اسلام کا ایک عظیم الشان اصول یہ ہے کہ کسی ظالم کو اطاعت کا حق نہیں ہے۔ قرآن کریم میں یہ بتایا گیا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم ؑ کو امام مقرر کیا اور فرمایا کہ جَاعِلُكَ لِلنَّاسِ اِمَامًا۰ۭ ]البقرہ2:124 [ تو حضرت ابراہیم ؑنے اللہ سے سوال کیا کہ وَمِنْ ذُرِّيَّتِيْ۰ۤۖ (کیا میری اولاد سے بھی یہی وعدہ ہے)۔ تو اللہ نے جواب میں ارشاد فرمایا: لَا يَنَالُ عَہْدِي الظّٰلِــمِيْنَo [البقرہ2:124] (میرا وعدہ ظالموں کے متعلق نہیں ہے)عہد کا لفظ یہاں اسی معنی میں استعمال ہوا ہے جیسا کہ انگریزی زبان میں ’’لیٹر آف اپوائنٹمنٹ‘‘ (Letter of Appointment) کا مفہوم ہے۔ اردو میں پروانۂ امر کہیں گے۔
اس آیت میں اللہ نے صاف بتا دیا کہ ظالموں کو اللہ کی طرف سے کوئی ایسا پروانۂ امر نہیں کہ وہ دوسرے سے اطاعت کا مطالبہ کریں۔{ نظام فرعونی کو قرآن نے جن وجوہ سے باطل قرار دیا ہے ان میں سے ایک یہ تھی کہ:
اِنَّ فِرْعَوْنَ عَلَا فِي الْاَرْضِ وَجَعَلَ اَہْلَہَا شِيَعًا يَّسْتَضْعِفُ طَاۗىِٕفَۃً مِّنْہُمْ [القصص28:4]
بے شک فرعون ملک میں بڑا مغرور ہو گیا تھا اوروہاں کے باشندوں کو گروہ گروہ بنا رکھا تھا اور ان میں سے ایک گروہ (بنی اسرائیل) کو اس قدر کمزور کر دیا تھا کہ… الخ
یعنی اسلام اس کا روادار نہیں کہ کسی معاشرہ میں انسانوں کو فوقانی اور تحتانی یا حکمران اور محکوم طبقوں میں بانٹا جائے۔ }چنانچہ امام ابو حنیفہؒ فرماتے ہیں کہ کوئی ظالم اس امر کا مستحق نہیں ہے کہ وہ مسلمانوں کا امام ہو۔ اگر ایسا شخص امام بن جائے تو اس کی اطاعت واجب نہیں ہے۔ اسے صرف برداشت کیا جائے گا۔