اسلام کے بنیادی حقوق میں سے ایک یہ بھی ہے کہ آدمی ظلم کے خلاف آواز اٹھانے کا حق رکھتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
لَايُحِبُّ اللہُ الْجَــہْرَ بِالسُّوْۗءِ مِنَ الْقَوْلِ اِلَّا مَنْ ظُلِمَ۰ۭ [النسائ4:148]
اللہ اسے پسند نہیں کرتا کہ آدمی بدگوئی پر زبان کھولے، اِلَّا یہ کہ کسی پر ظلم کیا گیا ہو۔
یعنی مظلوم کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ ظالم کے خلاف آواز اٹھائے۔
آزادیٔ اظہار رائے
ایک اور اہم چیز جسے آج کے زمانہ میں آزادیٔ اظہار (Freedom of Expression) کہا جاتا ہے قرآن اسے دوسری زبان میں بیان کرتا ہے۔ مگر دیکھیے مقابلتاً قرآن کا کتنا بلند تصوّر ہے۔ قرآن کا ارشاد ہے کہ ’’امر بالمعروف‘‘{ ملاحظہ ہو آیت:كُنْتُمْ خَيْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَتَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ [آل عمران3:110]
} اور ’’نہی عن المنکر‘‘ نہ صرف انسان کا حق ہے بلکہ یہ اس کا فرض بھی ہے۔ قرآن کی رُو سے بھی اور حدیث کی ہدایات کے مطابق بھی۔انسان کا یہ فرض ہے کہ وہ بھلائی کے لیے لوگوں سے کہے اور بُرائی سے روکے۔ اگر کوئی برائی ہو رہی ہو تو صرف یہی نہیں کہ بس اس کے خلاف آواز اٹھائے بلکہ اس کے انسداد کی کوشش بھی فرض ہے۔ اور اگر اس کے خلاف آواز نہیں اٹھائی جاتی اور اس کے انسداد کی فکر نہیں کی جاتی تو الٹا گناہ ہو گا۔ مسلمان کا فرض ہے کہ وہ اسلامی معاشرے کو پاکیزہ رکھے۔ اگر اس معاملے میں مسلمان کی آواز بند کی جائے تو اس سے بڑا کوئی ظلم نہیں ہو سکتا۔ اگر کسی نے بھلائی کے فروغ سے روکا تواس نے نہ صرف ایک بنیادی حق سلب کیا بلکہ ایک فرض کی ادائیگی سے روکا۔ معاشرے کی صحت کو برقرار رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ انسان کو ہر حال میں یہ حق حاصل رہے۔ قرآن نے بنی اسرائیل کے تنزل کے اسباب بیان کیے ہیں۔ ان میں سے ایک سبب یہ بیان کیا ہے کہ كَانُوْا لَا يَتَنَاہَوْنَ عَنْ مُّنْكَرٍ فَعَلُوْہُ۰ۭ [المائدہ5:79] (وہ برائیوں سے ایک دوسرے کو باز نہ رکھتے تھے)یعنی کسی قوم میں اگر یہ حالات پیدا ہو جائیں کہ برائی کے خلاف کوئی آواز اٹھانے والا نہ ہو تو آخرکار رفتہ رفتہ برائی پوری قوم میں پھیل جاتی ہے اور وہ پھلوں کے سڑے ہوئے ٹوکرے کے مانند ہو جاتی ہے جسے اٹھا کر پھینک دیا جاتا ہے۔ اس قوم کے عذابِ الٰہی کے مستحق ہونے میں کوئی کسر باقی نہیں رہتی۔