Search
Close this search box.

فہرست موضوعات

دینِ حق
اَلِّدیْن َکا مفہوم
الاِسلام کا مفہوم
قرآن کا دعوٰی کیا ہے؟
طریقِ زندگی کی ضرورت
زندگی کا انقسام پذیر نہ ہونا
زندگی کی جغرافی ونسلی تقسیم
زندگی کی زمانی تقسیم
انسان کیسے طریقِ زندگی کا حاجت مند ہے
کیا انسان ایسا نظام خود بنا سکتا ہے؟
الدین کی نوعیت
انسانی ذرائع کا جائزہ
۱۔ خواہش
۲۔ عقل
۳۔ سائنس
۴۔ تاریخ
مایوس کُن نتیجہ
اُمِّید کی ایک ہی کرن
قرآن کے دلائل
خدائی ہدایت کے پرکھنے کا معیار
ایمان کے تقاضے

دینِ حق

اس ویب سائٹ پر آپ کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ اب آپ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی رحمتہ اللہ علیہ کی کتابوں کو ’’پی ڈی ایف ‘‘ کے ساتھ ساتھ ’’یونی کوڈ ورژن‘‘ میں بھی پڑھ سکتے ہیں۔کتابوں کی دستیابی کے حوالے سے ہم ’’اسلامک پبلی کیشنز(پرائیوٹ) لمیٹڈ، لاہور‘‘، کے شکر گزار ہیں کہ اُنھوں نے اس کارِ خیر تک رسائی دی۔ اس صفحے پر آپ متعلقہ کتاب PDF اور Unicode میں ملاحظہ کیجیے۔

طریقِ زندگی کی ضرورت

یہ ظاہر ہے کہ دُنیا میں انسان کو زندگی بسر کرنے کے لیے بہرحال ایک طریقِ زندگی درکار ہے جسے وہ اختیار کرے۔ انسان دریانہیں ہے جس کا راستہ زمین کے نشیب وفراز سے خود معیّن ہو جاتا ہے۔ انسان درخت نہیں ہے جس کے لیے قوانینِ فطرت ایک راہ طے کر دیتے ہیں۔ انسان نِرا جانور نہیں ہے جس کی راہ نمائی کے لیے تنہا جبلّت ہی کافی ہو جاتی ہے۔ اپنی زندگی کے ایک بڑے حصے میں قوانینِ طبیعت کا محکوم ہونے کے باوجود انسان زندگی کے بہت سے ایسے پہلو رکھتا ہے جن میں اسے کوئی لگا بندھا راستہ نہیں ملتا کہ حیوانات کی طرح بے اختیار اس پر چلتا رہے، بلکہ اسے اپنے انتخاب سے خود ایک راہ اختیار کرنی پڑتی ہے۔ اسے فکر کی ایک راہ چاہیے جس پر وہ اپنے اور کائنات کے اُن بہت سے مسائل کو حل کرے جنھیں فطرت اس کے سوچنے والے دماغ کے سامنے پیش تو کرتی ہے مگر اُن کا کوئی حل غیر مشتبہ زبان میں نہیں بتاتی۔ اسے علم کی ایک راہ چاہیے جس پر وہ اُن معلومات کو منظم کرے جنھیں فطرت اس کے حواس کے ذریعے سے اس کے ذہن تک پہنچاتی تو ہے مگر انھیں بطور خود منظم کرکے اس کے حوالے نہیں کر دیتی۔ اسے شخصی برتائو کے لیے ایک راہ چاہیے جس پر وہ اپنی ذات کے بہت سے ان مطالبات کو پورا کرے جن کے لیے فطرت تقاضا تو کرتی ہے مگر انھیں پورا کرنے کا کوئی مہذب طریقہ معین کرکے نہیں دیتی۔ اسے گھریلو زندگی کے لیے، خاندانی تعلقات کے لیے، معاشی معاملات کے لیے، ملکی انتظام کے لیے، بین الاقوامی ربط وتعلق کے لیے اور زندگی کے بہت سے دوسرے پہلوئوں کے لیے بھی ایک راہ درکار ہے جس پر وہ محض ایک شخص ہی سے نہیں بلکہ ایک جماعت، ایک قوم، ایک نوع کی حیثیت سے بھی چلے اور ان مقاصد تک پہنچ سکے جو اگرچہ فطرتاً اس کے مقصود ومطلوب ہیں مگر فطرت نے نہ تو ان مقاصد کو صریح طور پر اس کے سامنے نمایاں کیا ہے اور نہ ان تک پہنچنے کا ایک راستہ معین کر دیا ہے۔

شیئر کریں