طبیعیات میں یہ مسئلہ اس پہلو سے آتا ہے کہ تمام کائنات کی طرح انسان کے افعال بھی سلسلۂ اسباب سے وابستہ ہیں اور اس سے جو کچھ بھی صادر ہوتا ہے کسی سبب یا متعدد اسباب کے اثر سے ہوتا ہے۔ ایک فعل کے وجود میں آنے کے لیے جن اسباب کی ضرورت ہے اگر وہ جمع نہ ہوں تو فعل کا وجود میں آنا متمنع ہے اور اگر جمع ہو جائیں تو اس کا وجود میں آنا واجب ہے۔ ان دونوں صورتوں میں انسان مجبور محض ہے۔ اس لحاظ سے طبیعات کا میلان ہمیشہ سے جبر ہی کی طرف رہا ہے۔ چنانچہ مادئیین کا ابوالآباء ڈمیقراطیس (Democritus) جسے قدمائے طبیعیین میں ایک ممتاز حیثیت حاصل ہے۔ اب سے اڑھائی ہزار برس پہلے صاف کہہ چکا ہے کہ عالم کی تمام اشیا قانونِ فطرت میں جکڑی ہوئی ہیں۔
تاہم جب تک طبیعین نے نفس اور مادہ کے جوہری اختلافات سے انکار نہیں کیا تھا، اور جب تک وہ قوائے نفسیہ کو عالم مادے سے کسی نہ کسی حد تک ماوراء سمجھتے تھے، اس وقت تک قدریت کے لیے طبیعیات میں کچھ نہ کچھ گنجائش نکل سکتی تھی، لیکن جب اٹھارھویں صدی کے آغاز سے علوم طبیعیہ نے غیر معمولی ترقی کی اور سائنس کی دنیا میں تحقیق و اکتشاف کے نئے نئے دروازے کھلنے لگے تو نفس اور روح اپنی تمام قوتوں سمیت ترکیب مادی اور مادہ کے کیمیاوی امتزاجات کا نتیجہ قرار دے دیے گئے اور انسان ایک نفسیاتی و روحانی وجود کے بجائے محض ایک مشینی وجود رہ گیا۔ اس طرح طبیعیات کے حدود سے قدریت بیک بینی و دوگوش خارج کر دی گئی اور سائنس نے اپناپورا وزن جبر کے پلڑے میں رکھ لیا۔
علم الحیات (biology) اور علم وظائف الاعضاء (physiology) کی جدید تحقیقات، جن کی بدولت علم النفس اب قریب قریب انھی دونوں علوم کی شاخ بن گیا ہے، یہ حکم لگا رہی ہیں کہ دماغ کی شکل اور اس کی ساخت اور جِرمِ دماغی و نظام عصبی کی کیفیت ہی پر انسان کی فطرت اصلیہ کا مدار ہے۔ اُسی کی خرابی سے انسان کی فطرت خراب ہوتی ہے اور اس سے بُرے رجحانات اور بُرے اعمال کا ظہور ہوتا ہے اور اسی کی بہتری سے اس کی فطرت اچھی ہوتی ہے اور وہ اچھے میلانات اور نیک اعمال کا مظہر و مصدر بنتا ہے۔ اب یہ ظاہر ہے کہ جِرمِ دماغی اور نظامِ عصبی کی ساخت میں انسان کے آزاد ارادے کا کوئی دخل نہیں ہے اس لیے اس مادی نظریے کو تسلیم کر لینے کے بعد یہ ماننا لازم ہو جاتا ہے کہ انسان کے اندر سرے سے آزادی کا کوئی عنصر ہے ہی نہیں۔ جس طرح لوہے کی مشین ایک لگے بندھے اصول پر کام کرتی ہے۔ اُسی طرح انسان بھی طبیعیات کے ایک زبردست قانون کے تحت کام کر رہا ہے۔ اخلاق کی زبان میں جس چیز کو ہم نیکی اور حسنِ سیرت سے تعبیر کرتے ہیں، سائنس کی زبان میں وہ محض عناصر جسمانی کی ترکیب صحیح اور نظام عصبی کی درست حالت ہے۔ اخلاق جسے بدی اور بدچلنی سے تعبیر کرتا ہے، سائنس اس کو جِرمِ دماغی اور نظامِ عصبی کا سقم قرار دیتا ہے۔ اس لحاظ سے نیکی اور صحت، بدی اور بیماری میں کوئی فرق نہیں رہتا، جس طرح ایک شخص اپنی اچھی صحت کے لیے مدح اور بیماری کے لیے ذم کا مستحق نہیں ہے۔ اسی طرح اپنی بدچلنی یا نیک چلنی کے لیے بھی وہ مدح یا ذم کا مستحق نہ ہونا چاہیے۔
اس کے ساتھ ایک دوسرا زبردست قانون جو جبریت کی تائید کرتا ہے، قانونِ توریث (law of heredity) ہے جس کی بنیادوں کو ڈارون اور رسل ویلیس (Russel wallace) اور ان کے متبعین نے استوار کیا ہے۔ اس کی رو سے ہر شخص کی فطرت و سیرت اسی سانچے میں ڈھلتی ہے جو زمانہ ہائے ماسبق سے نسلاً بعد نسلٍ چلا آ رہا ہے اور یہ موروثی سانچہ جس شکل میں فطرت و سیرت کو ڈھالتا ہے اس کو بدل دینے پر کوئی شخص قادر نہیں ہے۔ اس لحاظ سے آج ایک شخص سے جو برائی ظاہر ہوتی ہے وہ گویا ایک پھل ہے اس برے بیج کا جواب سے سو برس پہلے اس کے پردادا نے بویا تھا، اور پردادا میں جو برائی تھی وہ بھی اس کو اپنی گزشتہ نسلوں سے ملی تھی۔ اس پھل کے ظہور و عدم میں اس شخص کے ارادہ و اختیار کو کچھ بھی دخل نہیں ہے، بلکہ وہ اسی طرح اس کے اظہار پر مجبور ہے جس طرح ایک آم کا درخت جو ایک کھٹے آم کی گٹھلی سے اُگا ہے، کھٹا آم پیدا کرنے پر مجبور ہے۔
تاریخ کا نظریہ بھی جبر ہی کا مؤید ہے۔ اس کی رُو سے اسبابِ خارجی کی تاثیرات مجموعی حیثیت سے اُس پوری انسانی جماعت کی فطرت و سیرت کو متاثر کرتی ہیں جو ان اسباب کے تحت رہتی ہو اور اسی بنا پر ایک مجموعۂ اسباب کے زیراثر رہنے والی قوم کے خصائص کسی دوسرے مجموعہ اسباب کے زیر اثر رہنے والی قوم کے خصائص سے مختلف ہوتے ہیں۔ اگر ہم عمیق نگاہ سے دیکھیں تو دو قوموں کے اختلاف مزاج اور اختلاف سیرت کا مرجع ان اسبابِ خارجی کے اختلاف کو قرار دے سکتے ہیں جن کے تحت ان دونوں نے نشوو نما پایا ہو۔ اسی طرح اگر ہم اسباب خارجی کی روشنی میں کسی قوم کے خصائص کو اچھی طرح سمجھ لیں تو پوری صحت کے ساتھ پیشگوئی کر سکتے ہیں کہ وہ کن حالات میں کیا روش اختیار کرے گی۔ فرد کے شخصی ارادہ و اختیار کے لیے اس ہمہ گیر قانون کی مقرر کی ہوئی راہ سے انحراف کی کوئی گنجائش ہی نہیں ہے۔ اگر افراد کی شخصی آزادی تسلیم کر لی جائے اس زبردست مشابہت کی کوئی توجیہہ نہیں یک جا سکتی جو تو صدیوں تک ایک قوم کے اعمال و افعال میں دیکھی جاتی ہے، کیونکہ یہ کسی طرح تصور نہیں کیا جا سکتا کہ قوم کے تمام ا فراد نے متفق ہو کر بلا ارادہ ایک جیسے اعمال کرتے رہنے کا فیصلہ کیا ہو۔
اعدادوشمار کے فن نے بھی تجربی بنیاد پر جبر کی حمایت کی ہے۔ بڑی بڑی آبادیوں کے متعلق مختلف حالات میں جو اعدادو شمار فراہم کیے گئے ہیں انھیں جب اُن خارجی اسباب کی روشنی میں دیکھا گیا جن کے تحت وہ حالات پیش آئے تھے تو معلوم ہوا کہ ہر جماعت میں مخصوص اسباب کے اثر سے مخصوص حالات پیش آتے ہیں، اور ان حالات میں کثیر افراد کے اعمال بالکل ایک دوسرے سے مشابہ ہوتے ہیں، اس قسم کے تجربات سے اب یہ علم اس حد تک ترقی کر چکا ہے کہ ایک ماہر فن ایک بڑی آبادی کے متعلق قریب قریب پوری صحت کے ساتھ یہ حکم لگا سکتا ہے کہ وہ فلاں قسم کے حالات میں فلاں عمل کرے گی۔ وہ کہہ سکتا ہے کہ ایک سال کے اندر شہر لندن میں کتنی خودکشیاں ہوں گی۔ وہ کہہ سکتاہے کہ ایک سال کے اندر شہر شکاگو میں کتنی چوریاں ہوں گی۔ اگر ایک ملک میں دوسرے ملک کی بہ نسبت قتل کے اعدادوشمار کا تناسب زیادہ ہو تو قریب قریب صحت کے ساتھ کہہ سکتا ہے کہ اس کے معاشی یا عمرانی یا طبیعی اسباب یہ ہیں۔ ایک ملک یا ایک بڑی آبادی میں جس طرح اموات، پیدائش، جرائم اور دوسرے واقعات کا اوسط سالہاسال تک یکسانی کے ساتھ چلتا رہتا ہے اور جس طرح اجتماعی حالات کے تغیر و تبدل سے ان اعدادوشمار میں اتار چڑھائو ہوا کرتا ہے۔ اس کی توجیہہ بجز اس کے اور کسی چیز سے نہیں کی جا سکتی کہ اسباب خارجی کی تاثیرات بڑی بڑی آبادیوں پر اس ہمہ گیری اور اس قوت کے ساتھ عمل کرتی ہیں کہ افراد کے شخصی ارادے ان کے خلاف چل نہیں سکتے۔