Search
Close this search box.

فہرست موضوعات

اسلامی ریاست میں ذمیّوں کے حقوق
غیر مسلم رعایا کی اقسام:
معاہدین:
مفتوحین:
ذمّیوں کے عام حقوق
حفاظت جان
فوجداری قانون:
دیوانی قانون:
تحفظ عزت:
ذمّہ کی پائیداری:
شخصی معاملات:
مذہبی مراسم:
عبادت گاہیں:
جزیہ و خراج کی تحصیل میں رعایات:
تجارتی ٹیکس
فوجی خدمت سے استثناء:
فقہائِ اسلام کی حمایت
زائد حقوق جو غیر مسلموں کو دیے جا سکتے ہیں
نمائندگی اور رائے دہی:
تہذیبی خود اختیاری:
آزادیٔ تحریر و تقریر وغیرہ
تعلیم:
ملازمتیں
معاشی کاروبار اور پیشے:
غیر مسلموں کے لیے تحفظ کی واحد صورت:
ضمیمۂ اوّل
ضمیمۂ دوم
حقوق شہریت

اسلامی ریاست میں ذِمّیوں کے حقوق

اس ویب سائٹ پر آپ کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ اب آپ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی رحمتہ اللہ علیہ کی کتابوں کو ’’پی ڈی ایف ‘‘ کے ساتھ ساتھ ’’یونی کوڈ ورژن‘‘ میں بھی پڑھ سکتے ہیں۔کتابوں کی دستیابی کے حوالے سے ہم ’’اسلامک پبلی کیشنز(پرائیوٹ) لمیٹڈ، لاہور‘‘، کے شکر گزار ہیں کہ اُنھوں نے اس کارِ خیر تک رسائی دی۔ اس صفحے پر آپ متعلقہ کتاب PDF اور Unicode میں ملاحظہ کیجیے۔

ضمیمۂ دوم

شہریّت اور اس کی بنیادیں
(’’اسلامی دستور کی تدوین ۱؎‘‘ کے موضوع پر مولانا مودودیؒ نے بار ایسوسی ایشن کراچی۔ میں ۲۴ نومبر ۵۲ء؁ کو ایک تقریر فرمائی تھی جس میں ’’شہریت اور اس کی بنیادیں‘‘ اور ’’حقوقِ شہریت‘‘ کے ضمن میں ان حقوق کو بیان فرمایا تھا جو اسلام نے ذمّیوں کو عطا کیے ہیں۔ یہاں موضوع کی مناسب کے لحاظ سے تقریر مذکور کا مندرجہ ذیل حصہ نقل کیا جاتا ہے)
اس شہریت کے مسئلے کو لیجئے۔ اسلام چونکہ ایک نظام فکر و عمل ہے اور اسی نظام کی بنیاد پر وہ ایک ریاست قائم کرتا ہے، اس لیے وہ اپنی ریاست میں شہریت کی دو قسمیں قرار دیتا ہے۔ پھر چونکہ راستبازی و حق گوئی اسلام کی اصل روح ہے‘ اس لیے وہ بغیر کسی مکر و فریب کے صاف صاف شہریت کی اس تقسیم کو بیان بھی کر دیتا ہے، دنیا کو دھوکہ دینے کے لیے یہ طریقہ اختیار نہیں کرتا کہ زبان سے اپنے سب شہریوں کو یکساں قرار دے اور عمل میں ان کے درمیان نہ صرف تمیز کرے بلکہ ان کے ایک عنصر کو انسانی حقوق تک دینے میں بے انصافی سے کام لے، جیسا کہ امریکہ میں حبشیوں کا اور روس میں غیر اشتراکیوں کا اور تمام دنیاکی لادینی جمہوریتوں میں قومی اقلیتوں کا حال ہے۔
شہریت کی دو قسمیں جو اسلام نے کی ہیں، یہ ہیں:
ایک مسلم۔ دوسرے ذمّی۔
(۱) مسلم شہریوں کے باب میں قرآن کہتا ہے کہ:
اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَھَاجَرُوْا وَجَاھَدُوْا بِاَمْوَالِھِمْ وَاَنْفُسِھِمْ فِی سَبِیْلِ اللّٰہِ وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَلَمْ یُھَاجِرُوْا مَالَکُمْ مِنْ وَّلَاَتِیْھِمْ مِنْ شَیْیٍٔ حَتّٰی یُھَاجِرُوْا ۔
(الانفال۔۱۰)
’’جو لوگ ایمان لائے اور جنہوں نے ہجرت کی اوراپنی جان و مال سے راہِ خدا میں جہاد کیا، اور جن لوگوں نے ان کو جگہ دی اور انکی مدد کی، وہ ایک دوسرے کے ولی ہیں‘ اور جو لوگ ایمان لائے مگر ہجرت کرکے (دارالاسلام میں ) نہ آئے‘ تمہارے لیے ان کی ولایت میں سے کچھ نہیں ہے جب تک کہ وہ ہجرت نہ کریں۔ ‘‘
اس آیت میں شہریت کی دو بنیادیں بیان کی گئی ہیں۔ ایک، ایمان۔ دوسرے دارالاسلام کی رعایا ہونا یا بن جانا۔ اگر کوئی شخص ایمان رکھتا ہو، مگر دارالکفر کی تابعیت ترک کرکے (جسے لفظ ہجرت سے تعبیر کیاگیا ہے) دارالاسلام میں نہ آ بسے، تو وہ دارالاسلام کا شہری نہیں ہے۔ اس کے برعکس تمام ایسے اہل ایمان جو دارالاسلام کے باشندے ہوں، قطع نظر اس سے کہ وہ دارالاسلام ہی میں پیدا ہوئے ہوں یا کسی دارالکفر سے ہجرت کرکے آئے ہوں ۱؎ دارالاسلام کے یکساں شہری اور ایک دوسرے کے ولی (حامی ومددگار) ہیں۔
ان مسلم شہریوں پر اسلام نے اپنے پورے نظام کواٹھانے کی ذمہ داری ڈالی ہے، کیونکہ وہی اصولاً اس نظام کو حق مانتے ہیں، اُن پر وہ اپنا پورا قانون نافذ کرتا ہے۔ ان کو اپنے تمام مذہبی‘ اخلاقی، تمدنی اور سیاسی احکام کا پابند کرتا ہے۔ ان کے ذمّے اپنے سارے واجبات و فرائض عائد کرتا ہے۔ ان سے اپنی ریاست کے اولی الامر کا انتخاب کریں، اس کو چلانے والی پارلیمنٹ (مجلس شوریٰ) میں شریک ہوں، اور اُس کے کلیدی مناصب پر مقرر کیے جائیں تاکہ اس اصولی ریاست کی پالیسی ٹھیک اس کے بنیادی اصولوں کے مطابق چل سکے۔ اس قاعدے کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ عہد نبوی اور عہدِ خلافتِ راشدہ میں ایک مثال بھی اس امر کی نہیں مل سکتی کہ کسی ذمّی کو مجلسِ شوریٰ کا رکن، یا کسی علاقے کا گورنر، یا کہیں کا قاضی، یا کسی شعبۂ حکومت کا وزیر یا ناظم، یا فوج کا کمانڈر بنایا گیا ہو، یا خلیفہ کے انتخاب میں حصہ لینے کا موقع دیا گیا ہو۔ حالانکہ ذمّی خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں موجود تھے اور خلافت راشدہ کے دور میں تو ان کی آبادی کروڑوں تک پہنچی ہوئی تھی۔ اگر فی الواقع ان امور میں حصہ لینا ان کا حق ہوتا تو ہم نہیں سمجھ سکتے کہ اللہ کا نبی ان کی حق تلفی کیسے کر سکتا تھا وہ نبی کے براہ راست تربیت یافتہ لوگ مسلسل ۳۰ برس اس حق کو ادا کرنے سے کس طرح باز رہ سکتے تھے۔
(۲) ذمّی شہریوں سے مراد وہ تمام غیر مسلم ہیں جو اسلامی ریاست کے حدود میںرہ کر اس کی اطاعت ووفاداری کا اقرار کریں، قطع نظر اس سے کہ وہ دارالاسلام میں پیدا ہوئے ہوں یا باہر سے آ کر ذمّی بننے کی درخواست کریں، اس طرح کے شہریوں کو اسلام اُن کے مذہب اور کلچر کے تحفظ اور جان ومال و آبرو کے تحفظ کی ضمانت دیتا ہے، ان پر صرف اپنے ملکی قوانین، نافذ کرتا ہے، ان کو ملکی قوانین میں مسلمانوں کے برابر کے حقوق دیتا ہے، ان کے لیے کلیدی مناصب کے سوا ہر قسم کی ملازمتوں کے دروازے کھلے رکھتا ہے، ان کو شہری آزادیوں میں مسلمانوں کے ساتھ برابرکا شریک کرتا ہے، ان کے ساتھ معاشی معاملات میں مسلمانوں سے الگ کوئی امتیازی سلوک روا نہیں رکھتا، اور مملکت کے دفاع کی ذمّہ داری سے انہیں مستثنیٰ کرکے اس کا پورا بار صرف مسلمانوں پر ڈالتا ہے۔
ان دو قسم کی شہریتوں پر اور ان کی الگ الگ حیثیتوں پر اگر کسی کواعتراض ہو تو وہ پہلے اُس سلوک پر ایک نگاہ ڈال لے جو دنیا کی دوسری اصولی ریاستیں اپنے اصول کے نہ ماننے والوں سے‘ اور قومی ریاستیں اپنے حدود میں رہنے والی قومی اقلیتوں سے کر رہی ہیں۔ درحقیقت یہ بات پورے چیلنج کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ ایک ریاست کے اندر اُس کی بنیادوں سے مختلف بنیادِ وجود رکھنے والوں کی موجودگی جو پیچیدگی پیدا کرتی ہے اس کو اسلام سے زیادہ انصاف، رواداری اور فیاضی کے ساتھ کسی دوسرے نظام نے حل نہیں کیا ہے۔ دوسروں نے اس پیچیدگی کو زیادہ تو دو ہی طریقوں سے حل کیا ہے۔ یا تو انہیں مٹا دینے کی کوشش کی ہے یا شودر بنا کر رکھا ہے۔ اسلام اس کے بجائے یہ طریقہ اختیار کرتا ہے کہ انصاف کے ساتھ اپنے اصول کے ماننے والوں اور نہ ماننے والوں کے درمیان ایک حد قائم کر دیتا ہے۔ جو ماننے والے ہیں ان کو پوری طرح اپنے اصولوں کا پابند کرتا ہے اور ان اصولوں کے مطابق ریاست کا نظام چلانے کی ذمہ داری ان پر ڈال دیتا ہے۔ اور جو ان اصولوں کو قبول نہیں کرتے ان کو صرف اُسی حد تک پابند کرتا ہے۔ جو ملک کے نظم کو برقرار رکھنے کے لیے ضروری ہے اور انہیں ریاست کا نظام چلانے کی ذمہ داری سے سبکدوش کرنے کے بعد ان کے تمام تمدنی اور انسانی حقوق کے تحفظ کی ضمانت دیتا ہے۔

شیئر کریں