی نہیں ہے۔
انفساخِ نکاح بذریعہ عدالت
سوال- قانون انفساخِ نکاح کے سیکشن (۲) میں جو وجوہِ انفساخ درج ہیں کیا آپ کے نزدیک ان میں اضافے یا کمی کی ضرورت ہے؟
جواب- یہ قانون میرے سامنے نہیں ہے اس لیے اس سوال کا جواب دینے سے معذور ہوں۔ بہتر ہوتا کہ سوال نامے کے ساتھ اس کی متعلقہ دفعہ بھی منسلک ہوتی۔
سوال:۔ کیا ایسا قانون وضع ہونا چاہیے کہ اگر عورت انفساخِ نکاح کا مطالبہ کرے اور عدالت کی رائے میں قصور وار شوہر ہو تو طلاق حاصل کرتے ہوئے عورت سے نہ مہر واپس دلوایا جائے اور نہ دوسری چیزیں جو خاوند اسے دے چکا ہو؟
جواب- خلع کے شرعی قواعد میں اس کی گنجائش موجود ہے۔ اس لیے میں اس تجویز کی تائید کرتا ہوں۔ مگر شرط یہ ہے کہ شوہر کے قصور کا جدید تصوّر مغرب سے برآمد نہ کیا جائے بلکہ اسی تصوّر پر قناعت کی جائے جو اسلام میں پایا جاتا ہے۔
سوال- کیا زوجین کا ایسا اختلافِ مزاج جس کی وجہ سے ازدواجی زندگی ناخوش گوار ہو جائے جائز طور پر وجہِ فسخِ نکاح ہو سکتا ہے؟
جواب: اختلافِ مزاج کی صورت میں عدالت کو پہلے تحکیم کے قرآنی قاعدے پر عمل کرنا چاہیے تاکہ زوجین کے خاندان ہی کے دو معتبر آدمی اس اختلاف کو رفع کرنے کی کوشش کریں۔ پھر اگر وہ ناکام ہو جانے کی رپورٹ عدالت کو دیں تو عدالت کا کام وجوہ اختلاف کی تحقیق کرنا تو نہیں ہے، مگر یہ تحقیق اس کو ضرور کرنی چاہیے کہ آیا ان زوجین کے درمیان نباہ ممکن نہیں رہا ہے۔ اس کے بعد عدالت دو شکلوں میں سے کوئی ایک شکل اختیار کر سکتی ہے۔ یا تو عورت کے حق میں خلع کا فیصلہ کرے اگر وہ اس کی طالب ہو۔ یا شوہر کو مجبور کرے کہ وہ اسے معلّق رکھنے کے بجائے طلاق دے دے۔
سوال- قانون انفساخ نکاح کے کلاز (۳) سیکشن (۳) میں سات سال کی قید کی بنا پر نکاحِ فسخ ہو سکتا ہے۔ کیا آپ کے خیال میں یہ بہتر نہ ہو گا کہ اس مدت میں کمی کرکے چار سال کر دیا جائے؟
جواب- طویل قید کی صورت میں فسخ نکاح کا قانون کچھ صحیح نہیں ہے۔ نیز عورت کو یہ حق دینے سے اصل مسئلہ حل بھی نہیں ہوتا۔ ہمارے معاشرے میں عورت کا مزاج یہ نہیں ہے کہ شوہر اگر لمبی مدت کے لیے قید ہو گیا ہو تو بیوی فسخ نکاح کا مطالبہ لے کر عدالت میں پہنچ جائے۔ خصوصاً صاحب ِاولاد عورت تو مشکل ہی سے اس کا خیال کر سکتی ہے۔ اس لیے کثیر التعداد عورتیں اس قانون کے ہوتے ہوئے بھی اس سے کوئی فائدہ نہ اٹھائیں گی اور ان کے مصائب جوں کے توں رہیں گے۔ میرے نزدیک اس مسئلے کا صحیح حل یہ ہے کہ جیل کے قواعد میں حسب ذیل تین اصلاحات کی جائیں۔
الف- چار سال یا اس سے کم مدت کے قیدیوں کو سال میں کم از کم دو مرتبہ کم از کم پندرہ دن کے لیے پیرول پر گھر جانے کی اجازت دی جایا کرے۔
ب- چار سال سے زیادہ مدت کے قیدیوں کو جیل میں رکھنے کے بجائے ان بستیوں میں رکھا جائے جو طویل المیعاد قیدیوں کے لیے مخصوص ہوں، اور وہاں انھیں اپنے بال بچوں کے ساتھ رہنے کا موقع دیا جائے۔
ج- قیدیوں سے جیل میں جو کام لیا جائے اس کی اجرت بازار کی شرحوں کے مطابق ان کے حساب میں جمع کی جائے اور وہ یا اس کا ایک مناسب حصّہ ان کی بیویوں اور بچوں کے نفقے میں ادا کیا جاتا رہے۔
ازدواجی اور عائلی عدالت
سوال: (۱) کیا آپ اس تجویز کے حق میں ہیں کہ ہر کمشنری میں ڈسٹرکٹ اور سیشن جج کے مرتّبے کا جج ایسی عدالتوں میں مقرر کیا جائے جہاں ازدواجی و عائلی مقدمات دائر ہوں؟
(۲) کیا آپ اس تجویز کے حق میں ہیں کہ ایسے مقدمات جو ازدواجی و عائلی قوانین کے تحت آتے ہوں اور جہاں عورت مدعیہ ہو فقط ایسی مخصوص عدالتوں میں دائر ہو سکیں؟
(۳) کیا آپ اس تجویز کے حق میں ہیں کہ ایسی عدالتوں کے ضوابط موجودہ دیوانی اور فوجداری ضوابط سے الگ ہوں اور یہ قانون وضع کر دیا جائے کہ ایسی عدالت ہر مقدمے کا فیصلہ تین ماہ کے اندر اندر کر دے؟
(۴) کیا آپ اس تجویز کے حق میں ہیں کہ ایسی عدالتوں میں کورٹ فیس یا دوسرے عدالتی اخراجات نہ ہوں؟
(۵) کیا آپ اس کے حق میں ہیں کہ ایسی عدالتوں میں فریقین اپنے کسی نمایندے یا اقارب کے ذریعے پیروی کر سکیں اور کسی باقاعدہ سند یافتہ وکیل کا ہونا لازمی نہ ہو؟
(۶) کیا آپ اس تجویز کے حق میں ہیں کہ کم از کم ایک مرد اور ایک عورت بطورِ مشیر جج کے ساتھ ہوں؟
(۷) کیا آپ اس کے حق میں ہیں کہ ایسی عدالت مختلف اضلاع میں باری باری سے اپنا اجلاس طلب کرے؟
(۸) کیا آپ اس کے حق میں ہیں کہ فریقین کو ایک سے زیادہ اپیل کی اجازت نہ ہو؟
(۹) کیا آپ اس کے حق میں ہیں کہ اپیل براہِ راست ہائی کورٹ میں ہونی چاہیے اور اپیل کا فیصلہ بھی تین ماہ کے اندر ہو جانا چاہیے؟
جواب- نمبر ۱ تا ۹ کا جواب یہ ہے کہ یہ سب تجاویز بالکل درست ہیں۔
سوال- ایسی عدالت کے فیصلے سے واجب الادا رقوم کی وصولی اور دیگر احکام کی بجا آوری کے لیے آپ کیا مناسب تجاویز پیش کرتے ہیں؟
جواب- اس کے لیے وہی طریقہ ہونا چاہیے جو عام عدالتی فیصلوں کے نفاذ اور سرکاری مطالبات کی وصولی میں استعمال ہوتا ہے۔
سوال- ایسے مقدمات میں اخراجات ِمتفرقہ کو پورا کرنے کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟
جواب- جو فریق زیادتی کرنے والا ثابت ہو، یا جس نے بیجا مقدمہ بازی کرکے عدالت اور فریق ثانی کا وقت ضائع کیا ہو اس پر مناسب خرچہ ڈالا جائے جس کا ایک حصّہ فریق ثانی کو ملے اور ایک حصّہ عدالت کے مصارف میں وضع کیا جائے۔ علاوہ بریں حدِّ اعتدال سے زیادہ مقدار کے مہر کا دعویٰ اسٹامپ ڈیوٹی کے بغیر قبول نہ کیا جائے اور مہر جتنا حد سے متجاوز ہو اسی تناسب سے اسٹامپ ڈیوٹی زیادہ بھاری لگائی جائے۔ یہ تدبیریں معاشرے کی اصلاح میں بھی مددگار ہوں گی اور ان سے عدالت کا پورا خرچ نہیں تو اس کا ایک معتدبہ حصّہ ضرور حاصل ہو جائے گا۔ کچھ کمی اگر رہ جائے تو اسے سرکاری خزانے سے ادا ہونا چاہیے۔
(ربیع الثانی ۱۳۷۵ھ مطابق دسمبر ۱۹۵۵ء)
٭…٭…٭…٭…٭